نریندر مودی کا سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے روس نہ جانا کیا ظاہر کرتا ہے؟

انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر اِن دنوں روس کے پانچ روزہ دورے پر ہیں اور یہ لگاتار دوسرا سال ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی دونوں ممالک کے درمیان سالانہ سربراہ اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔
تصویر
Getty Images

انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر روس کے پانچ روزہ دورے پر ہیں۔

یہ لگاتار دوسرا سال ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی دونوں ممالک کے درمیان سالانہ سربراہ اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔

انڈیا اور روس اعلیٰ رہنماؤں کی سطح پر سالانہ سربراہی اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ اور ان اجلاسوں کے سلسلے میں کبھی انڈیا اور کبھی روس کے صدور یا وزرائے اعظم ایک دوسرے کے مُلک کا دورہ کرتے ہیں۔

اس ضمن میں آخری سربراہی اجلاس 6 دسمبر 2021 کو نئی دہلی میں منعقد ہوا تھا جس میں شرکت کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوتن انڈیا کے دورے پر آئے تھے۔

تاہم فروری 2022 میں یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد وزیر اعظم مودی نے 2022 میں روس کا دورہ نہیں کیا تھا اس کے برعکس کے شیڈول کے مطابق انھیں اس دورے پر روس جانا تھا۔ یاد رہے کہ رواں سال ستمبر میں انڈیا میں ہونے والی جی 20 ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے لیے ولادیمیر پوتن انڈیا نہیں آئے تھے۔

وزیر اعظم مودی کا دورہ کیوں ملتوی کیا گیا؟

اس بار انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی سالانہ سربراہی اجلاس کے لیے روس جانے کی باری تھی۔ لیکن وہ لگاتار دوسرے سال بھی اس کا حصہ نہیں بنے۔ اس سال کے ختم ہونے میں صرف چار دن باقی ہیں تاہم ابھی تک اس کی کوئی ٹھوس وجہ انڈیا کی جانب سے سامنے نہیں آئی۔

روس سے اپنے سفارتی کیریئر کا آغاز کرنے والےانڈین وزیر خارجہ جے شنکر اب روسی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے ماسکو پہنچے ہیں اور وہ اپنے دورے کے دوران سینٹ پیٹرزبرگ بھی جائیں گے۔

تاہم انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں وزیر اعظم مودی کے روس نہ جانے اور جے شنکر کی وہاں آمد کے پیچھے موجود اشاروں سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’وزیر اعظم مودی روس کا دورہ نہ کر کے مغرب کو ایک مثبت اشارہ دے رہے ہیں، جبکہ جے شنکر کا دورہ اس بات کا عندیہ ہے کہ دہلی نے اپنے پُرانے سٹریٹجک پارٹنر (روس) کو چھوڑا نہیں ہے۔‘

گذشتہ سال جب وزیر اعظم مودی نے روس کا دورہ نہیں کیا تھا، تو بہت سی میڈیا رپورٹس نے اسے یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی روس کی دھمکی سے جوڑا تھا۔

بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ولادیمیر پوتن کی جانب سے یوکرین جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے روس میں ہونے والا سربراہی اجلاس منسوخ کر دیا تھا۔ تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز نے کچھ ذرائع کے حوالے سے اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔

روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کانفرنس میں نہ جانے کا فیصلہ بہت پہلے کیا گیا تھا اور جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

بلومبرگ نے اس سال ایک رپورٹ میں ایک امریکی عہدیدار کے حوالے سے بھی کہا تھا کہ وزیر اعظم مودی نے جی 20 کانفرنس میں روس اور چین کے صدور کی غیر موجودگی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

جی 20 سربراہ اجلاس کے دوران جو بائیڈن اور وزیر اعظم مودی کی ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے انڈو پیسفک کوآرڈینیٹر کرٹ کیمبل نے کہا تھا کہ ’یہ ہمارے انڈین شراکت داروں کے لیے بہت مایوس کن ہے کہ وہ یہاں نہیں ہیں۔ ہم شکر گزار ہیں کہ ہم یہاں ہیں۔‘

پوتن کے انڈیا نہ آنے پر سوالات

یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے پوتن نے کئی ممالک کا دورہ کیا ہے لیکن اس دوران وہ انڈیا نہیں آئے۔ پوتن نے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور وسطی ایشیا کے کئی ممالک کا دورہ کیا مگر اس دوران ان کے انڈیا نہ آنے پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔

تھنک ٹینک کارنیگی ماسکو کے ڈائریکٹر دمتری ٹرینن نے ’دی ڈپلومیٹ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین اور روس کی بڑھتی قربت یقینی طور پر انڈیا کو متاثر کرے گی۔

