شمالی انڈین ریاستوں تک رسائی یا چین کی جانب جھکاؤ کا خطرہ بنگلہ دیش کے انتخابات انڈیا کے لیے اہم کیوں ہیں؟

انڈین پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ دہلی کو ڈھاکہ میں ہمہ وقت ایک دوستانہ حکومت کی ضرورت ہے۔ شیخ حسینہ نے سنہ 1996 میں پہلی بار منتخب ہونے کے بعد سے انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے اور ایسے میں اب کوئی راز نہیں کہ دہلی ان کی اقتدار میں واپسی چاہتا ہے۔
شیخ حسینہ اور مودی
Getty Images
انڈیا اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم

بنگلہ دیش جہاں سات جنوری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے لیے پوری طرح تیار ہے وہیں اس ملک میں اس کے پڑوسی انڈیا کے کردار سے متعلق شدید مباحثہ جاری ہے۔

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ مسلسل چوتھی مدت کے لیے امیدوار ہیں اور ان کی جیت ناگزیر نظر آتی ہے کیونکہ اہم اپوزیشن جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ انھیں شیخ حسینہ کی جانب سے آزاد اور منصفانہ انتخابات کرانے کی کوئی امید نہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم سے مستعفی ہونے اور غیر جانبدار عبوری حکومت کے تحت انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا، جسے مسترد کر دیا گيا اور اسی وجہ سے انھوں نے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

تقریباً 17 کروڑ کی آبادی والا مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش تقریباً تین اطراف سے انڈیا سے گھرا ہوا ہے۔ جنوب مشرق میں میانمار کے ساتھ 271 کلومیٹر (168 میل) طویل سرحد کو چھوڑ کر یہ تقریباً ہر طرف سے انڈیا سے گھرا ہوا ہے۔

اور انڈیا کے لیے بنگلہ دیش صرف پڑوسی ملک نہیں بلکہ ایک سٹریٹجک پارٹنر اور قریبی اتحادی بھی ہے جو اس کی شمال مشرقی ریاستوں کی سلامتی کے لیے اہم ہے۔

لہذا انڈین پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ دہلی کو ڈھاکہ میں ہمہ وقت ایک دوستانہ حکومت کی ضرورت ہے۔ شیخ حسینہ نے سنہ 1996 میں پہلی بار منتخب ہونے کے بعد سے انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے اور ایسے میں اب کوئی راز نہیں کہ دہلی ان کی اقتدار میں واپسی چاہتا ہے۔

وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ہمیشہ دہلی کے ساتھ ڈھاکہ کے قریبی تعلقات کا جواز پیش کیا ہے۔ سنہ 2022 میں انڈیا کے دورے پر انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کو انڈیا، اس کی حکومت، عوام اور مسلح افواج کو نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ سنہ 1971 میں وہ سب جنگ آزادی کے دوران ملک کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔

حزب اختلاف
Getty Images
دہلی کو سیخ حسینہ کی شکست کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کی واپسی کا خدشہ ہے

حزب اختلاف کی تنقید

ان کی عوامی لیگ پارٹی کے اس موقف پر حزب اختلاف بی این پی کی جانب سے شدید تنقید سامنے آئی ہے۔

بی این پی کے ایک سینیئر رہنما روح الکبیررضوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کو بنگلہ دیش کے لوگوں کی حمایت کرنی چاہیے نہ کہ کسی خاص پارٹی کی، بدقسمتی سے انڈین پالیسی ساز بنگلہ دیش میں جمہوریت نہیں چاہتے۔‘

روح الکبیر رضوی نے کہا کہ دہلی کھلے عام شیخ حسینہ واجد کی حمایت کر کے ’بنگلہ دیش کے لوگوں کو الگ کر رہا ہے۔‘ انھوں نے سات جنوری کو ہونے والے عام انتخابات کو ’ڈمی الیکشن‘ قرار دیا۔

انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بنگلہ دیش کے انتخابات میں دہلی کی مبینہ مداخلت پر بی این پی کے الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

ترجمان نے بی بی سی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’انتخابات بنگلہ دیش کا گھریلو معاملہ ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنا ہے۔ بنگلہ دیش کے قریبی دوست اور شراکت دار کے طور پر ہم وہاں پر امن انتخابات دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

انڈیا کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ بی این پی اور جماعت اسلامی کی واپسی بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کی واپسی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، جیسا کہ سنہ 2001 اور 2006 کے درمیان اتحاد کی حکومت کے وقت دیکھا گیا تھا۔

سنہ 2009 میں اقتدار میں آنے کے فوراً بعد شیخ حسینہ نے انڈیا کی شمال مشرق ریاستوں کے نسلی باغی گروپوں کے خلاف کارروائی کی جس سے انھیں دہلی کی حمایت حاصل ہوئی۔ ان گروپس میں سے کچھ بنگلہ دیش سے کام کر رہے تھے۔

ڈھاکہ میں انتخابات کے پوسٹر
Getty Images
ڈھاکہ میں انتخابات کے پوسٹر

قریبی تعلقات

انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان قریبی ثقافتی، نسلی اور لسانی تعلقات ہیں۔ دہلی نے سنہ 1971 میں بنگالی مزاحمتی فورس مکتی باہنی کی حمایت میں فوج بھیج کر بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

اس کے علاوہ اناج یعنی چاول، دالوں اور سبزیوں جیسی بہت سی ضروری اشیا کی فراہمی کے لیے ڈھاکہ دہلی پر منحصر ہے۔ لہٰذا بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ انڈیا باورچی خانے سے لے کر بیلٹ یعنی الیکشن تک بنگلہ دیش میں اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

