’تقریباً ایک سال ہو گیا ہے لیکن ہمیں اپنے بھائی کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ جب سے ہمارا اس سے رابطہ ٹوٹا ہے ہم رات کو سو نہیں پاتے۔ اُن کے انتظار میں ہر روز گِن گِن کر کاٹ رہے ہیں۔‘
فائل فوٹو’تقریباً ایک سال ہو گیا ہے لیکن ہمیں اپنے بھائی کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ جب سے ہمارا اس سے رابطہ ٹوٹا ہے ہم رات کو سو نہیں پاتے۔ اُن کے انتظار میں ہر روز گِن گِن کر کاٹ رہے ہیں۔‘
انڈین ریاست گجرات کے ضلع سابر کانٹھا کے گاؤں واگھ پورہ کے رہنے والے شیلیش دیسائی اپنے بھائی کے بارے میں ہمیں بتا رہے تھے جو اپنے خاندان کے ہمراہ گذشتہ 11 ماہ سے اپنے 35 سالہ جوان بھائی بھرت دیسائی کی راہ تک رہے ہیں۔
شیلیش دیسائی نے مزید کہا ’ان کی واپسی کی امیدیں بھی اب دم توڑ رہی ہیں۔ وہ جہاں ہو سلامت رہے، اب یہی ہماری دعا ہے۔ میرے بھائی کے تین بچے ہر روز مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ’بابا کب آئیں گے؟‘ لیکن ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔‘
’ہم نے اس ایجنٹ سے بھی رابطہ کیا تھا جس نے میرے بھائی کو بھیجا تھا لیکن وہ مختلف کہانیاں بناتا رہا۔ میرے بھائی کی بیوی نے اپنی مدعیت میں ایجنٹ کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروا رکھی ہے۔‘
بھرت دیسائی امریکہ جانے کا خواب لے کر شمالی گجرات کے گاؤں واگھ پورہ سے نکلے تھے۔ فروری 2023 کے پہلے ہفتے میں ان کا آخری بار اپنے گھر والوں سے رابطہ ہوا تھا جس کے بعد ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
بھرت کے علاوہ شمالی گجرات کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوان امریکہ جانے کے لیے اپنے گھروں سے نکلے تھے۔
وہ امریکہ میں ورک پرمٹ حاصل کرنے کے خواب کے ساتھ ہالینڈ اور پھر ڈومینیکن ریپبلک کا سرکاری ویزہ لے کر روانہ ہوئے تھے لیکن کیریبین ممالک کے راستے امریکہ پہنچنے سے پہلے ان کا اپنے گھر والوں سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
ان تمام لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے متعدد بار ایجنٹوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں دھوکہ دیا گیا ہے۔
اس لیے اہلخانہ نے اپنے رشتہ داروں کا سراغ لگانے کے لیے گجرات ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی۔ اور یوں اس پورے معاملے کی سماعت گجرات ہائی کورٹ میں ہو رہی ہے۔
مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باعث متاثرہ خاندانوں کے وکلا نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
گجرات ہائی کورٹ میں کیا کارروائی ہوئی؟
لاپتہ ہونے والے تمام افراد کو ایجنٹوں نے یقین دہانی کروائی تھی کہ انھیں امریکہ میں ورک پرمٹ دلوایا جائے گا (فائل فوٹو)14 دسمبر 2023 کو گجرات ہائیکورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران انڈیا کی وزارت خارجہ نے اپنا جواب جمع کروایا ہے۔
وزارت خارجہ نے عدالت کو بتایا کہ کیریبین ممالک میں انڈیا کے مختلف سفارت خانوں نے گجرات سے لاپتہ ہونے والے ان نو افراد کو تلاش کیا لیکن وہ کہیں نہیں ملے۔
شیلیش دیسائینے اپنے بھائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے بھائی بھرت دیسائی آٹھ جنوری کو امریکہ جانے کے لیے گاؤں سے روانہ ہوئے اور چار فروری 2023 کو وہ ہالینڈ کے راستے ڈومینیکن ریپبلک پہنچے۔‘
