کئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ امیری اور غریبی کی خلیچ وسیع ہوتی جا رہی ہے اور دولت کی تقسیم ایک مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہو رہی ہے۔ اس سال اپریل میں بین الاقوامی ادارے آکسفیم نے انڈیا میں نابراری پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے پانچ فیصد لوگوں کا پورے ملک کی 60 فیصد دولت پر قبضہ ہے۔

انڈیا دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ وہ آئندہ چند برس میں پانچ ٹریلن ڈالر کی معیشت بننے جا رہا ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں میں انڈیا کی معیشت سب سے تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔
اس کا آئندہ ہدف دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننا ہے۔ گذشتہ جولائی میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا نے 2006 سے 2021تک 15 برس کی مدت میں 41 کروڑ افراد کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
لیکن ان اعداد و شمار کے درمیان تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ کئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ امیری اور غریبی کی خلیچ وسیع ہوتی جا رہی ہے اور دولت کی تقسیم ایک مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہو رہی ہے۔
اس سال اپریل میں بین الاقوامی ادارے آکسفیم نے انڈیا میں نابراری پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھاکہ ملک کے پانچ فیصد لوگوں کا پورے ملک کی 60 فیصد دولت پر قبضہ ہے۔
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ 2012 سے 2021 تک دس برس کی مدت میں جو دولت بنائی گئی اس کا 40 فیصد حصہ آبادی کے صرف ایک فیصد افراد کے حصے میں گیا۔
رپورٹ کے مطابق انڈیا میں 2020 میں 102 ارب پتی تھے۔ یہ تعداد 2022 میں بڑھ کر 166 ہو گئی تھی۔ آکسفیم کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ غریب انڈیا میں بستے ہیں جن کی تعداد تقریبآ 23 کروڑ بتائی گئی تھی۔ سب سے زیادہ غربت دلت اورپسماندہ ذاتوں میں ہے۔
گذشتہ مہینے انڈیا کے وزیراعظم نے اعلان کیا کہ حکومت ملک کے 80 کروڑ افراد کو ہر مہینے فی کس پانچ کلو اناج مفت دینے کی سکیم اگلے پانچ برس تک جاری رکھے گی۔ یہ دنیا میں فری اناج کی تقسیم کی سب سے بڑی سکیم ہے۔

ملک کی افتصادی ترقی اور مستقبل کے سنہری امکانات کے دعوؤں کے درمیان گذشتہ مہینے ملک کی شمالی ریاست بہار میں تمام مخالفتوں کے باوجود ذات پات کی بنیاد پر ایک ریاست گیر سروے منعقد کیا گیا۔ سنہ 1931 کے بعد یہ اس نوعیت کا پہلا سروے تھا۔
اس میں ان پہلوؤں کے قطعی اعداد و شمار حاصل کیے گئے کہ آبادی میں کسی ذات کے لوگوں کی کتنی آبادی ہے۔ ان کی تعلیمی حیثیت کیا ہے، سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ان کی ملازمت کا تناسب کیا ہے۔ لوگوں کی آمدن کتنی ہے اور غربت کی لکیر کیا ہے اور سب سے زیادہ غریب کون لوگ ہیں۔
ریاستی اسمبلی میں پیش کی گئی اس رپورٹ میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ بہت چونکا دینے والے ہيں۔ اس میں پایا گیا کہ بہار کی 13 کروڑ کی ایک تہائی آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔
غربت کی سطح کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لو گ چھ ہزار روپے ماہانہ سے کم میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ریاست میں دلتوں اور پسماندہ طبقوں کی آبادی تقریباً 85 فیصد ہے اور اعلیٰ ذات کے لوگ محض 15 فیصد ہیں۔ سروے کے مطابق دلتوں کی 42 فیصد اور پسماندہ طبقوں کی 34 فیصد آبدی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔
بیشتر افلاس زدہ لوگوں کے لیے یہاں زندگی محض زندہ رہنے کی جدوجہد ہے۔
دارالحکومت پٹنہ سے محض ڈیڑھ سو کلومیٹر دور نالندہ ضلع کی کسم دیوی کا تعلق دلتوں کی ’مسہر‘ برادری سے ہے۔
یہ ریاست کے غریب ترین لوگ ہیں۔ کسُم دو بچوں کی ماں ہیں انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور ان کے شوہر کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ ’کماتے ہیں تو کھاتے ہیں، مہینے میں تین ہزار، چار ہزار روپے کما لیتے ہیں۔
’سرکار پانچ کلو چاول دیتی ہے اسی میں زندگی چلتی ہے۔ کھیتی میں کام ہمیشہ نہیں ملتا کبھی دس دن کبھی 12 دن ایسے ہی کمائی ہوتی ہے۔ مزدوری کرتے ہیں اسی میں خوش رہتے ہیں۔‘
لال دیو رام دلت ہیں۔ ان کی بیوی ویشالی ضلع کے ایک گاؤں کی سرپنچ ہیں۔ وہ خود ایک مقامی سیاسی رہنما ہیں۔ ان کے گاؤں کے اطراف میں دلتوں اور پسماندہ طبقوں کی گھنی آبادی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انتظامیہ ان گاؤں کے نزدیک سڑک اور راستے نہیں بناتی۔ ان کی سوچ یہی ہے کہ اگر یہاں سڑک اور راستہ نہیں بنے گا تو یہاں کے بچے تعلیم نہیں حاصل کر سکیں گے۔
’کم پیسے پر مزدوری کریں گے، ہمیشہ غریب رہیں گے، سماجی دباؤ میں رہیں گے اور استحصال کا شکار رہیں گے۔ یہاں دور دور تک ہماری برادری میں ایک بھی آدمی سرکاری ملازمت میں نہیں ہے۔‘

