کفار عزا، ناحل عوز اور ماگان میشل۔ یہ چند نام ہیں جن کے بارے میں کچھ دن پہلے تک شاید ہی کوئی جانتا تھا۔ لیکن اسرائیل فلسطین تنازع کے بعد عالمی میڈیا میں یہ الفاظ چھائے ہوئے ہیں۔
کیبوتز کے خوش و خرم نوجوان کی سنہ 1950 کی دہائی کی تصویرکفار عزا، ناحل عوز اور ماگان میشل۔ یہ چند نام ہیں جن کے بارے میں کچھ دن پہلے تک شاید ہی کوئی جانتا تھا۔ لیکن اسرائیل-غزہ تنازع کے بعد عالمی میڈیا میں یہ الفاظ چھائے ہوئے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے اچانک حملوں کا پہلا نشانہ بنے تھے۔
یہ تمام قصبے کیبوتز کے قصبے ہیں۔ عبرانی میں اس کا مطلب کسان برادری ہے۔ کیبوتز اسرائیل میں ایک منفرد طرز زندگی ہے، جو اپنے سوشلسٹ یا سماجوادی اور سخت جمہوری تجربات کی وجہ سے بہت کامیاب ثابت ہوا ہے۔
اس برادری کی تاریخ اسرائیل کے بطور ایک ملک کے قائم ہونے سے چار دہائیاں قبل شروع ہوتی ہے۔ اسرائیل کے قیام کے دوران اس نے حکومت کے ساتھ کئی محاذوں پر تعاون کیا۔
انھوں نے نہ صرف اسرائیل کی زراعت کو فروغ دیا بلکہ اسرائیل کی فکری ترقی، دفاعی اور سیاسی قیادت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
اس کسان برادری سے سماجی اور جمہوری اقدار کے حامل ممتاز لوگ آتے ہیں جنکا اسرائیل کی سیاست، ثقافت اور معاشرے پر دہائیوں سے غلبہ رہا ہے۔
یہ کمیونٹی سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے ساتھ ساتھ دانشوروں اور فنکاروں کا گڑھ بھی رہی ہے۔
کیبوتز کمیونٹی کا آغاز کچھ آئیڈیلسٹوں یا مثالیت پسندوں نے دیہی گروپ کے طور پر کیا تھا۔ ان کا بنیادی منتر یہودی لوگوں کے لیے مستقل گھر بنا کر ایک بہتر دنیا کی تعمیر کرنا تھا۔
اس برادری نے یہودی طرز زندگی کو منفرد انداز میں تیار کیا۔ اس میں لوگ عبادات سے زیادہ زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح اس کمیونٹی نے اسرائیل میں سیکولر طرز زندگی کی بنیاد بھی رکھی۔
انھوں نے مضبوط شہریوں، ہنر مند کسانوں اور بہادر سپاہیوں میں اپنے یقین کے ذریعے ’صیہونی‘ نظریات کو مضبوط کیا۔
اگرچہ اسرائیل کی کل آبادی میں ان کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے لیکن ملک کے سماجی تانے بانے کو مضبوط بنانے میں ان کا کردار اہم تھا۔
دیگانیا میں کیبوتز کا پہلا گھرکیبوتز کمیونٹی کی 'مثالی دنیا'
کیوبتزم کا بنیادی تصور جیسی جس کی صلاحیت، جیسی جس کی ضرورت ہے۔
کیوبتز کمیونٹی کا آغاز سنہ 1909 میں بحیرہ طبریا کیا کیناریٹ جھیل کے کنارے یہودی نیشنل فنڈ کی زمین پر ہوا۔ اس وقت یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگيں تھا۔
اسی طرح دیگانیا الف میں کیبوتز کمیونٹی ہومز کی بنیاد مشرقی یورپ کے 12 یہودیوں کے ایک گروپ نے رکھی تھی۔ ان کا خواب زمین پر کام کرنا اور ایک متبادل طرز زندگی اختیار کرنا تھا جس میں حقیقی مساوات کا راج ہو اور زندگی کو نئی اقدار سے سجایا جا سکے۔
اس کے لیے انھوں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بنایا کہ وہ اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر تمام اہم فیصلے کر سکیں۔ اس طرح انھوں نے خود کو پرانے یہودی کسانوں کی بستیوں سے ممتاز کیا۔
بعد میں بہت سے لوگوں نے ان کے پیش کردہ نمونے کی برادری کے قیام پر عمل کرنا شروع کر دیا۔
ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کمیونٹی میں سب کو برابر سمجھا جاتا ہے۔ ہر کوئی ہر کام کرتا ہے اور معاشرے کی ہر چیز پر سب کا حق ہوتا ہے۔ ذاتی تحائف میں بھی سب کا حصہ ہوتا ہے۔
اس معاشرے میں ہر کام کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے۔ اس تصور نے کام کے وقار کو اس طرح بڑھایا کہ کسی کام کو کسی خاص صورت حال یا سامان سے جوڑنا نہیں پڑا۔
اسی طرح پوری برادری میں ہر کام باری باری کیے جاتے تھے۔ جسے ایک دن کے لیے برادری کا منتظم بنایا جاتا، وہ دوسرے دن اجتماعی کھانے کے کمرے میں برتن دھوتا تھا۔
اس طرح معاشرے کے ہر فرد کی ضرورتیں اجتماعی طور پر پوری ہوتی تھیں۔ اس میں گھر سے لے کر تعلیم، صحت اور تفریح سے لے کر صابن، ٹوتھ برش اور تولیے تک سب کچھ اجتماعی تھا۔
مکمل مساوات کے آئیڈیل کو برقرار رکھنے کے لیے کیبوتز کے لوگوں نے اجتماعی باورچی خانے میں کھانا پکایا اور کھایا۔ وہ ایک ہی قسم کے کپڑے بھی پہنتے تھے۔
اس کے ساتھ بچوں کی پرورش، ثقافتی اور دیگر سماجی سرگرمیوں میں بھی مشترکہ ذمہ داری ڈالی گئی۔
صحرا میں کھیتی باڑی اور خوشحالی
تاہم ریگستانی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی آب و ہوا کاشتکاری کے لیے موزوں نہیں تھی۔ پانی کی کمی کی وجہ سے زمین اکثر ویران رہتی تھی۔ اس کے علاوہ ابتدائی کیبوتز کے لوگوں کو کاشتکاری کا بہت کم تجربہ تھا۔ لیکن اپنی محنت، لگن اور نئے آئیڈیاز کی وجہ سے وہ صحرا کو سرسبز بنانے میں کامیاب رہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ کیبوتز لوگوں کے کاشتکاری کے طریقے بہتر ہوتے گئے۔ اور کچھ ہی عرصے میں وہ زراعت کو تکنیکی طور پر ایک ترقی یافتہ ادارہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
اور پھر سنہ 1920 اور 1930 کی دہائیوں تک کیبوتز کمیونٹی نے ایک مکمل صنعت قائم کر لی۔ اس میں مختلف قسم کی کھانے پینے کی اشیاء، پلاسٹک اور دھاتیں تیار کی جانے لگيں۔
اس کے ساتھ انھوں نے صحرا میں آبپاشی کی جدید ٹیکنالوجی بھی تیار کی۔
یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ یہ کمیونٹی جس کا اسرائیل کی آبادی میں صرف 2.5 فیصد حصہ تھا، ملک کی کل زرعی پیداوار میں 33 فیصد حصہ ڈالنے لگا۔
اسی طرح صنعتی پیداوار میں اکیلے کیبوتز کمیونٹی کا حصہ 6.3 فیصد تھا۔
سیاسی طور پر دیکھیں تو کیبوتزم نے اسرائیل میں نظریاتی اور بنیادی ترقی میں کردار ادا کیا ہی اس نے مزدور تحریک کی بنیاد بھی رکھی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مزدور حکومتوں کی طویل حکمرانی کو یقینی بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
یہی وجہ ہے کہ کیبوتز تحریک کو جدید اسرائیل کے اہم ستونوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
لیکن کیبوتز میں رہنے والے لوگوں کے آس پاس کی دنیا اتنی تیزی سے بدل گئی کہ کمیونٹی کے مثالیت پسندوں کے پاس صورت حال سے نمٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
اسے نئے زمانے کے ساتھ اپنے بہت سے بنیادی نظریات کو بھی بدلنا پڑا۔
کیبوتز برادری اپنے منفرد تعلیمی نظام کے لیے بھی جانے جاتے ہیںوجود کا بحران
دنیا بھر کی دیگر کمیونٹیز کے برعکس کیبوتز کبھی بھی اسرائیل کے مرکزی دھارے کے سماجی طرز زندگی سے الگ تھلگ نہیں رہے۔
جہاں پوری دنیا میں انفرادیت بڑھ رہی ہے وہیں کمیونٹی کی حقیقی طاقت اور پھیلاؤ میں یقیناً کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کمیونٹی کی نئی نسل کے بہت سے لوگوں میں سوشلسٹ اصولوں اور خواہشات کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔
یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کو اپنی برادری کے مفادات کے تابع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں تک کہ وہ رضاکارانہ طور پر عالمی نقطہ نظر کی دیگر بنیادوں کو بھی اپنانے کے قابل نہیں ہیں۔
یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو کیبوتز لوگوں کے سیکولرزم کے اصول کو اپنی مذہبی روایت کے خلاف سمجھتے تھے۔ یہ ایک ایسا ادارہ سمجھا جاتا تھا جس نے روایتی خاندان کے تصور کو ختم کیا اور ایک ایسے نظریہ کو فروغ دیا جس نے نجی ملکیت کے اصول کو مسترد کر دیا۔
کچھ علاقوں سے آنے والے تارکین وطن نے بھی کیبوتز کمیونٹی میں جسمانی محنت کے کام کو جارحانہ پایا۔
کیبوتزم 20 ویں صدی کے وسط تک ترقی کرتی رہی لیکن 1977 میں لیبر حکومت کے خاتمے کے بعد یہ کمیونٹی اگلی دو دہائیوں میں روز افزوں مہنگائی اور معاشی بحران سے بری طرح متاثر ہوئی۔
اس دور میں برادری کے لوگوں کے پاس اپنے نظریات کو چھوڑ کر دوسرے نظریات کو اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
اب ان کے سامنے وجود کا سوال تھا کہ یا تو وہ بدل جائيں یا مکمل طور پر تباہ ہو جائيں۔
معاشی طور پر خوشحال رہنے اور نئے اراکین کو کمیونٹی کی طرف راغب کرنے کے لیے انھیں اپنی اقدار کو از سر نو متعین کرنا پڑا۔
کیبوتز کا خوشحال علاقہاب وہ مساوات کہاں؟
21 ویں صدی کے آغاز میں کیبوتزژ کی 270 کمیونز میں سے 179 کی نجکاری کر دی گئی۔
اور اس تبدیلی نے بہت سے بنیادی اصولوں کو ختم کر دیا۔ لیکن برادری کے لوگوں نے اپنے پرانے روایتی نظریے کو مکمل طور پر ترک نہیں کیا۔
انھوں نے ایک طرف معاشی انتظام اور دوسری طرف کمیونٹی کے درمیان فرق کرنا سیکھ لیا۔
کیبوتز تحریک کے رہنماؤں کی نئی نسل اب بھی اپنی سماجی ذمہ داریوں میں دلچسپی رکھتی ہے، لیکن وہ اب پہلے کی طرح مساوات کے اصول پر یقین نہیں رکھتے۔
اب کیبوتز کمیونٹی میں تنخواہ کے ڈھانچے میں بھی فرق آ گیا ہے۔ ان کے تجارتی اداروں نے مارکیٹ سے متعلقہ معیارات کے مطابق کام کرنا شروع کیا ہے۔
