غزہ کی پٹی: ’دنیا کی سب سے بڑی کُھلی جیل‘ جس پر سکندر اعظم سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ تک نے حکومت کی

41 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میں 23 لاکھ لوگ بستے ہیں۔ غزہ کی تقریباً چار ہزار سال پرانی تاریخ بیرونی حملوں اور قبضوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس علاقے کی متعدد ادوار میں تقسیم در تقسیم، محاصروں اور جنگوں نے غزہ کی تباہی کے سفر میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مگر زمین کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا اتنی تاریخی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟
غزہ
Getty Images

غزہ کی پٹی روئے زمین پر سب سے گنجان آباد اور غربت زدہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ غزہ کی تاریخ ایسی متعدد مسلح تنازعوں سے بھری ہوئی ہے جنھوں نے اس خطے کی حالیہ تاریخ تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا۔

لیکن اس چھوٹی سی پٹی کی اپنی تاریخ کیا ہے جسے انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور خود فلسطینی بھی ’دنیا کی سب سے بڑی کُھلی جیل‘ قرار دیتے ہیں۔

وہ سرزمین جس پر بار بار قبضہ کیا گیا

ستمبر 1992 میں اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن نے ایک امریکی وفد سے ملاقات میں کہا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ غزہ سمندر میں غرق ہو جائے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے، چنانچہ ہمیں کوئی حل نکالنا ہو گا۔‘

اسحاق رابن کو سنہ 1995 میں ایک اسرائیلی شدت پسند نے قتل کر دیا تھا۔ ان کے اس بیان کے 30 سال گزر جانے کے باوجود اس معاملے کا حل نظر نہیں آ رہا۔

41 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی اسرائیل، مصر اور بحیرہ روم کے بیچ موجود ہے جہاں 23 لاکھ لوگ بستے ہیں، اسی لیے اسے دنیا کے گنجان ترین علاقوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔

غزہ کی تاریخ تقریبا چار ہزار سال پرانی ہے اور اس کی کہانی بیرونی حملوں اور قبضوں سے بھری ہوئی ہے۔ مختلف زمانوں میں مختلف سلطنتوں نے اس پر حکومت بھی کی اور اسے تاراج بھی کیا جن میں قدیم مصر سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک دنیا کی طاقتور حکومتیں شامل رہیں۔

غزہ کو سکندر اعظم، رومیوں اور پھر مسلمانوں نے عمر ابن العاص کی سربراہی میں فتح کیا اور یوں ترقی اور تباہی کے اس سفر میں غزہ میں آباد ہونے والوں اور ا؛ن کی مذہبی شناخت بھی وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی۔

سنہ 1917 تک غزہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا جس کی پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد یہ علاقہ برطانیہ کے زیر اثر آیا۔ سنہ 1919 کی پیرس امن کانفرنس میں فاتح یورپی طاقتوں نے ایک متحدہ عرب سلطنت کے قیام کو روکنے کے لیے پورے خطے کو تقسیم کر دیا۔

غزہ ’برٹش مینڈیٹ‘ کا حصہ بنا جو 1920 سے 1948 تک وجود میں رہا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے فلسطین کے مقدر کا فیصلہ نئی نویلی اقوام متحدہ کی جھولی میں ڈال دیا۔

غزہ
Getty Images

تقسیم در تقسیم اور جنگیں

سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے ایک قراردار کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو تین حصوں میں بانٹ دیا جائے: 55 فیصد علاقے پر یہودی اپنی ریاست بنا لیں، بیت المقدس کو عالمی مینڈیٹ کے زیرِ اثر رکھا جائے اور باقی ماندہ حصہ بشمول غزہ مقامی عرب باشندوں کے حصے میں چلا جائے۔

مئی 1948 کو جب اس قراردار نے فلسطین سے برطانوی راج کا خاتمہ کیا تو اسی دن اسرائیل کی آزاد ریاست قائم کر لی گئی اور یوں پہلی عرب اسرائیل جنگ کا بھی آغاز ہوا جس میں لاکھوں مقامی فلسطینی بے گھر ہوئے اور غزہ کی پٹی میں بس گئے۔

پہلی عرب اسرائیل جنگ کا خاتمہ ہوا تو غزہ کی پٹی پر مصر کا قبضہ ہو چکا تھا جو 1967 تک برقرار رہا۔ سنہ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے مصر اور شام پر مشتمل متحدہ عرب ریپبلک سمیت اُردن اور عراق کو شکست دی اور غربِ اُردن اور مشرقی بیت المقدس سمیت غزہ پر بھی قبضہ کر لیا۔

اسرائیل کی اس فتح نے پرتشدد واقعات کے ایک ایسے تسلسل کو جنم دیا جو آج تک رُک نہیں سکا۔ اسرائیل کے خلاف پہلی فلسطینی انتفادہ تحریک کا آغاز 1987 میں غزہ سے ہی ہوا۔ اِسی سال حماس وجود میں آئی تھی۔

اسرائیل
Getty Images

سنہ 1993 میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امریکی ثالثی میں اوسلو معاہدہ ہوا تو ’فلسطین نیشنل اتھارٹی‘ کا قیام ہوا جسے غزہ کی پٹی اور غربِ اردن کے چند علاقوں میں محدود خودمختاری دی گئی۔ اسرائیل نے 2005 میں دوسری اور پہلے سے زیادہ پرتشدد انتفادہ تحریک کے بعد غزہ کی پٹی سے فوج اور 7000 یہودی آبادکاروں کا انخلا کیا۔

