انڈیا میں تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ مالدیپ آہستہ آہستہ انڈین فوجیوں کو نکال سکتا ہے یا چین کے ساتھ ’ایف ٹی اے‘ کی توثیق کر کے سابق صدر ابراہیم صالح کے انڈیا نواز موقف کو پلٹ سکتا ہے۔ اس سے چین، مالدیپ اور بحر ہند میں مزید طاقتور ہو گا۔

انڈیا کی شمالی سرحد لداخ، جہاں انڈیا اور چین کی کشیدگی کئی مہینوں سے جاری ہے، وہاں سے ہزاروں کلومیٹر دور یہ دونوں ایشیائی ہمسایہ ملک مالدیپ میں اثر و رسوخ کے لیے کوشاں ہیں، جو بحر ہند میں انڈیا کے قریب ترین ساحل سے کم از کم 500 کلومیٹر دور واقع ہے۔
مالدیپ کے نو منتخب صدر محمد معیزو، جنھیں چین نواز سمجھا جاتا ہے، نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے بحر ہند کے پڑوسی کی سکیورٹی فورسز کو ملک سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔
یہ انڈیا کے لیے، جس کا مالدیپ کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے، ایک تشویشناک پیشرفت ہے۔ انڈیا کی کوشش ہے کہ وہ بحر ہند میں، جو انڈیا اور باقی دنیا کے لیے اہم تزویراتی اہمیت کا حامل خطہ ہے، چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کر سکے لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ معیزو کا انتخاب انڈیا کے لیے دھچکہ ہے۔
مالدیپ میں ہونے والی یہ حالیہ پیشرفت چین کے مقابلے میں انڈیا کے اثر و رسوخ کی حد کو بھی نمایاں کرتی ہے۔
کالم نگار سدانند دھومے کا کہنا ہے کہ ’مالدیپ انڈیا کی خود شناسی اور حقیقت کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے۔‘
’انڈین قوم پرست، پاکستان کو انڈیا کی جاگیری ریاست میں تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن مالدیپ نے ایک انڈین نواز لیڈر کو ایسے لیڈر سے تبدیل کر دیا جس کا نعرہ تھا انڈیا کو باہر کرنا۔‘
تاہم انڈیا اس پیشرفت سے نمٹنے کے لیے مالدیپ کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کا خواہاں نظر آ رہا ہے اور یہ انڈین وزارت خارجہ کے ایک حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔
وزارت کے ترجمان ارندم باغچی نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران انڈیا اور مالدیپ تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پڑوسی ہونے کے ناطے ہمیں اپنے خطے کو درپیش ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قریبی تعاون کرنے کی ضرورت ہے، جیسے کہ بین الاقوامی جرائم کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات سے متعلق امداد۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم ان تمام مسائل پر مالدیپ میں نئی انتظامیہ کے ساتھ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔‘
https://twitter.com/dhume/status/1709216111672111109?s=20
یہ واضح ہے کہ معیزو کی انڈیا مخالف انتخابی مہم کے باوجود انڈیا کے مالدیپ کی نئی حکومت کی طرف ہاتھ بڑھانے کی وجہ چین کے غلبے کا خوف ہے اور یہ ایسا پہلو ہے جو اب واضح نظر آ رہا ہے۔
خاص طور پر اس لیے بھی کہ حالیہ انتخابات میں امیدواروں نے چین یا انڈیا کے لیے اپنی ترجیحات ظاہر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
معیزو کی انتخابی مہم کا نعرہ ہی ’انڈیا آؤٹ‘ تھا، جس کے تحت وہ ملک سے انڈین سکیورٹی فورسز کو نکالنے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن یہ چیلنج انڈیا کے لیے مالدیپ تک ہی نہیں محدود۔
چین کی انڈیا کے قریبی پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور سری لنکا میں موجودگی کافی مضبوط ہے حالانکہ دونوں ممالک کے انڈیا کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات ہیں لیکن چین اب ان ممالک میں واضح طور پر نمایاں اثر و رسوخ رکھتا ہے جن کے انڈیا کے ساتھ روایتی طور پر سماجی، ثقافتی اور لسانی تعلقات تھے۔
چین واحد ملک ہے جس کے پاس بحر ہند کے چھ جزائر، سری لنکا، مالدیپ، ماریشس، سیشلز، مڈغاسکر اور کوموروس، میں سے ہر ایک میں سفارتخانہ ہے۔ اس کے علاوہ چین کا خطے کے دیگر اہم کھلاڑیوں کے برعکس بحر ہند میں کسی ملک کے ساتھ علاقائی یا خودمختاری کا کوئی تنازع نہیں۔
