افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کا ایک سینیئر وفد دو روزہ دورے پر اسلام آباد میں موجود ہے اور نگران وزیر خارجہ سمیت اعلیٰ پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔ وفد کی قیادت ملا شیریں اخوند کر رہے ہیں جو افغان انٹیلیجنس کے نائب سربراہ اور اہم افغان صوبے قندھار کے گورنر ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کا ایک سینیئر وفد دو روزہ دورے پر اسلام آباد میں موجود ہے اور نگران وزیر خارجہ سمیت اعلیٰ پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔ وفد کی قیادت ملا شیریں اخوند کر رہے ہیں جو افغان انٹیلیجنس کے نائب سربراہ اور اہم افغان صوبے قندھار کے گورنر ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق بدھ کو اس وفد سے ملاقات کے دوران نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے علاقائی تجارت اور روابط کے سلسلے میں ’تشویش کے تمام مسائل کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔‘
جبکہ پاکستان میں افغان سفارتخانے کے مطابق وفد نے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی معاملات کی نگرانی کے لیے قائم کمیٹی کے چھٹے اجلاس میں شرکت کی اور ڈیورنڈ لائن سے جڑے تنازعات پر بات کی۔ اس کے علاوہ سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر عوام کی آسانی کے لیے سہولیات کی فراہمی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
افغان سفارتخانے کے ترجمان کے مطابق یہ ’معمول کی ملاقاتیں‘ ہیں تاہم اسلام آباد میں اس دورے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
اس کی ایک وجہ حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تلخی ہے جبکہ دوسری وجہ خود ملا شیریں اخوند ہیں جو طالبان کے امیر کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔
وفد اس دورے کے دوران نہ صرف دفترخارجہ بلکہ سکیورٹی اور انٹیلیجنس حکام سے بھی ملاقاتیں کر رہا ہے۔
اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کی ایک اہم کوشش قرار دیا جا رہا ہے اور ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغان طالبان کی سینٹرل کمانڈ کے ساتھ براہ راست روابط قائم کرنے کی کوشش میں ہے، اس لیے یہ وفد اہم ہے۔
طالبان کے وفد میں شامل ملا شیریں اخوند کون ہیں؟
ملا شیریں اخوند، جنھیں عبداللہ حنفی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے معتمدِ خاص ہیں۔
وہ طالبان کے ابتدائی دور سے تنظیم کے ساتھ ہیں اور طالبان کی بالائی مشاورتی کونسل رہبری شوریٰ، جسے ’کوئٹہ شوری‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کا حصہ بھی رہے۔
ملا شیریں اخوند، ملا عمر کے قریب ترین سمجھے جانے والے ساتھیوں میں شامل رہے۔
2003 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو تنظیم کے بانی ملا عمر کے فرار میں ملا شیریں اخوند نے مدد کی۔ بعد ازاں انھیں ہی ملا عمر کی سکیورٹی کی ذمہ داری دی گئی جو ان کی ہلاکت تک ملا شیریں کے ذمے تھی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملا شیریں اخوند، ملا عمر کی ہلاکت کے بعد طالبان کے جنوبی آپریشنز کے انٹیلیجنس سربراہ رہے۔ بعد ازاں انھیں قندھار کا گورنر تعینات کیا گیا۔ اس کے ساتھ اب وہ افغانستان کی ملٹری انٹیلیجنس اور سٹریٹیجی کے نائب سربراہ بھی ہیں۔
وہ طالبان کے اس اکیس رکنی گروہ کے اہم ارکان میں سے ایک تھے جو سابق افغان حکومت اور امریکہ کے ساتھ قطر میں مذاکرات کر رہی تھی۔ جمیز ٹاؤن فاونڈیشن ریسرچ نامی ادارے کے مطابق وہ ’طالبان کے اس ہارڈلائنر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ان مذاکرات کے حامی تھے نہ ہی اس وقت کی افغانستان حکومت کے ساتھ نرمی برتنے کے۔‘
طالبان سے بات چیت کا مقصد ’انتخابات کا پُرامن انعقاد‘
خیال رہے کہ پاکستان نے گذشتہ چند ماہ کے دوران متعدد بار دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور آمدورفت کے لیے بنے بڑے کراسنگ پوائنٹس کو بند کیا ہے۔ پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال بدتر ہوئی ہے اور تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کی جانب سے ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