دمتری ٹرینن نے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ ’روس کا انڈیا نظریاتی طور پر چین کی طرح کا ہی سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ لیکن روس، انڈیا تجارت چین اور روس کی تجارت کا دسواں حصہ ہے۔ انڈیا امریکہ کے قریب آ رہا ہے اور روس کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ انڈیا اپنے خارجہ تعلقات کو کسی ایک ملک تک محدود نہیں رکھنا چاہتا۔‘

دمتری نے کہا تھا کہ ’روس سے انڈیا کو اسلحے کی فراہمی کے میدان میں امریکہ کی مداخلت بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ انڈیا اور روس کے درمیان دو مسائل ہیں۔ پہلا، دونوں ممالک کے تعلقات میں کافی اعتماد کے باوجود حکومتی سطح پر تعاون زیادہ ہے۔ اگر یہ نجی شعبے میں نہیں پھیلتا تو یہ تعلقات زیادہ جامع نہیں ہوں گے۔‘

’حکومت کا اب انڈیا کی معیشت پر اتنا کنٹرول نہیں رہا جتنا نجی شعبے کا ہے۔ ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو حکومتی دائرے سے باہر جانا پڑے گا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چین اور انڈیا کے درمیان دشمنی بڑھ رہی ہے۔ دونوں ملک روس کے قریبی شراکت دار ہیں لیکن روس ثالثی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘

انڈیا اور روس کے درمیان باہمی تجارت اپریل 2022 میں بڑھ کر 27 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے لیکن یہ مکمل طور پر یکطرفہ ہے۔ اس بات کو روس میں انڈیا کے سفیر پون کپور نے بھی قبول کیا ہے۔

پون کپور نے روس انڈیا بزنس ڈائیلاگ فورم میں کہا کہ انڈیا کی برآمدات 27 ارب ڈالر میں سے صرف 2 ارب ڈالر تھیں، مالی سال 2021-22 میں انڈیا اور روس کے درمیان دوطرفہ تجارت 13 ارب ڈالر تھی۔

انڈیا کی تیل اور کھاد کی درآمدات 13 ارب ڈالر سے بڑھ کر 27 ارب ڈالر تک پہنچنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرتی ہیں اور گذشتہ سال فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے انڈیا کو روس سے سستا تیل ملنا شروع ہو گیا۔

انڈیا اور روس کے درمیان تعلقات

انڈیا
Getty Images

روس کے دورے کے دوران جے شنکر نے اپنے بچپن کی ایک یاد شیئر کی جس میں 1962 میں روس میں منعقدہ ایک تقریب میں انھیں انٹری پاس ملا اور یہ تقریب خلابازوں کے اعزاز میں تھی۔ اس وقت جے شنکر صرف سات سال کے ایک چھوٹے بچے تھے۔

جے شنکر نے اپنے حالیہ دورے کی ایک تصویر بھی ایکس پر شیئر کی اور لکھا کہ یہ کیسے شروع ہوا اور کیسے چل رہا ہے۔

جئے شنکر کو سنہ 1978 میں ماسکو میں انڈیا کے سفارتخانے میں اپنی پہلی سفارتی پوسٹنگ ملی تھی۔اپنے دورے کے دوران جے شنکر روس کے نائب وزیر اعظم اور صنعت و تجارت کے وزیر ڈینس منتوروف سے ملاقات کریں گے۔

دفاعی شعبے میں انڈیا کا روس کے ساتھ دیرینہ اور وسیع تعاون ہے۔ روس کے دفاعی ساز و سامان پر انڈیا کا انحصار بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ انڈیا اب بھی دفاعی شعبے میں 60 سے 70فیصد سامان کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے۔ تاہم انڈیا اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے انڈیا بھی روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل خرید رہا ہے اور ملک میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جے شنکر کے دورے کے دوران انڈین روپے اور روبل میں ادائیگی کے طریقہ کار میں بے ضابطگیوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، دونوں ممالک کے درمیان تجارت، توانائی، دفاع اور رابطے کے حوالے سے دو طرفہ بات چیت ہوگی بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔

انڈیا نے ابھی تک یوکرین پر حملے کے معاملے میں روس کی کھل کر مخالفت نہیں کی ہے۔

دوسری جانب پوتن کئی بار یوکرین کے حوالے سے انڈیا کے مؤقف کی تعریف کر چکے ہیں جبکہ ماضی میں انھوں نے کئی مواقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کی کھلے عام تعریف کی ہے۔

انڈیا کئی بار کہہ چکا ہے کہ روس، یوکرین بحران کو سفارتکاری اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم مودی نے گذشتہ سال ستمبر میں پوتن سے کہا تھا کہ ’یہ جنگ کا دور نہیں ہے۔‘

روس جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے میدان میں بھی انڈیا کا ایک اہم شراکت دار ہے ۔

کودنکولم نیوکلیئر پاور پلانٹ (کے کے این پی) اس علاقے میں انڈیا اور روس کے درمیان ایک فلیگ شپ پروجیکٹ ہے جبکہ خلائی شعبے میں انڈیا اور روس کے درمیان تعاون بھی سالوں پرانا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US