انڈین حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی شمال مشرقی ریاست سکم میں کلاؤڈ برسٹ (بادل پھٹنے) سے بڑے پیمانے پر سیلابی ریلہ آنے کے بعد 22 فوجیوں سمیت 102 افراد لاپتہ ہیں جبکہ 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
انڈین حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی شمال مشرقی ریاست سکم میں کلاؤڈ برسٹ (بادل پھٹنے) سے بڑے پیمانے پر سیلابی ریلہ آنے کے بعد 22 فوجیوں سمیت 102 افراد لاپتہ ہیں جبکہ 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بادل پھٹنے کا یہ واقعہ ریاست سکم کے شمال میں ایک جھیل کے بالائی حصے میں ہوا جس کے نتیجے میں وادی لاچن میں دریائے تیستا میں پانی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور قریبی ڈیم سے مزید پانی دریا میں چھوڑے جانے کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ ایک ریاستی اہلکار نے بتایا کہ ڈیم کی ٹنلز میں 14 افراد پھنسے ہوئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انڈین فوج کے ترجمان کی طرف سے جاری کی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ پانی کا ایک بڑا ریلہ گھنے جنگل سے ہوتا ہوا وادی سے بہہ رہا ہے جس کے باعث علاقے میں متعدد سڑکیں بہہ گئی ہیں اور بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ریاست کے مختلف مقامات پر تین ہزار سیاح بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ ریاست کے ڈیزاسٹر مینجمینٹ کے سربراہ پربھاکر رائے نے کہا کہ ’خطے میں چھ رابطہ پل بہہ گئے اور سکم کو ملک کے باقی حصوں سے جوڑنے والی قومی شاہراہ کو بری طرح نقصان پہنچا۔‘
واضح رہے کہ لوہناک جھیل دنیا کے تیسرے سب سے اونچے پہاڑ کانگچنجنگا کے گرد موجود گلیشیئر کے بیس کیمپ پر واقع ہے اور انڈیا کی خلائی ایجنسی اسرو کی جانب سے شائع کردہ سیٹلائیٹ تصاویر کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے کہ 28 ستمبر کو 167 ہیکٹر پر پھیلی یہ جھیل چار اکتوبر کو سکڑ کر صرف 60 ہیکٹر تک محدود ہو گئی۔
ادھر انڈین فون نے علاقے میں لاپتہ ہونے والے فوجیوں کو تلاش کرنے کے لیے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ حکام کے مطابق بدھ کی رات کو ایک فوجی تلاش کر لیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو حکام نے بتایا ہے کہ ریسکیو حکام نے پانی سے ایک بچے کی لاش بھی نکالی ہے۔
سکم کی ہمسایہ ریاست مغربی بنگال کے شمالی علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں اور دارجیلنگ، کلمپونگ، کوچ بیہار زیر آب آئے۔ ریاست کی وزیر اعلی ممتا بنیر جی کے مطابق 10 ہزار افراد کو 190 ریلیف کیمپس میں منتقل کیا جا چکا ہے۔
ریاست کے دیگر علاقوں میں بھی ریسکیو آپریشن جاری ہیں کیونکہ پورا علاقہ سیلاب میں ڈوب گیا ہے اور اس سیلابی ریلے کے باعث گھروں کو نقصان پہنچا ہے اور لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ حکام نے نشیبی علاقوں سے لوگوں کو نکالنا شروع کر دیا۔
ریاست کے شمالی علاقے کو دیگر علاقوں سے ملانے والے دو پل سیلابی ریلے میں بہہ گئے ہیں جس کے باعث ٹریفک کا نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے۔
ہمالیائی ریاست میں سیلاب اور قدرتی آفات کا خطرہ رہتا ہے۔ گذشتہ سال ریاست میں شدید سیلاب نے دسیوں ہزار افراد کو بے گھر کیا تھا جبکہ کم از کم 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اے ایف پی نے مقامی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ تین شہری گھروں میں پانی گھس جانے کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔
سکم نیپال، تبت اور چین کی سرحد کے ساتھ ملحقہ ریاست ہے اور یہاں بڑی تعداد میں انڈین فوج کی موجودگی ہے۔
انڈیا اپنے شمالی پڑوسی ملک چین کی فوجی جارحیت کے باعث یہاں دستوں کو الرٹ رکھتا ہے کیونکہ سکم کے کچھ حصوں پر چین اپنا دعویٰ کرتا ہے۔
جنوری 2021 میں سکم کو تبت سے ملانے والے ناکو لا پاس کے معاملے پر ہونے والی جھڑپوں میں دونوں طرف سے جانی نقصان ہوا تھا۔
چین اور انڈیا کے درمیان سنہ 1962 میں اس خطے میں سرحدی جنگ ہوئی تھی جس کے بعد سے دسیوں ہزار فوجی سرحدی علاقوں میں تعینات کیے گئے ہیں۔
مون سون کے موسم میں اچانک سیلاب آنا عام ہیں، یہ جون میں شروع ہوتے ہیں اور عام طور پر ستمبر کے آخر تک جاری رہتے ہیں۔ اکتوبر تک مون سون کی بارشیں عام طور پر ختم ہو جاتی ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ان کی تعداد اور شدت میں اضافہ کر رہی ہے۔
’کلاؤڈ برسٹ‘ ہوتا کیا ہے؟
’کلاؤڈ برسٹ‘ یا بادل پھٹنے کا مطلب کسی مخصوص علاقے میں اچانک بہت کم وقت میں گرج چمک کے ساتھ بہت زیادہ اور موسلادھار بارش کا ہونا ہے جس کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہو جائے۔
بادل پھٹنے کا واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب زمین یا فضا میں موجود بادلوں کے نیچے سے گرم ہوا کی لہر اوپر کی جانب اٹھتی ہے اور بادل میں موجود بارش کے قطروں کو ساتھ لے جاتی ہے۔
اس وجہ سے عام طریقے سے بارش نہیں ہوتی اور نتیجے میں بادلوں میں بخارات کے پانی بننے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے کیونکہ بارش کے نئے قطرے بنتے ہیں اور پرانے قطرے اپ ڈرافٹ کی وجہ سے واپس بادلوں میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔
اس کا نتیجہ طوفانی بارش کی شکل میں نکلتا ہے کیونکہ بادل اتنے پانی کا بوجھ سہار نہیں سکتا۔
کلاؤڈ برسٹ کے واقعات ماضی میں پاکستان اور انڈیا اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پیش آتے رہے ہیں جہاں کم اونچائی والے مون سون بادل اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتے ہیں اور برس پڑتے ہیں۔