ڈنکی: ’امریکہ جانے کے لیے 33 لاکھ روپے ضائع کیے، زمین بیچ دی اور کئی ماہ جیل میں گزارے لیکن اب اپنے ملک میں رہنا چاہتا ہوں‘

کلدیپ نے بتایا کہ جب وہ میکسیکو میں داخل ہوئے تو ایک ایجنٹ نے انھیں اپنی کار میں بٹھایا اور پیچھے لیٹنے کو کہا۔ اس ایجنٹ نے انھیں ایک ایسی جگہ پر اتارا، جہاں سے انھیں پیدل دو پہاڑیاں عبور کرنے کو کہا گیا۔
ڈنکی
BBC

’میں نے اپنی زندگی کے چار اہم سال گنوا دیے، 33 لاکھ روپے ضائع کیے اور امریکہ جانے کے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے زمین گنوائی۔‘ یہ الفاظ کلدیپ سنگھ بوپارائی کے ہیں جو امریکہ سے ڈی پورٹ ہو کر واپس انڈین ریاست پنجاب پہنچ چکے ہیں۔

پنجاب کے ضلع فرید کوٹکے کوٹک پورہ قصبے کے رہائشی کلدیپ سنگھ غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے تھے۔

21 دسمبر کو بالی ووڈ سپر سٹار شاہ رخ خان کی فلم ’ڈنکی‘ ریلیز ہوئی ہے، جو انڈین شہریوں کی بیرون ملک غیر قانونی نقل مکانی پر مبنی ہے۔

پنجاب میں غیر قانونی ہجرت کے لیے ’ڈنکی‘ کے طریقے کا استعمال کرتے ہوئے بیرون ممالک جانے اور بسنے کی کئی کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں اور فلم ’ڈنکی‘ کی وجہ سے یہ معاملہ پھر سرخیوں میں آ گیا ہے۔

واضح رہے کہ تارکینِ وطن کو غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملکوں تک لے جانے کے عمل کو پنجابی میں ’ڈنکی‘ کہا جاتا ہے اور یہ کام کرنے والے ’ڈنکر‘ کہلاتے ہیں۔

انڈیا میں پنجاب اور ہریانہ کے ہزاروں نوجوان روشن مستقبل کے لیے مغربی ممالک بالخصوص امریکہ پہنچنے کے لیے ’ڈنکی‘ کے راستے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس انسانی سمگلنگ کا ایک بین الاقوامی نیٹ ورک موجود ہے جسے ختم کرنے کے دعوے تو کئی حکومتیں کرتی رہی ہیں لیکن یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔

ماضی میں کئی ایسے واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں جن میں کئی نوجوان امریکہ جاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔

اسی تناظر میں بی بی سی نیوز پنجابی نے کلدیپ سنگھ بوپارائی سے ’ڈنکی‘ روٹ کے ذریعے نقل مکانی کے اپنے تجربے کے بارے میں بات کی۔

کلدیپ سنگھ کے خوابوں کی سر زمین امریکہ

کلدیپ سنگھ نے بتایا کہ ان کا شروع سے ہی امریکہ جانے کا خواب تھا اور سال 2010 میں وہ پہلے سنگاپور گئے، بعد میں ڈرائیور کے طور پر عراق چلے گئے۔

وہ 2012 میں عراق سے انڈیا واپس آئے اور اپنے دوست جگجیت سنگھ سے رابطہ کیا جو اب امریکہ میں رہتے ہیں۔ پھر انھوں نے امریکہ جانے کا منصوبہ بنایا اور ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا۔

کلدیپ سنگھ نے بتایا کہ ’پہلے ہم افریقہ میں کانگو گئے، جہاں انھیں کھانا پسند نہیں آیا۔‘

پھر انھوں نے ایجنٹ سے کہا کہ وہ انھیں انڈیا واپس بھیج دیں کیونکہ وہ وہاں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد ایجنٹ نے انھیں برازیل جانے کا آپشن دیا اور وہ وہاں کام کرنے لگے۔

کلدیپ سنگھ نے بتایا کہ وہ برازیل میں ایک اور ایجنٹ کے رابطے میں آئے، جس نے انھیں امریکہ بھیجنے کے لیے 30,000 ڈالر کا مطالبہ کیا۔

’بڑی رقم کی وجہ سے میں نے امریکہ جانے کا خیال ترک کر دیا‘ لیکن پھر ایجنٹ نے کلدیپ کو ایک اور آفر کی۔

’ایجنٹ نے ایک اور آفر کی، جو 15,000 ڈالر میں ہوائی جہاز کی بجائے زمینی راستے سے امریکہ جانا تھا اور ہم اس پر راضی ہو گئے۔‘

