شیخ حسینہ کی جیت سے بنگلہ دیش کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کتنے مضبوط ہوں گے؟

سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست میں مماثلت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ شیخ حسینہ اور نریندر مودی دونوں مضبوط شبیہہ رکھنے والے لیڈر ہیں اور دونوں کی اپنی اپنی پارٹیوں پر بہت اچھی گرفت ہے۔
مودی اور شیخ حسینہ
Getty Images

بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ نے مسلسل چوتھی بار عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن کے مطابق عوامی لیگ کو 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔

اتوار (سات جنوری 2024) کو بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے لیے جیسے ہی ووٹنگ شروع ہوئی تو عوامی لیگ کی جیت یقینی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان انتخابات میں ووٹنگ محض رسمی تھی کیونکہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سمیت تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

جہاں دنیا بھر کی نظریں بنگلہ دیش میں جمہوریت کو دبانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے باعث اس الیکشن پر تھیں وہیں شیخ حسینہ کی جیت انڈیا کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔

انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے شیخ حسینہ واجد کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ ’ہم بنگلہ دیش کے ساتھ اپنی پائیدار اور عوام پر مبنی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘

سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست میں مماثلت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ شیخ حسینہ اور نریندر مودی دونوں مضبوط شبیہہ رکھنے والے لیڈر ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی پارٹیوں پر بہت اچھی گرفت ہے۔

مودی اور شیخ حسینہ نے اپنے اپنے ملکوں میں معیشت کو اچھی رفتار دی ہے۔ نریندر مودی کی طرح شیخ حسینہ کی خارجہ پالیسی کو بھی دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان توازن پیدا کرنا سمجھا جاتا ہے۔

مودی کے ’نیو انڈیا‘ کی طرح شیخ حسینہ بھی ’نئے بنگلہ دیش‘ کا نعرہ لگاتی ہیں۔

انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان 4100 کلومیٹر کی سرحد ہے اور ان کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ اس لیے ایک مستحکم، خوشحال اور دوستانہ بنگلہ دیش انڈیا کے مفاد میں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کی حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا نظر آرہا ہے۔ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں اس کا سب سے قریبی اور مضبوط اتحادی ہے۔

مودی اور شیخ حسینہ
Getty Images

مودی حکومت میں بنگلہ دیش پر توجہ

انڈیا کی مودی حکومت کی خارجہ پالیسی میں بنگلہ دیش کو بہت زیادہ ترجیح دی جا رہی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں انڈیا نے بنگلہ دیش کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے دل کھول کر مالی امداد دی ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھردواج کہتے ہیں کہ ’عوامی لیگ نے بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی قیادت کی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا اور شیخ حسینہ کی زیر قیادت بنگلہ دیش کے درمیان مضبوط تعلقات کی بنیاد کے حوالے سے بنگالی قوم پرستی، سیکولرازم، جمہوریت اور سوشلزم بنگلہ دیش کی بنیادی اقدار ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انڈیا میں بھی قومیت، سیکولرازم، سوشلزم اور جمہوریت کی اقدار شامل ہیں، اس طرح دیکھا جائے تو دونوں کی قدر میں مماثلت ہے۔ اقدار کی یہ مماثلت انڈیا اور بنگلہ دیش کو قریب لا رہی ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کے مقابلے عوامی لیگ کی شیخ حسینہ حکومت کے ساتھ انڈین حکومت کے مضبوط تعلقات کی کیا وجہ ہے؟

اس سوال پر سنجے بھردواج کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی اہم جماعت، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی، ایک فوجی حکومت نے بنائی تھی۔ 1978 میں ضیا الرحمن کی بنائی ہوئی اس جماعت کی بنیاد اسلام پر ہے۔ اسے پرانی مسلم لیگ کے حامیوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ وہ پاکستان جیسی پالیسیوں پر یقین رکھتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس پارٹی نے جو سماجی بنیاد بنائی ہے اس کی بنیاد فوج کی حمایت اور انڈیا مخالف ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب یہ پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تو انڈیا کی بجائے چین اور پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان عوامی لیگ کی حکومت کے دوران 1971 سے 1975 اور پھر 1996 اور 2009 سے 2024 تک کئی معاہدے ہوئے۔

ان میں دریائے گنگا کے معاہدے سے لے کر دونوں ممالک کے درمیان زمینی سرحد اور بس سروس شروع کرنے تک کے اہم معاہدے شامل ہیں۔

اس دوران انڈیا بنگلہ دیش کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی بن گیا۔ بنگلہ دیش بھی ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن گیا۔

