انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے قریب واقع گاؤں تراسیونیا میں واقع ایک ہاسٹل سے لاپتہ ہونے والی تمام 26 لڑکیاں مل گئی ہیں اور اب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ محفوظ ہیں۔ لیکن ہاسٹل کے غیر قانونی ہونے اور ہاسٹل میں صرف عیسائی عبادت ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے قریب واقع گاؤں تراسیونیا میں واقع ایک ہاسٹل سے لاپتہ ہونے والی تمام اگرچہ لڑکیاں مل گئی ہیں اور اب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ محفوظ ہیں۔ تاہم پولیس نے ہاسٹل آپریٹر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور پورے معاملے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
اس معاملے میں لاپرواہی کے الزامات کی وجہ سے پروجیکٹ آفیسر سمیت دیگر افراد کو معطل کر دیا گیا ہے۔
یہ معاملہ سنیچر کو اس وقت خبروں میں آیا جب یہ بات پتا چلی کہ ہاسٹل میں کل 68 لڑکیوں کے نام درج تھے لیکن موقعے پر صرف 41 لڑکیاں ہی موجود پائی گئیں۔
26لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملتے ہی پوری انتظامیہ متحرک ہوگئی اور تحقیقات شروع کردی گئیں۔
اگرچہ ہاسٹل آپریٹر نے بتایا تھا کہ ان لڑکیوں کو ان کے والدین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ لیکن وہ اس سے متعلق کوئی دستاویز فراہم نہیں کر سکے۔
یہ کیسا ہاسٹل ہے؟

یہ ہاسٹل عیسائی مشنری چلا رہے ہیں۔ اس کے ڈائریکٹر انیل میتھیو ہیں۔ اس میں مدھیہ پردیش کے علاوہ دیگر ریاستوں کی لڑکیاں بھی رہتی ہیں۔ ریاستی چائلڈ کمیشن کی ٹیم کے مطابق زیادہ تر لڑکیاں ہندو ہیں اور اس کے علاوہ کچھ عیسائی اور مسلم لڑکیاں بھی ہیں۔
معلومات کے مطابق اس ہاسٹل کو چلانے والی تنظیم پہلے ریلوے چائلڈ لائن بھی چلاتی تھی۔
جب ریاستی چلڈرن کمیشن کی رکن نویدیتا شرما سے بے ضابطگیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا ’یہ ہاسٹل جے جے ایکٹ (جووینائل جسٹس ایکٹ) کے تحت رجسٹرڈ نہیں تھا۔ آپریٹر نے پہلے اس بات سے انکار کیا تھا کہ وہاں کوئی یتیم بچے نہیں تھے۔ لیکن بچوں سے بات کرتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ وہاں کچھ بچے ایسے بھی تھے جن کے والدین نہیں تھے۔‘
نیودیتا شرما نے بتایا کہ ہاسٹل میں عبادت صرف عیسائیوں کی ادا کی جا رہی تھی، یہاں صرف دو عیسائی اور کچھ مسلمان لڑکیاں تھیں جبکہ باقی ہندو لڑکیاں تھیں۔
نویدیتا نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ان لڑکیوں کے والدین سے رابطہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مقامی لڑکیوں کے والدین نے بھی ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
پولیس انتظامیہ کیا کہہ رہی ہے؟

پولیس سپرنٹنڈنٹ (بھوپال دیہی) پرمود کمار سنہا نے کہا، ’اب تک موصول ہونے والی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ ان 26 لڑکیوں نے وہاں اپنا نام درج کرایا تھا اور وہ اپنے والدین کے پاس رہنے کے لیے چلی گئی تھیں۔ اب اس کی تحقیقات جاری ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ سب کے بیانات لیے جا رہے ہیں اس کے بعد ہی اس معاملے میں مزید کارروائی کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ اب تک موصول ہونے والی معلومات کے مطابق لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔
تبدیلی مذہب کے معاملے کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس پورے معاملے کے پیچھے مذہب کی تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔
معاملہ نے کیسے زور پکڑا گیا؟
پریانک کاننگو، چیئرمین نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹسپولیس کی معلومات کے مطابق 'آنچل' نام کے اس ہاسٹل میں کل 68 لڑکیاں رہتی تھیں لیکن جب جمعے کو ریاستی چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران نے اس جگہ کا دورہ کیا تو ان میں سے صرف 41 لڑکیاں موجود تھیں۔
نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال) کے چیئرمین پریانک کاننگو نے اس معاملے میں ایک خط لکھا اور چیف سکریٹری ویرا رانا سے کہا کہ وہ سات دن کے اندر اس معاملے پر رپورٹ پیش کریں۔
الزام ہے کہ یہ ہاسٹل بغیر اجازت کے غیر قانونی طور پر چل رہا تھا۔
کانونگو نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ہاسٹل کے معائنے کے دوران معلوم ہوا کہ یہ ہاسٹل نہ تو رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی تسلیم شدہ ہے۔ جو بچیاں رہ رہی ہیں وہ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے حکم کے بغیر رہ رہی ہیں۔
پریانک کاننگو نے الزام لگایا کہ آپریٹر نے ان لڑکیوں کو غیر قانونی طور پر رکھا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ ہاسٹل رجسٹرڈ بھی نہیں تھا۔
ساتھ ہی ہاسٹل چلانے والے پر یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ ہاسٹل میں مختلف مذاہب کی لڑکیاں موجود تھیں لیکن اس کے باوجود ادا کی جانے والی عبادات صرف عیسائی مذہب کے مطابق تھیں اور ہاسٹل میں لڑکیوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں تھا۔
کیا عیسائی مشنری تنظیمیں نشانے پر ہیں؟
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی موہن یادو اور سابق وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہانایک سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس موضوع پر تحقیقات کے بعد ہی حقیقت سامنے آئے گی۔
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ عیسائی مشنریوں کے زیر انتظام سکول اور ہاسٹل شروع سے ہی قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کے چیئرمین کے نشانے پر رہے ہیں۔
گزشتہ سال عیسائی برادری کے لوگوں نے ریاست کے شہر ساگر میں مظاہرہ کیا تھا اور انھوں نے قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال پر انھیں ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔
کمیشن کے چیئرمین پریانک کاننگو نے ساگر میں قائم سینٹ فرانسس سیوادھام ادارے پر مذہب کی تبدیلی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا الزام لگایا تھا۔
تنظیم نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔
اس معاملے پر سیاست بھی تیز ہو گئی ہے۔ سابق وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے پہلے حکومت سے اس معاملے پر کارروائی کرنے کو کہا ہے۔
انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا ’معاملے کی سنگینی اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس کا نوٹس لے اور فوری کارروائی کرے۔‘اس کے جواب میں اپوزیشن کی جماعت کانگریس نے بی جے پی حکومت پر حملہ کیا ہے۔
کانگریس لیڈر سجن سنگھ ورما نے الزام لگایا ہے کہ جب بھی بی جے پی اقتدار میں ہوتی ہے ایسے غیر قانونی چائلڈ پروٹیکشن ہوم تیزی سے ابھرتے ہیں۔
انھوں نے کہا یہ ’مذہبی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ کا بھی مکروہ کھیل ہے۔ یہاں بہت زیادہ غیر اخلاقی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ بی جے پی مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہے اور اس طرح کی سرگرمیاں ان کے دور حکومت میں ہوتی ہیں، یہ شرمناک ہے۔‘