بنگلہ دیش کی مختلف سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم کے دوران ’انڈیا فیکٹر‘ پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ بنگلہ دیش کے انتخابات میں انڈیا کیا چاہتا ہے۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ماضی کے تین عام انتخابات میں انڈیا کا کیا کردار رہا۔

بنگلہ دیش میں انتخابات کا موسم قریب آتے ہی اس کے ایک پڑوسی کے کردار پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ وہ ملک جس کے بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار کا سب سے زیادہ چرچا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ انڈیا ہے۔
بنگلہ دیش کی مختلف سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم کے دوران ’انڈیا فیکٹر‘ کا ذکر ادھر ادھر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس معاملے پر بھی کافی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ بنگلہ دیش کے انتخابات میں انڈیا کیا چاہتا ہے۔
اس بار کا الیکشن بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اپوزیشن میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ایک اعلیٰ رہنما نے تو کھلے عام الزام لگایا ہے کہ دہلی نے درحقیقت بنگلہ دیش کے شہریوں کی تقدیر چھین لی ہے۔
بنگلہ دیش میں کافی بڑی تعداد میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح سے شیخ حسینہ کی حکومت دو بار تنازعات میں گھرے ہوئے پارلیمانی انتخابات کرانے کے باوجود لگاتار 15 سال تک برسراقتدار ہے، یہ کسی بھی صورت میں انڈیا کی فعال حمایت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
دوسری طرف حکمران جماعت یا اتحاد کے رہنما اور وزرا کو اکثر طاقتور پڑوسی انڈیا کی براہ راست حمایت پر اس کی تعریف کرتے دیکھا اور سنا گیا ہے۔
ایک امیدوار اور سابق رکن پارلیمنٹ نے حال ہی میں ایک سرکاری اہلکار کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’یاد رکھیں کہ میں شیخ حسینہ کا امیدوار ہوں، یعنی انڈیا کا امیدوار۔‘
ان کی ٹیلیفون پر گفتگو کا آڈیو کلپ لیک ہونے اور وائرل ہونے کے بعد اس پر بحث تیز ہو گئی ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
تاہم انڈیا نے کبھی باضابطہ طور پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ اس نے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے انتخابات میں کوئی کردار ادا کیا ہے یا مداخلت کی ہے۔
انڈیا کی سرکاری طور پر اعلان کردہ پالیسی یہ رہی ہے کہ بنگلہ دیش کے جمہوری مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق صرف بنگلہ دیش کے شہریوں کو ہے۔
لیکن دلی میں ہونے والی غیر رسمی بات چیت میں سرکاری حکام، سفارتکار اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک اپنے پڑوس میں ایک دوست حکومت چاہتے ہیں اور انڈیا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
انڈیا بھی چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایسی حکومت آئے جس کے ساتھ کام کرنا آسان ہو اور رابطے بھی معمول کے مطابق ہوں۔
لیکن بنگلہ دیش میں یہ قیاس آرائیاں کم نہیں کہ دلی نے ڈھاکہ میں ایک دوست حکومت کو اقتدار میں دیکھنے کے لیے کس حد تک سرگرمی دکھائی ہے۔
بنگلہ دیش کے بہت سے سفارت کاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ دلی کی سرگرمی کسی حد تک عوامی ہے مگر زیادہ تر پس پردہ ہے۔
اس رپورٹ میں ہم نے 2008، 2014 اور 2019 کے بنگلہ دیش کے پارلیمانی انتخابات میں انڈیا کے مبینہ کردار پر بات کی ہے۔
آئیں دیکھتے ہیں ان انتخابات میں انڈیا کا رویہ کیا تھا، اس نے کیا بیانات دیے اور انتخابی نتائج کے بعد اس نے کیا ردعمل ظاہر کیا؟

29 دسمبر 2008
بنگلہ دیش میں گذشتہ تین پارلیمانی انتخابات میں یہ سب سے کم متنازع تھا۔ اس الیکشن میں بی این پی نے 30 سیٹیں جیتی تھیں۔
اس کے بعد انھوں نے انتخابی عمل میں دھاندلی کے الزامات لگائے تھے لیکن ان کے الزامات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
بنگلہ دیش کا وہ الیکشن فوج کی حمایت یافتہ نگراں حکومت کی نگرانی میں ہوا تھا۔ وہ ’ون الیون‘ کے ذریعے اقتدار میں آئیں اور انتخابات سے دو سال قبل ملک چلا رہی تھیں۔
لیکن اس وقت ملک کی دو بڑی جماعتوں بالترتیب عوامی لیگ اور بی این پی کی دو سرکردہ رہنما شیخ حسینہ اور خالدہ ضیا کو فعال سیاست سے دور کرنے کی کوششیں کم نہیں ہوئیں۔
تاہم بعد میں دونوں جماعتوں نے ان کی قیادت میں الیکشن لڑا۔