اور یہ ممالک اس علاقے میں ہیں جہاں سے بڑے پیمانے پر بحری تجارت ہوتی ہے، جو یورپ، عرب اور افریقہ کو انڈیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے تجارتی راستے کے طور پر جوڑتے ہیں۔ چین کے خام تیل کے دس بڑے سپلائرز میں سے نو بحر ہند سے ہو کر گزرتے ہیں۔
دوسری طرف بحر ہند میں انڈیا نے سیشلز کے ساتھ ایک فضائی پٹی اور بحری جیٹی بنانے کا معاہدہ کیا تھا لیکن مخالفت کی وجہ سے اسے سنہ 2018 میں روکنا پڑا تھا۔
اس تناظر میں مالدیپ کا ملک سے انڈیا کو باہر کرنے کا اعلان انڈیا کے لیے ایک تشویشناک قدم ہے۔
ساتھ ہی مالدیپ بیجنگ کے ساتھ ایک آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کر چکا ہے اور چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ میں بھی شمولیت اختیار کر لی ہے۔
اس کا چین پر انحصار اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سری لنکا کی طرح مالدیپ بھی چین سے اپنے جی ڈی پی کے ایک بڑے حصے کا قرض دار ہے اور جس کے بارے میں مالدیپ میں بھی لوگوں کو تشویش ہے۔
لیکن اس کے برعکس مالدیپ کی ایک قابل ذکر تعداد، جیسا کہ حالیہ انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں، انڈیا کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔
محمد معیزو کی پارٹی اور ان سے منسلک جماعتوں کی طرف سے انتخابات کے دوران انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف تشدد جیسے جذباتی مسئلے بھی اٹھائے گئے تھے جو حالات کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔
’او آر ایف‘ تھنک ٹینک کے آدتیہ گودارا شیومورتی کا کہنا ہے کہ ’بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم نے سیاست دانوں کو مزید قوم پرستانہ جذبات کو اپنانے پر مجبور کیا۔‘
شیو مورتی ایک حالیہ مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ ’ہند اور بحرالکاہل جیسے سخت مقابلے والے علاقے میں، جہاں مالدیپ کو بہت زیادہ توجہ حاصل ہو رہی ہے، خارجہ پالیسی کی یہ سیاست ممکنہ طور پر ملک کی گھریلو سیاست کو تشکیل دے گی اور اس کی جغرافیائی سیاست کو بھی نئے سرے سے متعین کرے گی۔‘
لیکن اگر مالدیپ کی مقامی سیاست کی گہما گہمی کے باوجود انڈیا ہاتھ بڑھانے کا خواہشمند نظر آتا ہے تو مالدیپ بھی اپنا مؤقف نرم کرتا دکھائی دیتا ہے۔
انتخابات کے نتائج کے بعد ’دی وائر‘ سے بات کرتے ہوئے محمد معیزو کے مشیر محمد شریف نے کہا کہ چین کے بارے میں تمام طرح کے خوف غیر ضروری ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم بحر ہند کی حفاظت اور سلامتی پر انڈیا کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں اور ہم نے کہا ہے کہ (اس کے لیے) سب سے بڑا سٹیک ہولڈر انڈیا ہی رہے گا۔‘
ان یقین دہانیوں کے باوجود انڈیا میں تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ مالدیپ آہستہ آہستہ انڈین فوجیوں کو ملک سے نکال سکتا ہے یا چین کے ساتھ آزاد تجارت کے معائدے ’ایف ٹی اے‘ کی توثیق کر کے سابق صدر ابراہیم صالح کے انڈیا نواز موقف کو پلٹ سکتا ہے۔ اس سے چین، مالدیپ اور بحر ہند میں مزید طاقتور ہو گا۔
تھنک ٹینک ’دی ولسن سنٹر‘ سے جڑے مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ معیزو کی انتخابی فتح انڈیا کے لیے ایک سفارتی اور جغرافیائی سیاسی دھچکہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’نئی دہلی امید کرے گا کہ وہ اسے ’انڈیا آؤٹ‘ کے اس موقف سے دور کرے جو انھوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنایا تھا۔ عملیت پسندی شاید معیزو کو نرمی برتنے پر آمادہ کر سکتی ہے لیکن ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ پوزیشن ناقابل سمجھوتہ ہے‘۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انڈیا ایک اہم، روایتی اور سب سے قریبی شراکت دار ہے، جس کی وجہ سے معیزو محتاط ہوں گے کہ وہ انڈیا کے خلاف کس حد تک جا سکتے ہیں۔
تو مالدیپ کیا ایک متوازن حکمت عملی اپنائے گا؟
یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا لیکن صحافی اور تجزیہ کار ششانک مٹو کہتے ہیں کہ یہ ہو سکتا ہے کہ محمد معیزو ’انڈیا اور چین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں۔‘
لیکن صورتحال تو 17 نومبر کے بعد ہی واضح ہو گی جب معیزو صدر کے طور پر حلف اٹھائیں گے۔