بھرت کی اہلیہ چیتنا بین دیسائی نے کہا کہ ’میری ان سے آخری بار چار فروری کو بات ہوئی تھی، اس کے بعد سے ان سے کوئی بات نہیں ہوئی نہ ہی کوئی رابطہ ہوا۔ ایک سال گزرنے کے بعد بھی ان کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔‘
شیلیش دیسائی نے کہا کہ ’بھرت نے 10ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ گاؤں میں کھیتی باڑی اور جانوروں کی پرورش کیا کرتے تھے۔ ایک دوست کے ذریعے وہ دیویش بھائی نامی ایجنٹ کے رابطے میں آئے۔ دیویش نے انھیں امریکہ میں ورک پرمٹ دلانے کا وعدہ کیا تھا۔‘
انھوں نے اپنے روشن مستقبل کے لیے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان کے گھر اور خاندان کی صورتحال اب بہت سنگین ہے۔ بھرت کی بیوی اور بچوں کو مالی مشکلات اور ذہنی پریشانی کا سامنا ہے۔‘
’بھرت نے رشتہ داروں سے 20 لاکھ روپے ادھار لے کر ایجنٹ کو ادا کیے تھے۔ باقی 50 لاکھ روپے وہاں پہنچنے کے بعد ادا کرنے تھے۔ پولیس میں شکایت درج کروانے کے باوجود ان کا کوئی نشان نہیں ملا۔ اب ہم عدالت سے ہی کسی اچھی خبر کی امید کر رہے ہیں۔‘
’ایجنٹ نے میرے بھائی کو بتایا کہ امریکہ میں ورک پرمٹ مل جائے گا‘
(فائل فوٹو)مہسانہ تعلقہ کے ہیڈوا گاؤں کے رہنے والے سدھیر پٹیل بھی امریکہ جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئے تھے۔
ان کے چھوٹے بھائی سنیل پٹیل نے بی بی سی کو بتایا ’میں نے اپنے بھائی سے آخری بار پانچ فروری 2023 کو صبح ایک بجے کے قریب بات کی تھی، اور اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔‘
’ایجنٹ نے میرے بھائی کو بتایا کہ انھیں امریکہ میں ورک پرمٹ مل جائے گا۔ اس واقعے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ میرے بھائی کو امریکہ سمگل کیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا، ’میرے بھائی نے بی ایس سی کیمسٹری کی تعلیم حاصل کی ہے۔ مہسانہ ہائی وے پر ہمارا ایک ہوٹل ہے۔ یہ ہوٹل میرے بھائی اور والد چلا رہے تھے۔ میرے بھائی کے جانے کے بعداب میں ہوٹل کا انتظام سنبھال رہا ہوں۔‘

’میرے بھائی کے جانے کے بعد گھر اور ہوٹل چلانے کی ذمہ داری مجھ پر آ گئی۔ جب سے بھائی سے رابطہ ختم ہوا ہے تب سے میری ماں بہت رو رہی ہیں۔‘
’مسلسل پریشان رہنا انھیں بیمار کرتا ہے۔ میری ماں کی زندگی ایک جگہ رکی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ وہ کہتی رہتی ہیں کہ مجھے اپنے بیٹے سے بات کرنے دو۔ اگر وہ ہمارے ملک میں کہیں کھو گیا ہے تو ہم سب کام چھوڑ کر اسے ڈھونڈیں گے۔ پھر چاہے ہم اس پر کتنی ہی رقم خرچ کریں مگر ڈھونڈ لیں گے۔‘
’اگر ہمیں معلوم ہو کہ وہ کہاں ہے، تو ہم گھر گھر جا کر اسے ڈھونڈیں گے، لیکن یہاں ہم اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا ایجنٹ ہمیں اس معاملے میں جھوٹے جوابات دے رہا تھا، شروع میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ جیل میں ہیں، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔‘
’پتہ نہیں اس پر امریکہ جانے کا بھوت کہاں سے سوار ہوا‘
