انڈین فوج کی حراست میں شہریوں کی ہلاکت: راجوری پونچھ میں 20 سال بعد بھڑکنے والا تشدد مبینہ دراندازی ہے یا مقامی برادیوں کی خلش

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مسلح جھڑپ میں فوجی ہلاکتوں کے بعد فوج پر تین عام شہریوں کے حراستی قتل کا الزام ہے اور فوج نے تحقیقات میں تعاون کا اعلان کیا ہے۔ پونچھ اور راجوری خطوں کی اہمیت کا تذکرہ گذشتہ دنوں انڈین پارلیمنٹ میں بھی ہوا جہاں انڈیا کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے کشمیر کے حالات کے لیے جواہر لعل نہرو کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ کشمیر کے سوال پر اقوام متحدہ کا رُخ کرنا بہت بڑی غلطی تھی۔
فائل فوٹو
Getty Images

گذشتہ جمعے 22 دسمبر 2023 کو جموں کشمیر کے جنوب مغربی ضلع راجوری میں مسلح عسکریت پسندوں نے انڈین آرمی کی دو گاڑیوں پر گھات لگا کر حملہ کرکے تین فوجیوں کو ہلاک کردیا تو دوسرے ہی روز تین مقامی نوجوانوں کی لاشیں فوجی کیمپ کے قریب پائی گئیں۔

محمد شوکت، سفیر حسین اور شبیر احمد نامی یہ تینوں نوجوان اُن کئی نوجوانوں میں شامل ہیں جنھیں فوج نے جھڑپ کے فوراً بعد حراست میں لے لیا تھا۔ ان میں سے 25 سالہ شوکت کی اسی سال کے آغاز میں شادی ہوئی تھی۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے نہایت قریب واقع راجوری اور پونچھ اضلاع میں دو دہائیوں تک حالات پرسکون رہنے کے بعد 2020 سے ہی عسکریت پسندوں کے حملوں میں دوبارہ تیزی آگئی ہے، تاہم چار برس کے دوران یہ پہلا موقعہ ہے جب فوج پر جھڑپ کے بعد عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا الزام ہے۔

حکام نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ راجوری اور اس کے پڑوسی ضلع پونچھ میں افواہوں کو روکنے کے لیے موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت کو معطل کیا گیا ہے۔

راجوری اور پونچھ میں تعینات انڈین فوج کی سولہویں کور نے تحقیقات میں تعاون کا یقین دلایا ہے، تاہم پولیس میں درج ایف آئی آر میں صرف قتل کا مقدمہ درج ہے جس میں کسی ملزم کا نام نہیں ہے۔

واقعے کے حوالے سے ایک مختصر ویڈیو بھی وائرل ہوگئی تھی، جس میں فوجی اہلکاروں کو تینوں نوجوانوں کو لاٹھیوں سے پیٹتے ہوئے اور انھیں برہنہ کرکے ان کے زخموں پر مرچ چھڑکتے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس ویڈیو کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے، تاہم سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے انڈیا کے ایک نیوز پورٹل ’دا وائر‘ میں شائع ہوئے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’ایسے حالات میں کون ویڈیو بنائے گا، ظاہر ہے اس ویڈیو کو جان بوجھ کر لیک کیا گیا تاکہ لوگوں تک ایک سخت پیغام پہنچایا جائے۔‘

اس دوران حملہ آوروں کی تلاش کے لیے وسیع پیمانے پر آپریشن جاری ہے۔ یہاں کی گورنر انتظامیہ نے ہلاک ہونے والے شہریوں کے لواحقین کے حق میں نقد معاوضہ اور نوکریوں کا اعلان کیا ہے تاہم راجوری کی مقامی آبادی، کشمیر کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں اس واقعہ سے بے چینی پھیل گئی ہے۔

کشمیر، فائل فوٹو
Getty Images

راجوری پونچھ کی تاریخی اور جغرافیائی اہمیت

راجوری کے رہنے والے تاریخ دان اور سماجی رضاکار کے ڈی مینی کہتے ہیں کہ 1846 میں برٹش راج اور جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان امرتسر میں ’کشمیر ٹرانسفر‘ کا معاہدہ ہوا تو مہاراجہ نے راجوری اور پونچھ کو اپنے اقتدار میں شامل کرلیا۔

