انڈیا میں سیاسی پارٹیوں کو انتخابات میں جیت کی راہ دکھانے والے سٹریٹیجسٹ پرشانت کشور نے مسلمانوں میں رہنما کی کمی کو اجاگر کیا اور کہا کہ 18 فیصد کی ایک قوم میں کوئی رہنما نہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق ملک میں مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین کے بعد کوئی قومی سطح کا مسلم رہنما نہیں آیا۔

انڈیا میں سیاسی پارٹیوں کو انتخابات میں جیت کی راہ دکھانے والے سیاسی سٹریٹیجسٹ یا منصوبہ ساز پرشانت کشور نے ایک نشست میں انڈیا کے مسلمانوں میں رہنما کی کمی کو اجاگر کیا ہے اور کہا ہے کہ انڈیا 18 فیصد کی ایک قوم ہے جس کا ملک میں کوئی رہنما نہیں ہے۔
اسی حوالے سے جن سوراج نامی تنظیم کے سربراہ پرشانت کشور کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہا اور مسلمانوں کے درمیان واٹس ایپ پر شیئر کیا جا رہا ہے کیونکہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو یہ لگتا ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں پیچھے چھوٹ گئے ہیں یا ان کی نمائندگی میں کمی رہ گئی ہے۔
ہم نے اس ویڈیو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی کہ یہ کب کی ویڈیو ہے تو ہمارا رابطہ جن سوراج تنظیم کے یوٹیوب اردو چینل کو چلانے والے نوجوان محمد تسلیم سے ہوا جنھوں نے کہا کہ یہ ویڈیو انھوں نے 29 دسمبر کو دربھنگہ صدر میں منعقد ایک تقریب میں ریکارڈ کی ہے اور سوشل میڈیا پر انھوں نے ہی ڈالی ہے۔
57 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں پرشانت کشور مسلمانوں میں رہنما کی کمی اور ان میں جد و جہد کی کمی کا ذکر کر رہے ہیں۔
https://twitter.com/saddampune/status/1741223368442212603
وائرل ویڈیو میں انھوں نے مسلمانوں کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: '18 فیصد کی قوم ہے، کوئی تو وجہ ہو گی کہ آپ کا ملک میں کوئی رہنما نہیں ہے۔ 18 فیصد کے حساب سے آپ انڈونیشیا کے بعد انڈیا میں سب سے بڑی قوم ہیں۔ اتنی بڑی آبادی اور آپ کا کوئی رہنما ہی نہیں ہے، کوئی سماج سے کھڑا ہی نہیں ہوا۔ تو کہیں نہ کہیں آپ کی سیاسی سوچ میں کمی ہے بھائی!'
انھوں نے مزید کہا: 'اور کمی یہ ہے کہ آپ جدوجہد نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ کوئی راہل گاندھی (کانگریس لیڈر) مل جائے، کوئی تیجسوی یادو (لالو پرساد کے بیٹے اور راشٹریہ جنتا دل کے رہنما اور بہار نائب وزیر اعلی)، کوئی پرشانت کشور مل جائے، کوئی ممتا بنرجی کھڑی ہو جائے جس کے پیچھے ہمارا بیڑا پار ہو جائے۔
’یہ نہیں ہو سکتا ہے، جب تک کہ آپ جدو جہد کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے، تب تک آپ کا بھلا نہیں ہو سکتا ہے۔ ہم آپ کا بھلا چاہنے والے رہنما نہیں ہیں۔ آپ اگر ہمارے ساتھ جڑیں گے تو ہم بھی آپ کی بھلائی نہیں کریں گے۔ جس قوم کو، جن لوگوں کو اپنی فکر نہیں ہے ان کی فکر دوسرا کیوں کرے؟'
ان کے اس بیان کو اگر بعض لوگ حقیقت پر مبنی بتا رہے ہیں اور مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ کہہ رہے ہیں تو بعضے پرشانت کشور کے بہار دورے کو آر ایس ایس کا ایجنڈا قرار دے رہے ہیں۔
جبکہ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا میں مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین کے بعد کوئی قومی سطح کا مسلم رہنما نہیں جبکہ بعض رکن پارلیمان اسدالدین اویسی کو مسلمانوں کا رہنما بتا کر پرشانت کشور کے بیان کی نفی کر رہے ہیں۔
اسدالدین اویسی مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمان ہیں اور میڈیا میں یا عوام میں انھیں مسلمانوں کے رہنما کے طور پر پیش کیا جاتا ہےہم نے اس بابت بہار میں اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر اور معروف کالم نگار زین شمسی سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ 'آزادی یا تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کی یہ ذہنیت بن گئی ہے یا بنا دی گئی ہے کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے۔ چونکہ بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا اس لیے جو مسلمان انڈیا میں رہ گئے ان میں یہ احساس اچھی طرح سے تھا کہ انھیں ہندوؤں کے ساتھ رہنا ہے اور انھیں مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ رہنا ہے۔