انڈیا کے سابق صدر پرنب مکھرجی نے اپنی سوانح عمری میں دعویٰ کیا ہے کہ ’انھوں نے خود ان دو خواتین رہنماؤں کو جیل سے رہا کرانے اور سیاست میں واپسی میں اہم کردار ادا کیا۔‘
اس وقت انڈیا میں منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس کی حکومت تھی اور پرنب مکھرجی اس میں وزیر خارجہ تھے۔
بنگلہ دیش میں اس الیکشن سے ٹھیک دس ماہ قبل آرمی چیف جنرل معین احمد انڈیا کے سرکاری دورے پر آئے تھے۔ انھوں نے اپنے چھے روزہ دورے کے دوران پرنب مکھرجی سے بھی ملاقات کی۔
پرنب مکھرجی نے اپنی کتاب ’دی کولیشن ایئرز‘ میں لکھا ہے کہ ’میں نے بنگلہ دیش کے آرمی چیف سے حسینہ اور خالدہ کے دور میں تمام سیاسی قیدیوں کو جیل سے رہا کرنے کی درخواست کی تھی۔ جنرل کو خدشہ تھا کہ شیخ حسینہ جیل سے باہر آ کر اسے برطرف کر دیں گے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’میں نے انھیں یقین دلایا کہ شیخ حسینہ کے اقتدار میں آنے کی صورت میں بھی ان کی ملازمت بحال ہو جائے گی۔ میں نے امریکی صدر سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا اور سیاسی قیدیوں کی رہائی میں مداخلت کی درخواست کی۔‘

حسینہ کے ’کاکا بابو‘ پرنب مکھرجی نے اپنی کتاب میں کیا اعترافات کیے؟
انڈیا کے سابق صدر پرنب مکھرجی نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ سنہ 2008 کے پارلیمانی انتخابات میں شیخ حسینہ اور خالدہ ضیا کے مقابلے میں انڈیا نے فعال کردار ادا کیا تھا۔
شیخ حسینہ کے خاندان سے ان کے بہت قریبی ذاتی اور خاندانی تعلقات تھے۔ حسینہ پرنب مکھرجی کو ’کاکا بابو‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔
پرنب مکھرجی کی کتاب میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس قربت کی وجہ سے ہی انھوں نے جنرل معین احمد کو شیخ حسینہ کی جانب سے انھیں برطرف نہ کیے جانے کا یقین دلایا تھا۔
انڈیا یہ بھی چاہتا تھا کہ سنہ 2008 کے انتخابات میں کسی بھی حالت میں بی این پی دوبارہ اقتدار میں نہ آئے۔
وینا سیکری خالدہ ضیا کے دوسرے دور (2001-2006) کے دوران ڈھاکہ میں طویل عرصے تک انڈیا کی ہائی کمشنر رہیں۔
وینا سیکری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس وقت دہلی اور ڈھاکہ کے باہمی تعلقات نچلی سطح پر پہنچ چکے تھے۔ دوطرفہ تجارت، ٹریفک اور تعاون ٹھپ ہو چکا تھا۔ انڈیا کی شمال مشرقی عسکریت پسند تنظیموں کو براہ راست مدد مل رہی تھی۔ دلی حکومت اس صورتحال کو جلد بدلنے کے حق میں تھی۔‘
لیکن وینا سیکری یہ بھی یاد دلاتی ہیں کہ انڈیا کو بی این پی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام کی بھرپور حمایت کی وجہ سے اس وقت عوامی لیگ تین چوتھائی سے زیادہ نشستیں جیت کر اقتدار میں آئی تھی۔
شیخ حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد اگلے دن (30 دسمبر) حکومت ہند کی طرف سے ان کا خیرمقدم کرتے ہوئے جاری کردہ بیان بھی قابل تعریف ہے۔
پرنب مکھرجی کی وزارت کی طرف سے جاری کردہ اس بیان میں کہا گیا کہ انڈیا بنگلہ دیش کے لوگوں کو اس کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہے جس طرح ایک انتہائی قریبی اور دوست پڑوسی ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور پرامن انتخابات کے ذریعے کثیر الجماعتی جمہوریت کی بحالی ہوئی ہے۔
شیخ حسینہ کی قیادت میں عوامی لیگ اور گرینڈ الائنس کی یہ تاریخی فتح پورے جنوبی ایشیا کی جمہوری سیاست میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
’ووٹرز کی بڑی تعداد میں شرکت اور انتخابی عمل کا منصفانہ انعقاد دراصل جمہوریت کی ایک بڑی فتح ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام نے ایک بار پھر جمہوری روایت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور ترقی اور پیشرفت کے حق میں متفقہ فیصلہ دیا ہے۔‘
اس بیان میں بنگلہ دیش کی نو منتخب شیخ حسینہ حکومت کے ساتھ کام کرنے کا عہد بھی کیا گیا تھا۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ آج بھی دہلی اس قرارداد پر عمل پیرا ہے۔

5 جنوری 2014
سب سے بڑا تنازع اور بحث بنگلہ دیش کے اس الیکشن میں انڈیا کی مبینہ مداخلت پر تھی۔ اس کی وجہ انتخابات سے صرف ایک ماہ قبل انڈیا کے اس وقت کے اعلیٰ سفارت کار کا ڈھاکہ کا متنازع دورہ تھا۔
انڈیا کی اس وقت کی سیکریٹری خارجہ سجاتا سنگھ صرف 24 گھنٹے کے دورے پر 4 دسمبر 2013 کو ڈھاکہ پہنچی تھیں۔
اس دوران انھوں نے وزیراعظم شیخ حسینہ، اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا اور قومی اسمبلی کے چیئرمین جنرل حسین محمد ارشاد سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
سجاتا سنگھ نے بنگلہ دیش کے اس وقت کے وزیر خارجہ محمود علی اور خارجہ سکریٹری ایم شاہد الحق سے بھی بات چیت کی تھی۔
اس کے علاوہ انھوں نے بنگلہ دیش کے فرسٹ لائن میڈیا ہاؤسز کے ایڈیٹرز سے بھی بات چیت کی۔

انڈین سیکریٹری خارجہ کے دورے سے قبل ہی حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بی این پی نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ جاتیہ پارٹی نے بھی انتخابات سے دور رہنے کا کہا تھا۔
اس وقت انڈیا اور بنگلہ دیش کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ سجاتا سنگھ نے جنرل ارشاد سے ملاقات صرف اس لیے کی تھی کہ وہ جاتیہ پارٹی پر انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابات کو قابل قبول شکل دینے کے لیے دباؤ ڈالیں۔
خود جاتیہ پارٹی کے سربراہ نے بھی ایسا ہی اشارہ دیا تھا۔ شروع میں تیار نہ ہونے کے باوجود جنرل ارشاد کو بعد میں حکومت کے دباؤ پر انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا اور بی این پی کی عدم موجودگی میں قومی اپوزیشن پارٹی کا کردار ادا کیا۔
5 دسمبر 2013 کو ڈھاکہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سجاتا سنگھ نے دعویٰ کیا تھا کہ کسی بھی جمہوریت میں اپوزیشن پارٹی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور خالدہ ضیا اور جنرل ارشاد سے ان کی ملاقات بنگلہ دیش کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ انڈیا کی پہلی ملاقات تھی۔ یہ جاری مذاکراتی عمل کا حصہ ہے۔
انڈین سیکریٹری خارجہ کا تبصرہ
اس پریس کانفرنس میں بنگلہ دیش میں انڈیا کے اس وقت کے سفیر پنکج شرن بھی موجود تھے۔
خارجہ سیکریٹری سجاتا سنگھ نے کہا کہ ’میں نے اپنی ملاقاتوں کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ انڈیا ایک مستحکم، پرامن اور ترقی پسند بنگلہ دیش کے حق میں ہے اور جمہوری عمل کے کامیاب انعقاد کو اہمیت دیتا ہے۔‘
ڈھاکہ میں میڈیا میں انڈین سیکریٹری خارجہ کے تبصرے کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا گیا کہ انڈیا بنگلہ دیش کے انتخابات میں سب کی شمولیت یقینی بنانے کے لیے سرگرم کوششیں کر رہا ہے۔
نئی دہلی کے ایک مشہور تھنک ٹینک کی سینئیر فیلو اور بنگلہ دیش کے امور کی ماہر سمرتی پٹنائک کا خیال ہے کہ سجاتا سنگھ کے دورے کی میڈیا میں غلط تشریح کی گئی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ درست ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان کی کوششوں کو مداخلت کے طور پر دیکھا۔ لیکن میری رائے میں انڈین سیکریٹری خارجہ کا بنیادی مقصد پڑوسی ملک بنگلہ دیش کو آئینی بحران سے بچانا تھا۔‘
ڈاکٹر سمرتی پٹنائک کے مطابق ’انڈیا نے یہ سوچ کر یہ قدم اٹھایا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے بغیر ہونے والے کسی بھی انتخابات کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی نہیں ملے گی اور بنگلہ دیش کے لیے بحران پیدا ہو جائے گا جو کہ انڈیا کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔‘

بی این پی کے بغیر ہونے والے انتخابات میں تقریباً 40 فیصد ووٹنگ ہوئی اور عوامی لیگ نے 234 نشستیں حاصل کیں۔
انڈیا کا خیال تھا کہ بی این پی کے حصہ نہ لینے کے باوجود انتخابی میدان میں جاتیہ پارٹی کی موجودگی اور ووٹنگ کے معقول فیصد کی وجہ سے بنگلہ دیش کے اس انتخاب کو تسلیم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے انتخابات کے دن ایک بیان میں کہا تھا کہ ’بنگلہ دیش میں 5 جنوری کا الیکشن ایک آئینی ضرورت ہے، تشدد کبھی آگے بڑھنے کا رستہ نہیں بن سکتا۔ بنگلہ دیش میں جمہوری رجحان کو اپنا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ٹھیک ایک ہفتہ بعد شیخ حسینہ نے ایک بار پھر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا۔ ان عالمی رہنماؤں میں جنھوں نے سب سے پہلے انھیں مبارکباد دی، ان میں انڈین وزیراعظم من موہن سنگھ بھی شامل تھے۔
من موہن سنگھ نے 12 جنوری کی شام ٹیلی فون پر حسینہ کو مبارکباد دی اور کہا کہ ’میں آپ کے ملک کے عام لوگوں کی بنگلہ دیش کے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی کوششوں کی کامیابی کی خواہش کرتا ہوں۔‘

30 دسمبر 2018
انڈیا 2018 کے بنگلہ دیش کے انتخابات سے چند مہینوں سے دوری اختیار کیے ہوئے تھے۔ اب اس کی وجہ یا تو اپنے پانچ سال پہلے کے تجربے سے سیکھ کر انڈیا نے ایسا کیا یا پھر کسی اور وجہ سے۔
عوامی سطح پر یہ خیال پایا جاتا تھا کہ انڈیا زیادہ متحرک نہیں ہے۔
انتخابات سے صرف دس دن پہلے 20 دسمبر 2018 کو انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ ’بنگلہ دیش کے انتخابات مکمل طور پر اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ بنگلہ دیش نہ صرف ہمارا قریبی پڑوسی اور مضبوط اتحادی ہے بلکہ اس کا ایک قریبی ہمسایہ ملک بھی ہے۔ وہاں متحرک جمہوریت ہے۔ ہم بنگلہ دیش میں اس جمہوریت کا احترام کرتے ہیں۔‘
لیکن بنگلہ دیش کے اس الیکشن میں بی این پی کے حصہ لینے کے فیصلے کو انڈیا کی ’ظاہر غیر جانبداری‘ کی سب سے بڑی وجہ کہا جا رہا تھا۔
اس وقت بی این پی نے کچھ دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا میں بی جے پی مخالف کئی جماعتیں آپس میں اتحاد بنا کر اگلے انتخابات لڑنے کی تیاری کر رہی تھیں۔ اسے گرینڈ الائنس کہا جا رہا تھا۔