ضلع گاندھی نگرکے گاؤں ساردھو کے رہنے والے جتیندر بھائی پٹیل کی بیٹی اونیبہن بھی لاپتہ ہونے والوں میں شامل ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’میری بیٹی نے احمد آباد کے کالج سے تعلیم حاصل کی۔ بیٹی پڑھائی میں بہت ذہین تھی۔ اسے ایک کمپنی میں نوکری بھی مل گئی۔ جہاں وہ اچھے پیسے کما رہی تھی، لیکن پتہ نہیں اس پر امریکہ جانے کا بھوت کہاں سے سوار ہوا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’آخری بار میں نے اپنی بیٹی سے چار فروری 2023 کو بات کی تھی۔ فی الحال، ایک درخواست ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ ہمیں ہر تاریخ پر کسی اچھی خبر کی امید ہے، لیکن پھر ہماری امیدوں پر پانی پھر گیا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے ملک میں ملازمت کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ حکومتی قوانین کے مطابق کوئی تنخواہ نہیں ہے۔ کام کے اوقات لمبے ہیں اور تنخواہ کم ہے۔ اس کی وجہ سے نوجوان مغربی ممالک کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔‘
جتیندر پٹیل کہتے ہیں کہ ’ہمارے آس پاس کے دیہاتوں میں بیرون ملک جانے کا جنون ہے۔ ہر گھر میں کم از کم ایک فرد بیرون ملک ہے۔ اب نئی نسل تعلیمی ویزوں پر بیرون ملک جاتی ہے۔‘
’میری بیٹی بہت باتونی اور سیدھی سی تھی۔ ہم دن رات اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہم ہر روز سوچتے ہیں کہ اسے کیسے اور کہاں تلاش کیا جائے۔‘

’بات کرنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں‘
احمد آباد شہر کے نکھل پٹیل بھی لاپتہ ہیں۔ بی بی سی نے ان کے بھائی کیتن سے بات کی تو انھوں نے کہا ’بات کرنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔‘
انھوں نے اس بارے میں مزید بات کرنے سے معذرت کر لی۔
دھروراج سنگھ کے والد بلونت سنگھ گاندھی نگر کے گاؤں ناردی پور کے رہنے والے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میں نے اپنے بیٹے سے آخری بار دو فروری 2023 کو بات کی تھی۔ میرے کل تین بچے ہیں جن میں ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔‘
’میرے پاس تین ایکڑ زمین ہے۔ میں ایک کسان ہوں۔ دھرو میرا دوسرا بیٹا ہے۔ وہ اپنی زندگی خود بنانے کے لیے امریکہ جانا چاہتا تھا۔ ہمارا اسے گھر سے باہر بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن وہ جانا چاہتا تھا، اس لیے ہم اسے اجازت دے دی۔‘
اس پورے واقعے میں متاثرین کے اہلخانہ نے گجرات ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ غیر ملکی سرزمین پر لاپتہ ہونے والے نو افراد کی جان بچانے کے لیے متعلقہ افراد کو ضروری احکامات دیے جائیں۔
ایجنٹ کون ہیں
14 جولائی 2023 کو سنیل پٹیل نے مہسانہ پولیس سٹیشن میں اپنے بڑے بھائی سدھیر پٹیل کو امریکہ بھیجنے کے نام پر دھوکہ دینے کی شکایت درج کروائی تھی۔
اس میں دیویش عرف جانی پٹیل نے سرکاری طور پر 75 لاکھ روپے میں امریکہ لے جانے سے پہلے 10 لاکھ روپے ایڈوانس لیے جانے پر دھوکہ دہی کی شکایت درج کرائی ہے۔
سابر کانٹھا ایس او جی ٹیم اس وقت صوبائی پولیس سٹیشن میں بھرت دیسائی کے لاپتہ ہونے کی شکایت کی تحقیقات کر رہی ہے۔
پولیس کے مطابق اس معاملے میں اب تک دو ملزمان دیویش عرف جانی پٹیل اور چتور پٹیل کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
دونوں گرفتار ملزمان اس وقت ضمانت پر ہیں اور باقی تین ملزمان مطلوب ہیں۔ مطلوب ملزم کے امریکہ فرار ہونے کا شبہ ہے۔
اس سلسلے میں تین ایجنٹوں، دیویش پٹیل عرف جانی، شیلیش پٹیل اور مہیندر پٹیل عرف ایم ڈی کے خلاف پولیس شکایت درج کرائی گئی ہے۔ مطلوب ملزمان میں مہندر عرف ایم ڈی پٹیل، دھول پٹیل اور وجے پٹیل شامل ہیں۔