'اگر ایسا نہیں ہے اور مسلمان اپنی آبادی کے گمان پر ایک اور مسلم پارٹی بناتے ہیں تو اس کا حشر پھر سے ایک اور پاکستان ہو سکتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سرکردہ رہنما اور مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کو بھی ملک بھر کے مسلمانوں کی جانب سے حمایت حاصل نہیں ہے۔'
زین شمسی کے مطابق 'مسلمانوں نے خود کو ایک سیکولر قوم سمجھا اور اسی سیاسی شعور کے تحت ایسی سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو ملک کی ترقی، ملک کی تعمیر اور سب کی بھلائی کے لیے کام کرے۔
'چنانچہ انھوں نے کہیں جنتادل کا ساتھ دیا تو کہیں لالو پرشاد کی پارٹی کا، کہیں اکھلیش یادو کا تو کہیں کانگریس پارٹی کا اور بنگال میں ممتا بنرجی کا ساتھ دیا۔'
تاہم انھوں نے کہا کہ جس ملک کو سیکولر سمجھ کر مسلمان اپنا کردار ادا کرتے رہے وہ رفتہ رفتہ مذہبی ہوتا گیا اور ایسے بدلے ہوئے حالات میں پرشانت کشور کچھ حد تک درست بات کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'ہندو ذات پات پر سیاست کر رہا ہے۔ ہر ذات کے اپنے اپنے لیڈر ہیں، ان کی سٹیبلشڈ پالیٹکس ہے۔۔۔ لیکن مسلمان اس بنیاد پر سیاست نہیں کر سکتے اور یہ ان کے ہاں رہنما کی کمی کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'آزادی کے بعد ہندوؤں کو سیاست دانوں نے سنبھالا جبکہ مسلمانوں کو علما نے سنبھالا اور اسی وجہ سے وہ سیاست میں نہیں آ سکے۔
'تقسیم ہند کے بعد مولانا ابو الکلام آزاد جیسے نیشنل لیڈر کو بھی مسلم اکثریتی علاقے رام پور سے انتخاب لڑنا پڑا کیونکہ انھیں مسلم لیڈر کے طور پر دیکھا گیا۔'
زین شمسی نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ 'مسلمان انڈیا کی سیاست کا محور ہیں۔ اگرچہ ان میں لیڈر نہیں ہے لیکن وہ لیڈر پیدا کرتے ہیں، جیسے انھوں نے ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو، اور ممتا بنرجی کو لیڈر بنا دیا اور انھیں ریاست کی عنان سونپ دی اسی طرح انھوں نے مودی کو بھی لیڈر بنایا۔ یعنی مسلم دشمنی بھی لیڈر بننے کی ضامن ہے۔'
ہم نے اس بابت تفصیل جاننے کے لیے پرشانت کشور سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے پانچ جنوری کے بعد رابطے کی بات کہی۔ اسی دوران ان کی تنظیم جن سوراج کے اردو میڈیا کے منتظم محمد تسلیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرشانت کشور تقریبا ایک ماہ سے بہار کا پیدل دورہ کر رہے ہیں اور عوام کو بیدار کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
انھوں نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اس سے قبل چمپارن، سیتا مڑھی اور دربھنگہ میں بات کی ہے۔ انھوں نے پرشانت کشور کے کئی ویڈیوز بھی شیئر کیے جس میں وہ مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز اور ایمان کے حوالے سے پوچھ رہے ہیں کہ آخر ان کی آواز کون اٹھائے گا۔
بی بی سی کو موصول ہونے والی ایک ویڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ پورے ملک میں مسلم خواتین شہریت کے متنازع قانون این آر سی اور سی اے اے کے خلاف سڑکوں پر اتر آئیں اور مہینوں جدوجہد جاری رکھی لیکن وہ قانون نہیں رکا اور وہ اس وقت رکا جب بنگال کے انتخابات میں ممتا بنرجی نے بی جے پی کو شکست فاش سے دو چار کیا۔
خیال رہے کہ ممتا بنرجی کو بنگال میں جیت دلانے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے اور انھوں نے کہا تھا کہ اگر بی جے پی کو 100 سے زیادہ نشستیں ملیں تو وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے۔
ان کے خیال میں مسلمانوں کو انتخابی سیاست میں آنے کی ضرورت ہے۔