پانامہ کے جنگلوں میں

کلدیپ سنگھ نے بتایا کہ انھوں نے پہلے ایجنٹوں کو تین ہزار ڈالر ادا کیے، جس کے بعد انھیں اور ان کے دوست کو پیرو جانے والی بس میں بٹھایا گیا۔

کلدیپ کا کہنا تھا کہ آخر کار وہ ایکواڈور میں داخل ہوئے، جہاں سے انھوں نے اپنے آگے کے سفر کے لیے بس لی۔ اس کے بعد وہ کولمبیا پہنچ گئے، جہاں انھیں کسی کے گھر میں رکھا گیا۔

کلدیپ کے مطابق وہ کولمبیا سے سمندر کے راستے گوئٹے مالا میں داخل ہوئے۔ ’یہ میری زندگی کا بدترین سفر تھا، اور ہم نے تقریباً چھ دن گوئٹے مالا کی گرمی میں پنکھے کے بغیر گزارے۔‘

کلدیپ بتاتے ہیں کہ انھیں پانامہ پہنچنے کے لیے جنگلوں کو عبور کرنے کے لیے تقریباً دو دن تک پیدل چلنا پڑا اور جنگل میں سفر کرتے ہوئے انھوں نے ایک دریا عبور کیا، جہاں پانی ان کی گردن تک تھا۔

انھوں نے بتایا کہ جب ان کے پاس پینے کا پانی ختم ہو گیا تو انھوں نے اپنے ایک ساتھی سے پانی مانگا تو اس نے کلدیپ کو صرف چند گھونٹ ہی دیے۔

کلدیپ کے مطابق دو دن بعد وہ پانامہ میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے حکام کو بتایا کہ وہ نیپال سے ہیں اور امریکہ جا رہے ہیں۔

’ایجنٹ نے ہمیں کہا تھا کہ پانامہ میں ہم اپنے ملک انڈیا کا نام نہ بتائیں۔ ورنہ ہمیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘

کلدیپ نے بتایا کہ گوئٹے مالا کے بعد وہ میکسیکو میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔

میکسیکو سے امریکہ کیسے پہنچے؟

کلدیپ نے بتایا کہ جب وہ میکسیکو میں داخل ہوئے تو ایک ایجنٹ نے انھیں اپنی کار میں بٹھایا اور پیچھے لیٹنے کو کہا۔ اس ایجنٹ نے انھیں ایک ایسی جگہ پر اتارا، جہاں سے انھیں پیدل دو پہاڑیاں عبور کرنے کو کہا گیا۔

کلدیپ نے بتایا کہ ایجنٹوں نے انھیں متنبہ کیا تھا کہ وہ میکسیکو میں مقامی مافیا کے خطرے کی وجہ سے اپنے گھر سے باہر نہ نکلیں۔

آخر کار کلدیپ دریا عبور کر کے اپنے خوابوں کے ملک امریکہ پہنچ گئے لیکن امریکی سرحد پر پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا۔

بعد میں انھیں ایک جیل میں سخت سردی میں رکھا گیا اور پھر حراستی مرکز بھیج دیا گیا۔

کلدیپ نے بتایا کہ ’پولیس اور انتظامیہ نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور انھیں مجھ پر شک ہونے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے جلد ہی ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘

کلدیپ سنگھ
BBC
کلدیپ سنگھ نے امریکہ سے واپس انڈیا آنے کے بعد اپنی کار سروس شروع کی

ڈی پورٹ ہونے کا سن کر اپنے جذبات کے بارے میں بتاتے ہوئے کلدیپ نے کہا کہ میرے سر پر دکھ کا پہاڑ گر گیا کیونکہ میں 30 لاکھ روپے خرچ کر کے اور پنجاب میں اپنی زمینیں بیچ کر امریکہ آیا تھا۔

کلدیپ نے عدالت میں ایپل دائر کی جسے مسترد کر دیا گیا۔ انھوں نے تقریباً 22 ماہ حراستی مرکز میں گزارے، جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔

کلدیپ کے مطابق ’پانچ ماہ بعد جب میں امیگریشن آفس گیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے انڈین سفارت خانے سے میرا پاسپورٹ ڈھونڈ لیا ہے اور یہ کہ امریکہ میں میرا آخری دن تھا۔‘

کلدیپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے والدین کے لیے خواب دیکھے تھے اور امریکہ میں محنت کر کے اپنے خاندان کو بہتر زندگی دینے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن سب کچھ الٹ گیا۔

’مجھے امریکہ سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا اور میں سنہ 2016 میں انڈیا واپس آ گیا۔ پھر میں نے اپنا ٹیکسی کا کاروبار شروع کیا اور اب میں ہمیشہ اپنے ملک میں ہی رہنا چاہتا ہوں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US