یعنی پوری انتظامیہ پہلے سے زیادہ پروفیشنل ہو گئی ہے۔ اس طرح کمیونٹی اور اس کے کاروباری ڈھانچے الگ ہوگئے۔
تاہم، کمیونٹی نے ذاتی جائیداد کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا۔ اس کے بجائے کیبوتز کمیونز کے ممبران جنھیں پرائیویٹائز کیا گیا تھا انھوں نے اپنی آمدنی کا ایک اہم حصہ کمیونٹی کو دینا شروع کر دیا۔
ایسا اس لیے کیا کہ ان میں ذاتی دولت کا فرق اسرائیلی معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح کم رہے۔
آج بھی کمیونٹی کے لوگ اپنے ذاتی خزانے کو بوڑھوں، بیماروں اور ان لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے استعمال کرتے ہیں جنھیں اچھی آمدنی نہیں ہے۔ اس طرح کمیونٹی کے خوشحال لوگ دوسرے ممبروں کی بہتر دیکھ بھال کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
ان تبدیلیوں نے کیبوتزم کو معاشی بحران سے بچا لیا۔ اس کی وجہ سے کمیونٹی خوشحال رہی اور اس کی وجہ سے نئے ممبران بھی شامل ہوتے رہے۔
اسی دوران ایک اور دلچسپ واقعہ رونما ہوا۔
مرنے والوں سے اظہار عقیدتنیا ماڈل
کیبوتز کی پرانی کمیونٹی کے جذبے سے متاثر ہو کر، نوجوان اسرائیلیوں نے ایک نیا ماڈل بنایا۔ اسے اربوتزم کا نام دیا۔ عبرانی میں ار کا مطلب شہر ہے۔ اس طرح یہ شہری کیبوتز ہوئے۔
اس کے ارکان ترقی پذیر علاقوں میں اجتماعی طور پر رہتے ہیں اور پوری آبادی کو ہر طرح سے بااختیار بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔
ان گروہوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں اور وہ پہلے سے طے شدہ سوشلسٹ اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔
ایسے ہی لوگوں کا ایک شہر بعیری ہے۔ کیبوتز برادری کے لوگوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں یہاں اپنے گھر بنائے تھے۔
یہاں کی کل آبادی 1100 ہے۔ لیکن 7 اکتوبر کو حماس نے یہاں 120 سے زائد افراد کو ہلاک اور بہت سے لوگوں کو اغوا کر لیا۔
مشہور فلسفی مارٹن بوبر نے ایک بار کہا تھا: 'کیبوتز کمیونٹی سماجی زندگی کے قیام کی سب سے مؤثر کوشش تھی۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جو کبھی ناکام نہیں ہوا۔‘
تاہم، پچھلی صدی کے آخر میں اس کمیونٹی کو ایسی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا رہا کہ لوگ اس کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے۔
تاہم، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مارٹن بوبر کے لیے کیبوتزم کی کامیابی کا مطلب یہ تھا کہ 'دیگر سوشلسٹ اور یوٹوپیائی کمیونٹیز کے برعکس، وہ اپنی زمین اور وقت کی ٹھوس ضروریات سے منسلک رہے۔'
اگر اسے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے کہ اگر کمیونٹی کے لوگ اپنی برادری کے تمام ارکان کو وہ سب کچھ فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جن کی انھیں حماس کے حملوں کے بعد مزید ضرورت بڑھ گئی ہے تو پھر کہا جائے گا کہ یہ برادری ابھی تک ناکام ثابت نہیں ہوئی۔