محمد تسلیم نے کہا: 'مثال کے طور پر دیکھیں کہ بہار میں مسلم اور یادو (ہندوؤں کی ایک ذات) کے اتحاد ایم وائی کی بات کی جاتی ہے لیکن اس کا فائدہ مسلمانوں کو نہیں ہوتا کیونکہ مسلمان تو یادو امیدوار کو ووٹ دے دیتے ہیں لیکن یادو مسلم امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے۔'
انھوں نے پرشانت کشور کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ بہار کے ان مسلم اکثریتی علاقوں کا ذکر کر رہے ہیں جہاں مسلم یادو اتحاد کے باووجود بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 15 فیصد ہے لیکن سیاست میں ان کی نمائدگی ان کے تناسب سے بہت کم ہےہم نے جے ڈی یو سے نامزد سابق رکن پارلیمان (ایوان بالا) اور اب بی جے پی کے رہنما صابر علی سے پرشانت کشور کے بیان کے حوالے سے بات کہی تو انھوں نے کہا کہ بات کسی حد تک درست ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسلمانوں نے ملک میں جس سایہ دار درخت کو دیکھا اس سے لپ گئے لیکن ان کا بھلا نہ ہوا۔ اگرچہ انڈیا کی سیاست میں بہت سے مسلم لیڈروں کو موقع ملا لیکن انھوں نے اس کا اپنی قوم کی بھلائی کے لیے خاطر خواہ استعمال نہیں کیا اور سیکولر پارٹیوں نے ان کا صرف ایک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک اسدالدین اویسی کی بات ہے تو سیاست میں یہ ان کی تیسری نسل ہے اور وہ کبھی بھی حیدرآباد سے باہر نہیں نکلے لیکن سنہ 2014 کے بعد سے انھوں نے دوسری ریاستوں میں بھی پاؤں پھیلائے ہیں لیکن انھیں امید کے برعکس مسلمانوں میں بھی زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسلمانوں میں بیداری لانے اور تعلیم لانے کی ضرورت ہے اس کے بعد ہی ان میں اتنی مضبوطی آ سکے گی کہ ان کی بات ٹالی نہ جائے۔
ہم نے اس بابت دہلی کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اکیڈمی آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں پروفیسر اور مسلم مسائل پر گہری نظر رکھنے والے سکالر محمد سہراب سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ جو بات پرشانت کشور کہہ رہے ہیں وہ ہر حساس انڈین شہری کے دل میں کہیں نہ کہیں ہے۔ اور مسلمانوں میں لیڈر کی کمی کہ وجہ ملک میں جمہوریت کے تقاضے اور انصاف کے تقاضے کو نہ پورا کر پانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'جمہوریت کا ایک ماڈل کنشوشنلزم ہے جو لبنان میں قائم ہے یعنی تعداد کی بنیاد پر ملک میں نمائندگی۔ انڈیا میں بھی یہ جزوی طور پر قائم ہے کیونکہ انڈیا میں 136 سے 140 ایسی انتخابی سیٹیں (نشستیں) ہیں جو ایک خاص طبقے کے لیے مخصوص ہیں جہاں سے مسلمان انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا لیکن ہندو لڑ سکتا ہے کیونکہ یہ ذات پات کے نام پر مخصوص ہیں۔'
پروفیسر سہراب نے کہا کہ جہاں تک پرشانت کشور کی مہم کا سوال ہے تو وہ مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ کوئی بھی جماعت مسلمانوں کی نمائندگی اس کے ہاتھوں میں دینا نہیں چاہتیاور یہیں سے حاکم اور محکوم کا رشتہ مستحکم ہو جاتا ہے۔ اگر انھیں ملک کے 18 فیصد مسلمانوں کو متحد کرنے کی فکر دامن گیر ہے تو پس پردہ وہ ملک کی 80 فیصد آبادی کو ان کے خلاف متحد کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالکی ڈھو رہے ہیں۔ وہ جس 18 فیصد کو ماڈل بنا کر پیش کر رہے ہیں اس کا اثر مسلم مخالف پولرائزیشن ہوگا۔'
انھوں نے سوال کیا کہ 'مسلمان انڈیا کے پاور سٹرکچر میں کہاں ہیں؟ انھیں سیاسی طور پر دکشنا (صدقہ) کے روپ میں تو ان کے حق سے زیادہ دیا جا سکتا ہے لیکن ان کے حق کو تسلیم کرکے نہیں دیا جاسکتا ہے۔'
انڈیا میں مسلم آبادی تقریبا 15 فیصد ہے جبکہ بہار میں یہ تقریبا 18 فیصد ہے۔ اس لیے ملک بھر میں 18 فیصد کہنا ذرا بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔
رواں سال انڈیا میں انتخابات ہونے ہیں اور ابھی سے سیاسی بازی بچھ گئی ہے جس میں مسلمان اپنی آبادی کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن انھیں کون سی جماعت کتنی نمائندگی دیتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