انڈیا نے سنہ 2010 سے بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بنگلہ دیش کو سات ارب ڈالر سے زیادہ کی لائن آف کریڈٹ کی پیشکش بھی کی ہے لیکن کئی دہائیوں کے دوران ان کے درمیان سب کچھ بہت اچھا بھی نہیں رہا اور آبی وسائل کی تقسیم پر تنازعات سے لے کر ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزامات تک لگائے گئے ہیں۔

ڈھاکہ میں سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ کے اہم رکن دیباپریہ بھٹاچاریہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں انڈیا کی شبیہہ کا مسئلہ ہے۔ یہ اس خیال سے آتا ہے کہ بنگلہ دیش کو اچھے پڑوسی کا بہترین فائدہ نہیں مل رہا، چاہے بات دہلی حکومت کی حمایت کی ہو یا سودوں میں ہماری خواہشات کے مطابق مساوی حصہ نہ ملنے کی۔‘

وزیر اعظم شیخ حسینہ جنوری 2009 میں دوسری بار اقتدار میں آئیں اور اس کے بعد ان کی پارٹی نے مسلسل دو اور انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن ان پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ عوامی لیگ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اگرچہ انڈیا نے اپنی شمال مشرقی ریاستوں تک سامان پہنچانے کے لیے بنگلہ دیش کے راستے سڑک، دریا اور ٹرین تک رسائی حاصل کر لی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ اب بھی انڈین علاقے میں خشکی میں گھرے نیپال اور بھوٹان کے ساتھ مکمل طور پر زمینی تجارت کرنے کے قابل نہیں۔

انڈیا کو خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش چین کی جانب مائل ہو سکتا ہے
Getty Images
انڈیا کو خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش چین کی جانب مائل ہو سکتا ہے

سٹریٹجک وجوہات

انڈیا کے پاس ڈھاکہ سے دوستانہ حکومت رکھنے کی دیگر سٹریٹجک وجوہات بھی ہیں۔ دہلی بنگلہ دیش کے راستے اپنی سات شمال مشرقی ریاستوں کے لیے سڑک اور دریائی ٹرانسپورٹ کی رسائی چاہتا ہے۔

ابھی انڈین سرزمین سے اس کی شمال مشرقی ریاستوں تک سڑک اور ٹرین کا رابطہ ’چکنز نیک‘ کے ذریعے ہے۔ یہ ایک پتلی 20 کلومیٹر زمینی راہداری ہے جو نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان کے درمیان سے گزرتی ہے۔

دہلی میں حکام کو خدشہ ہے کہ انڈیا کے حریف چین کے ساتھ کسی بھی ممکنہ تنازعے میں یہ حصہ حکمت عملی کے لحاظ سے کمزور ہے۔

ان کے علاوہ متعدد مغربی حکومتیں بنگلہ دیشی حکام پر انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور ماورائے عدالت قتل کے الزام میں اضافی پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہیں جبکہ انڈیا اس اقدام کی مخالفت کر رہا ہے اور اسے غیر نتیجہ خیز قرار دے رہا ہے۔

مزید یہ کہ انڈیا کے ساتھ علاقائی بالادستی کی جنگ میں بیجنگ بنگلہ دیش میں اپنے قدم جمانے کا خواہاں ہے تاکہ اسے مطلوبہ ہدف حاصل ہو سکے۔

سابق انڈین سفارت کار چکرورتی نے کہا کہ ’ہم نے مغرب کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر آپ شیخ حسینہ پر دباؤ ڈالتے ہیں تو وہ چینی کیمپ میں چلی جائیں گی، جیسا کہ دوسرے ممالک نے کیا۔ اس سے انڈیا کے ساتھ سٹریٹجک مسئلہ پیدا ہو جائے گا اور ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘

دونوں حکومتوں کے درمیان قریبی تعلقات کے باوجود جب انڈیا کی بات آتی ہے تو بنگلہ دیش کے کچھ شہریوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

ڈھاکہ میں سبزی کے تاجر ضمیر الدین نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ انڈیا ہر قسم کے شعبوں میں دوستانہ ہے۔ ہمیں ہمیشہ انڈیا کے ساتھ مسئلہ درپیش رہتا ہے کیونکہ ہم مسلمان قوم ہیں۔‘

حزب اختلاف
Getty Images

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں پہلے اپنی حفاظت کرنی ہوگی اور پھر دوسروں پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ ورنہ ہم مصیبت میں پڑ جائیں گے۔‘

جہاں دہلی بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کے دوبارہ منظم ہونے کے امکان کے بارے میں فکر مند رہتا ہے وہیں بنگلہ دیش میں بہت سے لوگ اس بات سے پریشان رہتے ہیں کہ سرحد پار انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 سے جب سے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) انڈیا میں برسراقتدار آئی ہے، مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا، لیکن بی جے پی اس کی تردید کرتی ہے۔

انڈین سیاستدان وقتاً فوقتاً ’بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن‘ کی مبینہ دراندازی کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں اور انھیں آسام اور مغربی بنگال جیسی انڈین ریاستوں میں رہنے والے بنگالی مسلمانوں کے ایک حصے کے حوالے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

دہلی کی حکومت پر یہ تو واضح ہے کہ شیخ حسینہ ان کے مفادات کے مطابق ہوں گی لیکن اس کے لیے مشکل بات بنگلہ دیش کے لوگوں تک پہنچنا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US