ایک ہی سال بعد حماس نے انتخابات میں فلسطینیوں کی دوسری تنظیم ’فتح‘ کو شکست دی اور یوں دونوں کے درمیان طاقت کی جنگ کا آغاز ہو گیا جس میں ایک جانب فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کی فتح جماعت تھی تو دوسری جانب حماس۔ تاہم حماس تین جنگوں اور 16 سال کے اسرائیلی محاصرے کے باوجود اب تک غزہ میں برسرِ اقتدار ہے۔

اسرائیل، امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ سمیت کئی ممالک حماس یا اس کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دے چکے ہیں تاہم اسے ایران کی حمایت اور معاشی مدد حاصل ہے جو اسلحہ اور تربیت بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔

محاصرہ

حماس کے برسر اقتدار آنے کے بعد اسرائیل اور مصر نے غزہ کا زمینی، فضائی اور سمندری محاصرہ کر لیا۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مطالبے کے باوجود اسرائیل نے 2007 سے اس محاصرے کو ختم نہیں کیا۔

اس محاصرے کی وجہ سے فلسطینیوں کی نقل وحرکت پر قدغنیں لگ گئیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے باہر نکلنے پر پابندی عائد ہے اور صرف طبی ایمرجنسی میں ہی کسی کو باہر نکلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کی پٹی میں حالات کا موازنہ کرتے ہوئے اسے ’کُھلی جیل‘ قرار دیا۔ اسرائیل کے مطابق غزہ کی سرحدوں پر مصر کی مدد سے ان پابندیوں کے اطلاق سے اسرائیلی شہریوں کو حماس سے بچانا مقصود ہے۔

بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس اس محاصرے کو جنیوا کنوینشن کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے جبکہ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق تنظیموں نے بھی اس محاصرے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ اب تک اسرائیل کے قبضے میں ہے۔

اس محاصرے کے خلاف حماس نے زیر زمین سرنگوں کا ایک جال بچھا رکھا ہے جن کے ذریعے سامان اور اسلحہ غزہ کے اندر لے جایا جاتا ہے۔ اسرائیل ان سرنگوں کو ایک خطرہ سمجھتا ہے اور اکثر فضائی حملوں میں ان کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

غربت

اسرائیل کے 16 سالہ محاصرے نے غزہ کی پٹی میں معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق اس علاقے میں بیروزگاری کا تناسب 40 فیصد سے زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق یہاں کی 65 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر ہی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 63 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔

یہاں کی نصف آبادی 19 سال سے کم عمر ہے لیکن ان کے پاس معاشی ترقی کا کوئی راستہ ہے اور نہ ہی بیرونی دنیا تک رسائی کا کوئی ذریعہ۔

اقوام متحدہ کے مطابق مسلسل تشدد کا سامنا کرنے کی وجہ سے یہاں بچوں کی ایک پوری نسل آباد ہے جسے طویل المدتی نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے لیکن انھیں کسی قسم کی مدد حاصل نہیں۔ یہاں کی آبادی، خصوصاً نوجوانوں میں، اقوام متحدہ کی ہی رپورٹ کے مطابق ذہنی صحت سے جڑے مسائل بشمول ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے 2021 کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ غزہ کی بندش کی وجہ سے ہنرمند اور تعلیم یافتہ لوگ ایسے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جو دنیا میں کہیں اور بسنے والے لوگوں کو عام میسر ہوتے ہیں۔

اسرائیل کی ہی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق 23 لاکھ لوگوں کی یہ آبادی دنیا میں سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسی علاقے میں قائم آٹھ کیمپوں میں تقریبا چھ لاکھ پناہ گزین بھی رہائش پذیر ہیں۔

واضح رہے کہ لندن جیسے شہر میں فی سکوائر کلومیٹر علاقے میں 5700 لوگ رہتے ہیں لیکن غزہ میں اتنے ہی علاقے میں یہ اعداد و شمار 9000 تک پہنچ جاتے ہیں۔

سنہ 2014 میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر ایک دفاعی زون بنا دیا جس کے بعد مکانات یا کاشتکاری کے لیے دستیاب زمین اور بھی کم ہو گئی۔

یہاں بجلی کی دستیابی بھی ہر وقت نہیں ہوتی۔ اقوام متحدہ کے مطابق زیادہ تر گھروں میں دن میں صرف تین گھنٹے بجلی میسر ہوتی ہے جو اسرائیل فراہم کرتا ہے۔ غزہ میں صرف ایک بجلی کا پلانٹ ہے جبکہ کچھ مقدار میں بجلی مصر سے ملتی ہے۔ زیادہ تر رہائشیوں کو پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

اقوام محتدہ کے ایک ذیلی ادارے کے مطابق غزہ کے بیشتر ہسپتال اور طبی مراکز ماضی کی لڑائیوں میں تباہ ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے یہاں 22 طبی مراکز چلانے میں مدد دی جاتی ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے حالیہ بمباری کے بعد یہاں کی آبادی کے حالات مذید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts