رواں برس جنوری میں نیپال کے پوکھرا ایئرپورٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے حادثے کی تحقیقات کرنے والے حکومت کے مقرر کردہ تفتیش کاروں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے نیپال طیارہ حادثہ جس میں 72 افراد ہلاک ہو گئے تھے، غالباً اس کے پائلٹس کی جانب سے غلطی سے انجن کی بجلی منقطع کر دینے کی وجہ سے پیش آیا تھا۔

رواں برس جنوری میں نیپال کے پوکھرا ایئرپورٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے حادثے کی تحقیقات کرنے والے حکومت کے مقرر کردہ تفتیش کاروں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے نیپال طیارہ حادثہ جس میں 72 افراد ہلاک ہو گئے تھے، غالباً اس کے پائلٹس کی جانب سے غلطی سے انجن کی بجلی منقطع کر دینے کی وجہ سے پیش آیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جس کی وجہ سے طیارے کو انجن کے زور پر ملنے والی قوت کو نقصان پہنچا اور جہاز کو ایئروڈنامک سٹال کا سامنا کرنا پڑا یعنی ہوا کے دباؤ کی وجہ سے جہاز کا توازن بگڑ گیا۔
یاد رہے کہ رواں برس کے آغاز میں 15 جنوری کو ییٹی ایئرلائنز کا مسافر طیارہ کھٹمنڈو سے پوکھرا جا رہا تھا جب لینڈنگ کے وقت وہ گر کر تباہ ہو گیا۔
اسے گذشتہ 30 برس میں نیپال کا ہولناک فضائی حادثہ قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ طیارے میں عملے کے چار ارکان اور 68 مسافر سوار تھے جن میں کم از کم 15 غیر ملکی شہری بھی شامل تھے۔ مسافروں میں سے 53 نیپالی، پانچ انڈین، چار روسی اور دو کوریائی باشندے سوار تھے۔ آئرلینڈ، آسٹریلیا، ارجنٹائن اور فرانس کا ایک ایک مسافر بھی سوار تھا۔
اس حادثے میں تباہ ہونے والا اے ٹی آر 72 طیارہ تھا جو 15 جنوری کو کھٹمنڈو سے پوکھرا کے درمیان اپنی تیسری پرواز کر رہا تھا۔
یہ طیارہ پوکھرا ہوائی اڈے سے صرف 1.5 کلومیٹر کے فاصلے پر سیٹی ندی کی گھاٹی میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
فضائی حادثے کے تحقیقاتی پینل کے ایک رکن ایروناٹیکل انجینئر دیپک پرساد بستولا نے خبر رساں ادارے رؤئٹرز کو بتایا کہ ’اس کی رفتار کی وجہ سے، طیارے نے زمین سے ٹکرانے سے پہلے 49 سیکنڈ تک پرواز کی۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’ممکنہ طور پر پائلٹوں نے فلیپ لیور کو منتخب کرنے کے بجائے کنڈیشن لیور، جو پاور کو کنٹرول کرتے ہیں کو فیدرنگ پوزیشن میں رکھا تھا۔‘
بستولا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کی وجہ سے ’انجن بنا طاقت پیدا کیے چلتا ہے اور زور پیدا نہیں کرتا۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’غلطی سے جہاز کے دونوں انجنوں کے بنا قوت پیدا کیے چلنے کے بعد پرواز کا عملہ کریو الرٹنگ پینل کے انتباہات کے باوجود مسئلے کی نشاندہی کرنے اور درست اقدامات کرنے میں ناکام رہا۔‘
اس رپورٹ میں فضائی عملے (پائلٹس) کی مناسب تکنیکی اور مہارت کی بنیاد پر تربیت کی کمی، کام کا زیادہ بوجھ اور تناؤ اور معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کی عدم تعمیل کو بھی حادثے کے عوامل کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ طیارے کی مناسب دیکھ بھال کی گئی تھی، اس میں کوئی خرابی یا تکنیکی مسئلہ نہیں تھا اور کاک پٹ کا عملہ نیپال کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق قابل اور اہل تھا۔
امریکہ، کینیڈا، فرانس اور سنگاپور کے ایک درجن سے زائد تفتیش کار اس حادثے کی تحقیقات میں شامل تھے۔

مقامی رہائشی دیویتا کل نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ مقامی وقت کے مطابق صبح 11:00 بجے (05:15 GMT) کے فوراً بعد طیارے کو آسمان سے گرتے دیکھ کر کسی طرح جائے حادثہ پر پہنچی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ جب میں وہاں پہنچی تو حادثے کی جگہ پر پہلے ہی ہجوم موجود تھا۔ جہاز کے شعلوں سے دھواں اٹھ رہا تھا اور پھر کچھ ہی دیر میں ہیلی کاپٹر آ گئے۔
دیویتا کل نے مزید کہا ’پائلٹ نے آبادی یا کسی گھر سے نہ ٹکرانے کی پوری کوشش کی۔‘
یورپی یونین نے حفاظتی خدشات کے پیش نظر گذشتہ ایک دہائی سے نیپالی ایئر لائنز پر اپنی فضائی حدود میں پابندی لگا رکھی ہے۔
نیپال کے دور دراز ہوائی اڈوں اور موسم کی اچانک تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرناک حالات کی وجہ سے فضائی حادثات غیر معمولی بات نہیں۔
گزشتہ مئی، یٹی ایئرلائنز کی ملکیتی تارا ایئر کی پرواز 197 پہاڑ سے ٹکڑا کر تباہ ہو گئی تھی، جس میں 22 مسافر اور عملہ ہلاک ہو گیا تھا۔