’اُس سے قبل سات صدیوں تک راجوری ریاست اور پونچھ جاگیر پر مسلم جرال گھرانوں کی حکومت تھی۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ہمالیہ کی گود میں جہلم اور چناب دریاوٴں کے درمیان آباد راجوری اور پونچھ میں صدیوں تک ہندو اور مسلم برادریاں امن کے ساتھ رہتے تھے۔

واضح رہے 1947 میں برٹش انڈیا کی تقسیم سے قبل پاکستان اور انڈیا دونوں کے زیرانتظام کشمیری خطے برطانوی عمل داری میں ایک واحد آزاد ریاست تھی، جس پر ڈوگرہ مہاراجوں نے دو صدیوں تک حکومت کی تھی۔

انڈیا کے ساوٴتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق تقسیم کے دوران ہی پونچھ اور راجوری کے مسلمانوں نے ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف بغاوت کردی جس میں ڈوگرہ فوج کے اہلکار بھی شامل ہوئے اور اُسی دوران پاکستانی قبائلی علاقوں سے بھی مسلح عسکریت پسندوں نے ان کے ساتھ شمولیت کرلی۔

پورٹل کے مطابق مہاراجہ نے جب انڈیا کے ساتھ فوجی مدد کے عوض کشمیر کا الحاق کردیا تو انڈین فوج بغاوت کچلنے کے لیے پونچھ اور راجوری میں داخل ہوئی اور پہلی انڈیا پاک جنگ شروع ہوگئی۔

انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کردیا تو یو این نے دونوں ملکوں کو جوں کی توں پوزیشن پر جنگ بندی کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح جو لکیر سرحد کے طور کشمیر پر کھینچی گئی اسے ’سیز فائر لائن‘کا نام دیا گیا۔

پاکستانی فوج مظفرآباد، پلندری، باغ، کوٹلی، بھمبھر، باغ، راولاکٹ، چکوٹھی اور میر پور سمیت کئی علاقوں سے انڈین افواج کو نکالنے میں کامیاب رہی جبکہ انڈین افواج نے راجوری اور پونچھ خطے کے علاوہ جموں اور وادی کشمیر کے خطے کو انڈین کنٹرول میں کردیا۔

اسی سیز فائر لائن کو 1972 میں ذولفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان ہوئے معاہدے میں ’لائن آف کنٹرول‘ یا ایل او سی کا نام دیا گیا۔

4 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے راجوری اور پونچھ کی آبادی تقریباً چار لاکھ ہے۔ پونچھ میں مسلم آبادی کا تناسب 90فی صد جبکہ راجوری میں یہ تناسب 58 فی صد ہے۔ ان خطوں میں رہنے والے بیشتر لوگوں کے رشتہ دار پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں رہتے ہیں۔ ان دونوں خطوں کو یہاں وادئِ پیرپنچال کہتے ہیں جبکہ پاکستانی جانب والے ان کے باقی خطوں کو نیلم ویلی کہتے ہیں۔

دونوں کے درمیان 200 کلومیٹر طویل اور 30 کلومیٹر چوڑی ایل او سی ہے، جو دنیا کی سب سے خطرناک سرحدوں میں شمار ہوتی ہے۔ پوری ایل او سی کی کل لمبائی 700 کلومیٹر سے زیادہ ہے اور یہ پونچھ راجوری کے علاوہ پورے شمالی کشمیر پر محیط ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے لیے راجوری اور پونچھ کی تذویراتی (سٹریٹجک) اہمیت پر دونوں ملکوں میں کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ تاہم ساوٴتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق پاکستان کے پہلے برٹش آرمی چیف لیفٹنٹ جنرل ڈگلس گریسی نے پاکستانی حکومت پر1947 میں ہی زور دیا تھا کہ، ’اگر راجوری اور پونچھ ہاتھ سے گیا تو انڈیا کی فوج ہمیشہ آپ کے دروازے پر اندر آنے کے لئے آمادہ رہے گی۔‘

اسی پورٹل کے مطابق 1947 کی جنگ کے دوران جب اقوام متحدہ نے دونوں ملکوں کو فوجی محاصرے ہٹانے کا حکم دیا تو جواہر لعل نہرو فوجی کمانڈروں سے بار بار کہتے رہے کہ ’پونچھ پر کنٹرول بنائے رکھیں اور بغاوت کچلنے میں تیزی کریں۔‘