پاکستان الزام لگاتا ہے کہ ان حملوں میں ملوث ٹی ٹی پی کو افغانستان میں عبوری حکومت تحفظ دیے ہوئے ہے تاہم افغانستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی نے حال ہی میں اپنے حملوں کے اعداد و شمار جاری کیے اور کہا کہ تنظیم نے پاکستان میں گذشتہ سال صرف دسمبر میں 60 سے زیادہ حملے کیے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی ایک رپورٹ میں ملکی سکیورٹی صورتِ حال کو 2014 کے برابر کہا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال ملک بھر میں خود کش حملوں کی شرح میں 93 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
غیر سرکاری تنظیم ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق گذشتہ ایک سال میں پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی نے 835 حملے کیے جبکہ اس سے پہلے سنہ 2022 میں ان حملوں کی تعداد 425 تھی۔ یہ تمام حملے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کے خاتمے کے ایک سال کے دوران کیے گئے۔
ان حملوں میں 2022 میں 229 عام شہری، 379 سکیورٹی فورسز کے اہلکار جبکہ 363 شدت پسند مارے گئے۔ لیکن 2023 میں 350 عام شہری، 485 سکیورٹی اہلکار اور 507 شدت پسند مارے گئے تھے۔
خیبرپختونخوا سے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان انتخابات سے قبل ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں مدد کی پیشکش کر رہے ہیں تاہم اس پر بھی پاکستان کی حکومت کی جانب سے رضامندی ظاہر نہ کی گئی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان مذاکرات سے وابستہ ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی یہ ملاقاتیں اہم ہیں اور ایجنڈے میں جہاں سرحدی امور پر بات ہو رہی ہے وہیں تحریک طالبان پاکستان کو قابو کرنے پر بھی بات ہو رہی ہے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے ان کے سامنے یہی مدعا رکھا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد افغانستان میں فرار ہونے والے چار سے پانچ ہزار دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
پاکستان میں انتخابات میں ایک ماہ باقی ہے اور دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اگرچہ ان حملوں میں زیادہ تر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاہم حالیہ کچھ مہینوں میں خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیاسی اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
گذشتہ روز سابقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سابق رکن اسمبلی محسن داوڑ کے قافلے پر انتخابی مہم کے دوران فائرنگ کی گئی تاہم پولیس کے مطابق وہ کار کے بلٹ پروف شیشوں کی بدولت اس میں محفوظ رہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کے مطابق پاکستان گذشتہ ایک سال کے دوران افغانستان میں طالبان حکومت کو ’سخت ایکشن‘ کی تنبیہ کر چکا ہے۔
عقیل یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہو چکے ہیں کہ ایسی ایک دو ملاقاتوں یا اجلاس کوئی بڑی تبدیلی لے آئیں تاہم ان کے خیال میں بعض مطالبات افغان طالبان کے امیر تک پہنچانے کے لیے اس وفد سے بات کی جا سکتی ہے۔ ’یہ ممکن ہے کہ پاکستان اس موقع پر طالبان وفد کے سامنے یہ پیغام رکھے کہ وہ یہ ضمانت دیں کہ انتخابات کے دوران ٹی ٹی پی کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔‘
اسی بات سے اتفاق کرتے ہوئے تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں ملا شیریں اخوند طالبان کے امیر کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اب حالات، تلخیاں، بداعتمادی اور کشیدگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس وفد کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان کے پاس طالبان حکومت میں اہم عہدے بھی موجود ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’یہ دورہ اہم تو ہے مگر دونوں ملکوں کے درمیان مسائل اس قدر پیچیدہ ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ اس دورے سے کوئی بہت بڑا فرق پڑے گا۔ البتہ یہ طالبان امیر کے قابل اعتماد ساتھی اور ان کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے اس دورے میں پاکستان جو مطالبے اور تشویش کرے گا وہ براہ راست طالبان کے سربراہ تک جائیں گی۔‘
