انڈیا کی سپریم کورٹ نے کولکتہ ہائی کورٹ کے ایک بینچ کے اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ لڑکیوں کو اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھنا چاہیے۔
انڈیا کی سپریم کورٹ نے کولکتہ ہائی کورٹ کے ایک بینچ کے اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ لڑکیوں کو اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھنا چاہیے۔
انڈین سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ججوں کو اس طرح کے حساس معاملات میں اپنے ذاتی خیالات اور رائے کے اظہار سے بچنا چاہیے۔ اس طرح کا مشاہدہ دینا قطعی طور پر غلط ہے۔
سپریم کورٹ نے ایک نوعمر لڑکی کے اغوا اور جنسی زیادتی کے ایک معاملے میں کولکتہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے دسمبر کے اوائل میں مغربی بنگال کی حکومت کو ایک نوٹس بھیج کر پوچھا تھا کہ آیا اس نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے یا نہیں۔
جمعرات کو اس معاملے کی مزید سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کا یہ کہنا کہ ’بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیوں کو دو منٹ کے جنسی لطف لینے کے بجائے اپنی جنسی خواہشوں پر قابو رکھنا چاہیے۔ نہ صرف غلط ہے بلکہ یہ نئے مسئلے پیدا کر سکتا ہے۔‘
عدالت نے اس سے پہلے کی سماعت میں کہا تھا کہ ججوں کو کسی مقدمے کا فیصلہ قانون اور حقائق کی روشنی میں کرنا چاہیے اور انصاف کے عمل میں تبلیغ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے بینچ نے اس کیس میں جو مشاہدات دیے ہیں وہ قطعی غیر ضروری تھے۔ اس نے عدالت کے فیصلے کے جواز کے بارے میں بھی سوال کیا۔

اس معاملے میں ملزم کے خلاف تعزیرات ہند اور نابالغ بچیوں کے ساتھ ریپ کے قوانین کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ اور کولکتہ ہائی کورٹ نے ملزم کو بری کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں آنے سے پہلے بنگال کی ایک ذیلی عدالت نے ملزم کو نابالغ لڑکی کے اغوا اور ریپ کا مجرم قرار دیا تھا۔ ملزم نے اس فیصلے کے خلاف کولکتہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں ملزم کو بری کرتے ہوئے مشاہدات میں کہا تھا کہ ’یہ ہر نو بالغ اور نوعمر لڑکی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جسم کی پاکیزگی برقرار رکھنے کا تحفظ کرے۔‘
انڈین سپریم کورٹ نے کہا کہ اس فیصلے میں صرف یہی جملہ ہی نہیں بلکہ ہر پیراگراف میں نقائص ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ معزز ججوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مقدمات میں اپنے ذاتی خیالات کے اظہار اور تبلیغ کرنے سے گریز کریں گے۔ اس مقدمے پر اب آئندہ سماعت 12 جنوری کو ہو گی۔

سوشل میڈیا پر بھی بعض صارفین نے کولکتہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔
جوش کمار نامی صارف نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ایکس پر طنزیہ انداز میں پوچھا ہے کہ ججوں نے لڑکیوں سے اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھنے کی بات جج کے طور پر یا ماہر جنسیات کے طور پر کہی ہے؟
ایک اور صارف ارجن کمار نے درخواست کی ہے کہ ’ججوں کی اس دلیل کو مستر کر دیا جائے۔‘
https://twitter.com/joshkum18719270/status/1742835276676735267
سشیل نامی صارف نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ايسے لوگوں کو کسی بھی سرکاری ادارے، بالخصوص عدلیہ میں ہرگز نہیں ہونا چاہیے جو اخلاقی پولیس بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
مغربی بنگال کی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اپیل اور از خود نوٹس کے معاملے کو یکجا کر کے اس معاملے کی سماعت کے لیے 12 جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