پونچھ اور راجوری خطوں کی اہمیت کا تذکرہ گذشتہ دنوں انڈین پارلیمنٹ میں بھی ہوا۔انڈیا کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے کشمیر کے حالات کے لیے جواہر لعل نہرو کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ کشمیر کے سوال پر اقوام متحدہ کا رُخ کرنا بہت بڑی غلطی تھی۔ اس دعوے کے جواب میں سابق وزیراعلیٰ اور رکن پارلیمان فاروق عبداللہ نے پارلیمنٹ میں ہی جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’نہرو اگر پاکستان کو اقوام متحدہ میں نہ الجھاتے تو ہمارے پاس راجوری اور پونچھ نہیں ہوتا۔‘

کشمیر، فائل فوٹو
Getty Images

’جنگ کے بعد خاموشی، پھر مبینہ دراندازی اور تشدد کے بعد امن، اب پھر تناوٴ‘

راجوری اور پونچھ کی آبادی نہایت جنگ زدہ رہی ہے۔ تاہم 1947 کی جنگ اور خون خرابے کے بعد یہاں دو دہائیوں تک خاموشی رہی۔ انڈیا کے دفاعی ماہرین کے مطابق 1965 کی انڈیا پاک جنگ کے دوران پاکستان نے راجوری اور پونچھ کی سرحدوں پر ’ آپریشن جبرالٹر‘ شروع کیا جس کے تحت مبینہ مسلح دراندازوں کو پیرپنچال ویلی میں داخل کیا گیا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ راجوری اور پونچھ کی آبادی نے مبینہ دراندازوں کے مقابلے میں فوج کا ساتھ دیا اور وہ آپریشن ناکام رہا۔ تاہم 1990 کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوئی توچند ہی برسوں کے اندر راجوری اور پونچھ میں اس کا اثر دیکھا گیا۔ فوج نے دونوں اضلاع میں بڑے پیمانے پر کاؤنٹر انسرجنسی آپریشن کرکے بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا۔

سنہ 2007 میں انسانی حقوق کے مقامی اداروں نے دعویٰ کیا کہ پونچھ میں سینکڑوں گمنام قبریں ہیں، جن میں اُن لوگوں کو دفن کیا گیا ہے جنہیں فوج نے مبینہ طور پر حراست کے دوران ہلاک کردیا۔ تاہم فوج نے ان دعوؤں کی تردید کردی۔

راجوری کے محقق اور تاریخ دان کے ڈی مینی کے مطابق جب کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کال پر لوگ انتخابات کا بائیکاٹ کرتے تھے ، اُس وقت پونچھ اور راجوری میں پولنگ بوتھوں پر لوگوں کی طویل قطاریں ہوتی تھیں۔ 2000 اور2010 کی دہائیوں میں پونچھ اور راجوری میں نسبتاً امن رہا۔

2019 کے اگست میں انڈیا نے کشمیر اور لداخ کو تقسیم کرکے دو مرکزی انتظام والے خطوں میں بدل دیا اور سبھی آئینی ضمانتیں بھی ختم کردیں جن کے تحت کشمیر ایک خصوصی ریاست تھی جس کا اپنا آئین، اپنا پرچم اور اپنے قوانین تھے۔ اب کشمیر انڈیا کی دوسری ریاستوں کی طرح ایک چھوٹے درجے کی یونین ٹیریٹری بن گئی۔

اس تاریخی تبدیلی کے چند ماہ بعد پونچھ اور راجوری میں ’پیپلز اینٹی فاشسٹ فورس‘ نام سے ایک مسلح گروپ سامنے آیا اور اس نے 2020 میں ایک مسلح حملے کے دوران فوج کے 9 اہلکار ہلاک کردیے اور اس کی طویل ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کردی۔ تب سے درجنوں فوجی پی اے ایف ایف کے حملوں میں مارے گئے ہیں۔

کشمیر، فائل فوٹو
Getty Images

پیرپنچال وادی میں تشدد کی 3 وجوہات

پاکستان اور انڈیا کے درمیان غیرمعمولی فوجی پھیلاوٴ اور انتہائی اہمیت والے پیرپنچال خطے میں ایک بار پھر سے تشدد بھڑکنے کی وجوہات پر انڈیا کے مبصرین مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔

ان میں سے تین وجوہات نمایاں ہیں۔ پہلی وجہ پاکستان کی دفاعی ضرورت کو قرار دیا جارہا ہے۔ ان مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان انڈیا کو ملڑی فرنٹ پر انگیج کیے رکھنا چاہتا ہے، تاکہ انڈین افواج پاکستانی زیرانتظام کشمیر کے بارے میں کسی منصوبے کو عمل میں نہ لاسکے۔

ایک سابق فوجی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سیاچن گلیشئیر پر ہار کے بعد پاکستان نے کشمیرمیں مسلح تشدد بھڑکانے کے لحے آپریشن ’ٹوپاک‘ شروع کیا تھا جو فیل ہوگیا۔ راجوری اور پونچھ میں جو کچھ ہورہا ہے یہ آپریشن ٹوپاک 2 ہوسکتا ہے، لیکن اس کا بھی وہی حشر ہوگا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ راجوری اور پونچھ کے لوگوں کا رہن سہن اور بول چال اور دوسرے کلچرل معاملات ہوبہو ویسے ہی ہیں جیسے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے لوگوں کے ہیں۔ انھوں نے ’دشمن اس کا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔‘

دوسری وجہ چین کے ساتھ مخاصمت کو بتایا جاتا ہے۔ انڈیا کے سابق آئی اے ایس افسر یشو وردھن آزاد کہتے ہیں: ’چین کے ساتھ تناوٴ کے بعد فوج کا بڑا حصہ راجوری پونچھ سے لداخ شفٹ کرنا پڑا ہے۔ اس سے آپریشنل صلاحت متاثر ہوئی ہے جسکا فائدہ پاکستان اور اس کی حمایت والے دہشت گرد اُٹھاتے ہیں۔‘

تیسری ایک اور وجہ بھی غور طلب ہے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کرنل ششانک رنجن نے 28 جون کو شائع ہوئے انڈین اخبار ’دا ہندو‘ کے شمارے میں لکھا ہے: ’راجوری اور پونچھ کی اکثریت گجراور بکروال طبقوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے ہمیشہ ہماری فوج کا ساتھ دیا۔ لیکن دہائیوں سے ریزرویشن کے نام یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف رہے کیونکہ پہلے گجروں کو ریزرویشن دی گئی اور اب پہاڑیوں کو دینے کے امکان پر گجر ناراض ہیں۔‘

کشمیر، فائل فوٹو
Getty Images

کیا تناوٴ مزید بڑھ سکتا ہے؟

راجوری میں ایک گاوٴں کے سرپنچ فاروق انقلابی کہتے ہیں کہ حراستی ہلاکتوں کے بعد نوجوانوں میں بہت غصہ پایا جاتا ہے۔ ’سب کہتے ہیں کہ اس ظلم کی بجائے اچھا ہے ہم سب مر جائیں۔‘

تحقیقات اور معاوضوں کے اعلان اور فوج کی طرف تعاون کی یقین دہانی پر انقلابی کہتے ہیں : ’انصاف کا صرف اعلان نہیں ہونا چاہیے، انصاف واقعی ہونا چاہیے اور سب کو دکھنا چاہئے کہ ہاں انصاف ہوگیا۔‘

جنوب ایشیائی امور کے ماہر اور معروف صحافی ظفرچودھری بھی راجوری کے ہی باسی ہیں۔ انھوں نے حراستی ہلاکتوں پر اپنے ردعمل میں ایکس پر لکھا: ’جموں کشمیر میں اس سال عکسریت پسندی سے متعلق تشدد کی کل وارداتوں میں سے نصف راجوری اور پونچھ میں رونما ہوئی ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ اس شفٹ کا مطلب کیا ہے؟ جو کچھ کل ہوا وہ ہم سب کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ لیکن حکام اور اداروں کے ردعمل کا رُخ خاص طور پر قصورواروں اور ان کے سہولت کاروں کی طرف ہونا چاہئیے۔ ایسی لڑائیوں میں غلطی سے ہونے والا ہر جانی نقصان دشمن کے عزائم کی مدد کرسکتا ہے۔ 1990 میں کشمیر میں جو کچھ ہوا اُس سے سبق سیکھنا ہوگا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US