افغان امور اور خطے میں سکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت کے دوسرے ستون، حقانی نیٹ ورک پر اب پاکستان کا کنٹرول نہیں رہا۔
پاکستان کے ایک اعلی سطحی وفد نے اس سے قبل کابل دورے کے دوران ایسے شواہد افغان طالبان کو پیش کیے جن کے مطابق حقانی نیٹ ورک سے منسلک بعض نام ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف ’پراکسی‘ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان اور افغان طالبان دیگر کن امور پر مذاکرات کر رہے ہیں؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک اور سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حال ہی میں اپنے پہلے امریکی دورے کے دوران حکام سے افغان حکومت پر زور ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دیں۔ ’پاکستان افغان عبوری حکومت سے گذشتہ دو برسوں کے دوران کئی بار فہرستوں کا تبادلہ کر چکا ہے جن میں ٹی ٹی پی کے ان افراد کے نام موجود ہیں جو پاکستان میں حملوں میں ملوث تھے۔‘
طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو شکایت ہے کہ ٹی ٹی پی کی ’سہولت کاری‘ کی جا رہی ہے۔ ’افغان اور پاکستانی طالبان ایک دوسرے کے سہولت کار ہیں اور انٹیلیجنس انفارمیشن شیئر کرنے کے باوجود ٹی ٹی پی کو کاروائیوں سے نہیں روکا جا رہا۔‘
دوسری طرف افغان طالبان کا گلہ یہ ہے کہ پاکستان کو صرف سکیورٹی میں دلچسپی ہے جبکہ وہ پاکستان سے سرحدی تجارت، لوگوں کے آنے جانے، صحت، تعلیم کے وظائف اور کراسنگ پوائنٹس پر سہولت کاری کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ پاکستان کی اپنی ترجیحات ہیں، جن میں سرفہرست سکیورٹی ہے۔
عقیل یوسفزئی کے خیال میں سکیورٹی اور ٹی ٹی پی کے معاملے پر اب ’پاکستان خاصا حساس بھی ہے اور پاکستان یہ کہتا ہے کہہمارے پاس ثبوت ہیں کہ افغان حکومت میں حقانی نیٹ ورک کے بعض لوگ ٹی ٹی پی کو ایک پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جس کے بعد انھوں نے لگ بھگ پچاس بندے گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا، جو پاکستانی سکیورٹی حکام کے مطابق درست نہیں تھا۔ تو اس قسم کے واقعات کی وجہ سے بھی کچھ اعتماد میں کمی رہی ہے۔‘
عقیل یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’اپنے مفاد محفوظ کرنے اور ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لیے افغان طالبان کے اندر بھی اب لڑائیاں بڑھ رہی ہیں اور حقانی نیٹ ورک اہم ترین ہے۔ سو اپنی برتری اور مفاد کو محفوظ رکھنے کے لیے وہ بظاہر ٹی ٹی پی کو سپورٹ کرتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے دوران بھی مختلف سطح پر رابطے برقرار رہے ہیں تاہم یہ میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہے۔
ادھر طاہر خان کے مطابق افغان طالبان ’اس موڈ میں نہیں (کہ) عوامی سطح پر یا میڈیا کے ذریعے ان کے پاکستان کے دورے نظر آئیں۔ وہ اپنی مقامی سیاست اور اندرونی گروہ بندیوں کی وجہ سے بہت سے معاملات پر عوامی سطح پر بات کرانے سے کتراتے ہیں۔
’چند ہفتے پہلے بھی ایک وفد یہاں موجود تھا، اس میں پاکستان کے کچھ مطالبات تھے۔ ایک تو یہ کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی ہو اور دوسرا مطالبہ یہ بھی تھا کہ ایک اعلی سطحی وفد بھیجا جائے۔ اس وقت طالبان یہ نہیں مانے تھے کیونکہ افغان مہاجرین کی واپسی کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تلخی بڑھ گئی تھی۔‘
خیال رہے کہ افغان شہریوں کو پاکستان سے انخلا کے سبب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔
پاکستان نے گذشتہ کچھ مہینوں سے ان افغان پناہ گزینوں کو واپس افغانستان بھیجنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو بغیر دستاویزات پاکستان میں کئی دہائیوں سے مقیم تھے۔ گذشتہ برس نومبر میں شروع ہونے والے اس عمل کے دوران حکام کے مطابق اب تک چار لاکھ سے زیادہ افغان شہریوں کو واپس جانا پڑا ہے۔
حکومت پاکستان کے مطابق پاکستان میں مقیم ایسے قریب 40 لاکھ افراد میں سے لگ بھگ 17 لاکھ افغان شہریوں کے پاس کوئی دستاویزات نہیں۔
حکومت نے افغان شہریوں کے ملک سے انخلا کا یہ حکم پاکستان میں خود کش دھماکوں کے بعد دیا تھا، جن کے بارے میں اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ ان میں افغان شہری ملوث تھے تاہم کابل نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