ڈھاکہ میں تعینات سابق انڈین سفیر پنک رنجن چکرورتی نے تب بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بنگلہ دیش کے اس الیکشن میں تمام پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں، اس لیے انڈیا کو اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
’بنگلہ دیش میں جو بڑی تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ انڈیا میں بننے والے عظیم اتحاد کی طرز پر وہاں بھی اپوزیشن کا اتحاد ابھرا ہے، اب متحدہ محاذ بھی آ گیا ہے، جس کے نتیجے میں انتخابات صحیح راستے پر چل رہے ہیں۔ اگر سب کچھ اسی طرح چلتا رہا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ سال 2014 سے بالکل مختلف ہوگا۔‘
اس انتخاب سے پہلے انڈیا کے خارجہ سیکریٹری یا کسی اعلیٰ سفارت کار یا عہدیدار نے عوامی طور پر ڈھاکہ کا دورہ نہیں کیا۔ تاہم بنگلہ دیش کے قومی الیکشن کمیشن کی دعوت پر انڈیا کے سرکاری افسران کی ایک بڑی ٹیم نے وہاں کا دورہ کیا (28-31 دسمبر، 2018) اور پورے انتخابی عمل کی نگرانی کی۔
انتخابات سے تقریباً ڈیڈھ ماہ قبل بی بی سی بنگلہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’بنگلہ دیش میں زیادہ تر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کے انتخابات کے حوالے سے انڈیا کی غیر جانبداری اس کی حکمت عملی میں تبدیلی کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔‘
الیکشن میں دھاندلی اور کرپشن کے الزامات
دہلی میں یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی کہ انتخابات سے فاصلہ برقرار رکھنے کی عوامی کوششوں کے باوجود انڈیا کی براہ راست حمایت صرف شیخ حسینہ کی زیر قیادت عوامی لیگ کی طرف تھی۔
30 دسمبر کو بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی اور کرپشن کے الزامات سامنے آنے کے بعد یہ معاملہ مزید واضح ہو گیا۔ یہ بات سامنے آئی کہ کئی مقامات پر ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی آدھی رات کو حکمراں جماعت کی حمایت میں ووٹ ڈالے گئے تھے۔ بی بی سی نے اس دھاندلی کی ویڈیو بھی پوسٹ کی تھی۔
اپوزیشن جماعت بی این پی نے آدھی رات کی ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا تھا اور الیکشن کے دن ہی میدان سے دستبردار ہو گئے تھے۔
یہاں ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے بعد آدھی رات کو واضح ہو گیا کہ عوامی لیگ اور گرینڈ الائنس ایک بار پھر بھاری اکثریت سے جیت کر اقتدار میں واپس آ رہے ہیں۔ عوامی لیگ نے قومی پارٹی اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر تین سو میں سے 293 نشستیں حاصل کیں۔
لیکن انڈیا نے انتخابی دھاندلی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ انڈیا سے وہاں جانے والی مبصرین کی ٹیم جو اس وقت بنگلہ دیش میں تھی نے بھی اپنی رپورٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

شیخ حسینہ کی قیادت
لیکن 31 دسمبر کی صبح دہلی سے وزیر اعظم نریندر مودی کی کال موصول ہونے میں تاخیر کی وجہ سے ڈھاکہ میں ہلکی سی بے چینی پیدا ہونے لگی۔ آخر کار صبح تقریباً 11 بجے وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو فون کیا اور انھیں مبارکباد دی۔ جس کے بعد بتایا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان کچھ دیر دوستانہ ماحول میں بات چیت ہوئی۔
نریندر مودی نے امید ظاہر کی کہ عوامی لیگ کی فیصلہ کن فتح اور شیخ حسینہ کی دور اندیش قیادت انڈیا اور بنگلہ دیش کے باہمی تعلقات کو مزید آگے لے جائے گی۔ حسینہ کو فون کرنے والے عالمی لیڈروں میں مودی پہلے رہنما تھے۔ اسی لیے حسینہ واجد نے ان سے اظہار تشکر کیا۔
بعد میں دہلی میں وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ ’وزیر اعظم مودی نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ہمارے پڑوسی علاقائی ترقی اور سلامتی میں قریبی شراکت دار ہیں۔‘
اس وقت تک شیخ حسینہ کو انڈیا کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کی جانب سے کوئی مبارکباد کی کال موصول نہیں ہوئی تھی۔ شیخ حسینہ کے بھی اس پارٹی اور اس کی قیادت سے قریبی اور خاندانی تعلقات ہیں۔ دراصل کانگریس صدر راہل گاندھی اس وقت بیرون ملک چھٹیاں گزار رہے تھے۔
انڈیا میں بنگلہ دیش کے اس وقت کے سفیر سید معظم علی نے پارلیمنٹ میں کانگریس کے رہنما آنند شرما کو اپنے موبائل پر فون کیا اور درخواست کی کہ وزیر اعظم کو بھی فون کیا جائے لیکن کانگریس کی طرف سے کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔ اس کے بعد آنند شرما نے فوراً راہول گاندھی کو ڈھونڈا اور پارٹی کی جانب سے بیان جاری کرنے کا انتظام کیا۔
کانگریس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی جیت دراصل جمہوریت کی جیت ہے۔‘
ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے تئیں انڈیا کی حمایت کسی خاص جماعت تک محدود نہیں ہے۔