سماجی اور اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ غربت اور ذات پات کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اعلیٰ ذاتوں میں غربت نہیں ہے لیکن یہ اوسط بہت کم ہے اور ان کے غربت سے نکلنے کی سہولیات زیادہ ہیں۔
انڈیا میں دلتوں اور پسماندہ طبقوں کو اقتصادی طور پر اوپر لانے کے لیے تعلیم اور ملازمتوں میں کوٹہ دیا گیا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بہار میں گذشتہ تیس برس سے ایسی سیاسی جماعتوں کی حکومت رہی ہے جو پسماندہ اور نچلی ذاتون کو تعلیم، ملازمت اور معاشی طور پر اوپر لانے کے لیے کام کر رہی تھیں لیکن سروے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود پسماندہ اور نچلی ذاتوں کے لوگ غربت سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی صورتحال ملک کی کئی دوسری ریاستوں میں بھی ہے۔
رکن پارلیمان اور دانشور پروفیسر منوج جھا کہتے ہیں کہ ’پورے ملک کو بہار کے ان ڈراؤنے اعداد و شمار کے تئیں حسّاس رویہ اختیار کرنا ہو گا۔
’ذات پات اس سماج کی ایک ایسی حقیقت ہے جس نے ہماری سیاست، پیشہ، خاندان، رشتوں غرض کہ ہمارے سماج کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ذات پات معنی نہیں رکھتا میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ گٹر میں اتر کر مرنے والا صفائی کارکن ہمیشہ دلت ہی کیوں ہوتا ہے؟‘
رزرویشن (کوٹہ نظام) کے باوجود پسماندہ طبقوں کی وہ ترقی نہیں ہو سکی جس کی توقع کی گئی تھی۔ معروف دانشور اور سیاسی کارکن یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ ’تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے، زمین کی ملکیت مین اصلاح کی ضرورت ہے۔ اگر رزرویشن نہ ہوتا تو دلت اور پسمندہ طبقوں کا جو تھوڑا بہت ٹکڑا دکھائی دیتا ہے وہ بھی نہیں ہوتا۔ رزرویشن ایک دوا کی شکل میں ضروری ہے لیکن یہ اپنے آپ میں ناکافی ہے۔‘

حال ہی میں وزیر اعطم نریندر مودی نے کووڈ کی وبا کے دوران شروع کی گئی ہر خاندان کو فی کس پانچ کلو مفت اناج دینے کی سکیم کو آئندہ پانچ برس کے لیے بڑھا دیا۔
اس کے تحت ملک کے 80 کروڑ لوگوں کومفت اناج دیا جا رہا ہے۔ یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ یہ اس لیے ہے کیونکہ ملک میں غربت اور بے روزگاری بڑھی ہے۔ ’حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں گاؤں کی تین چوتھائی اور شہروں کی آدھی آبادی کے لیے پانچ کلو مفت اناج ملنا بھی بہت بڑی بات ہے۔
’اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ اگر فرق نہ پڑتا تو یہ پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت اور دنیا کی تیسری معیشت بنانے کا دعویٰ کرنے والے لوگ اس سکیم کو پانچ سال کے لیے بڑھانے پر مجبور نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں غریبی ہے۔
’جتنی غریبی ختم کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں اس کے باوجود ہے۔ گذشتہ پانچ چھ برس میں غریبی بہت بڑھی ہے۔ کروڑوں خاندان جو غریبی سے اوپر تھے وہ نیچے دھکیل دیے گئے ہیں۔‘
بہار کے ذات پات کی بنیاد پر کیے گئے اقتصادی اور تعلیمی سروے کے بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں اس طرح کے سروے کروانے کے مطالبے بڑھ رہے ہیں۔
مودی حکوت اس طرح کے سروے کے حق میں نہیں ہے۔ 2011 کی ملک گیر مردم شماری میں بھی ذات پات کے اعداد و شمار جمع کیے گئے تھے لیکن حکومت نےان کی تفصیلات کبھی جاری نہیں کیں۔

آئندہ چند مہینوں میں ملک میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران بہار کا سروے اور غریبی کے سوال کی بازگشت ہو گی۔ رکن پارلیمان منوج جھا کہتے ہیں کہ ’بہار کے اعداد و شمار ملک کو حقیقت کا آئینہ دکھا رہے ہیں۔
’یہ زندہ لوگوں کے اعداد و شمار ہیں۔ یہ میوزیم میں رکھنے والے اعداد و شمار نہیں ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ غربت کا براہ راست تعلق ذات پات سے ہے۔ غریبی دور کرنے کے لیے اس کا سد باب تلاش کرنا ہو گا۔‘
بہار کے ایک مزدور رام بابو نے کہا تھا کہ ’مہینے میں زیادہ سے زیادہ دس دن کی کمائی ہوتی ہے۔ تین سوروپے یومیہ مزدوری ملتی ہے۔ دس دن کام ملے گا، دس دن بیٹھے رہیں گے۔ اسی میں جیتے ہیں۔ اگر بیمار پڑ جائیں تو علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔‘
دنیا کی پاننچویں سب سے بڑی اور تیز رفتار معیشت میں رام بابو جیسے کروڑوں انسانوں کے لیے زندگی جینے کا نام نہیں محض زندہ رہنے کی ایک مسلسل جد وجہد ہے۔