خالدہ ضیا
Getty Images

بنگلہ دیش اپوزیشن اور انڈیا

سنہ 2009 سے پہلے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی حکومت میں انڈیا مخالف موقف دیکھا جاتا تھا۔ بنگلہ دیش میں کئی انڈیا مخالف انتہا پسندوں کو پناہ دی گئی۔

اس کی وجہ سے بنگلہ دیش میں بنیاد پرست اسلامی تنظیموں کو فروغ ملا۔ اس سے پڑوس میں زبردست انڈیا مخالف ماحول پیدا ہوا جو اس کے لیے درد سر ثابت ہو رہا تھا۔

لیکن شیخ حسینہ کی حکومت کے آنے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں ڈرامائی بہتری آئی۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے شمال مشرق میں انڈیا مخالف سرگرمیوں کو روکنے میں مدد کی۔

ان کی حکومت نے انڈیا میں انتہا پسندانہ جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد بنگلہ دیش میں پناہ لینے والوں پر شکنجہ کسا۔ اس سے شمال مشرق میں انڈیا کے لیے ماحول بہتر ہوا۔

سنجے بھردواج کہتے ہیں کہ انڈیا جس طرح سے اپنے شمال مشرقی حصے کو مزید جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا شیخ حسینہ کی حکومت نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ شیخ حسینہ کے منموہن سنگھ، پرناب مکھرجی، سونیا گاندھی اور ممتا بنرجی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور جب نریندر مودی اقتدار میں آئے تو ان کے ساتھ تعلقات بھی اچھے ہوگئے۔

’شیخ حسینہ نے نہ صرف انڈیا بلکہ چین، جاپان اور روس کے ساتھ بھی متوازن خارجہ پالیسی اپنائی لیکن اس دور میں بنگلہ دیش اور انڈیا کے قریبی اور مضبوط ترین تعلقات رہے ہیں۔‘

فیکٹری
Getty Images

بڑھتی ہوئی تجارت مضبوط رشتوں کی بنیاد بنی

بنگلہ دیش انڈیا کے لیے ایک بڑی منڈی بن کر ابھرا ہے۔ بنگلہ دیش سال 2022-23 میں انڈیا کی پانچویں سب سے بڑی برآمدی منڈی بن گیا ہے۔

امریکہ متحدہ عرب امارات، ہالینڈ اور چین کے بعد انڈیا کی سب سے زیادہ برآمدات بنگلہ دیش کو ہوتی تھیں۔ انڈیا کی 12.2 ارب ڈالر کی برآمدات میں بنگلہ دیش کی برآمدی منڈی کا حصہ بڑھ کر 2.7 فیصد ہو گیا۔

شیخ حسینہ کی حکومت انڈیا کے شمال مشرق اور ملک کے درمیان زمینی اور سمندری رابطے کو فروغ دے رہی ہے۔ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ انڈیا کے اقتصادی رابطوں میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

انڈیا چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش خلیج بنگال کے راستے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے لیے اس کے اقتصادی رابطوں کا مرکز بنے۔

یہ انڈیا کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کی ایک اہم بنیاد ہے۔ ڈھاکہ میں بیمسٹیک کا سیکرٹریٹ ہے جو مشرقی ممالک جیسے میانمار اور تھائی لینڈ کو جوڑتا ہے۔ حالیہ دنوں میں انڈیا کے دوست ملک جاپان نے بھی بنگلہ دیش میں کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس میں انڈیا کے کردار پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

امریکہ، بنگلہ دیش اور انڈیا

انڈیا اور بنگلہ دیش
Getty Images

امریکہ اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں تناؤ گذشتہ کچھ عرصے سے خبروں میں ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ بنگلہ دیش کے کشیدہ تعلقات کی تاریخی وجوہات ہیں کیونکہ وہ 1971 میں بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی کے دوران پاکستان کا ساتھ دے رہے تھے۔ لہٰذا شیخ حسینہ حکومت کا دونوں ممالک کے ساتھ رویہ قدرے عدم اعتماد کا ہے۔

امریکہ شیخ حسینہ کی حکومت پر آمرانہ رویے کا الزام لگاتا رہا ہے۔ بائیڈن کی حکومت میں دونوں ممالک کے تعلقات قدرے بہتر ہوئے تھے لیکن امریکہ انسانی حقوق کے معاملے پر بنگلہ دیش کو گھیر رہا ہے۔

تاہم حالیہ دنوں میں امریکہ کو بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ شیخ حسینہ نے دہلی میں جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں بائیڈن اور ان کے سینیئر مشیروں سے ملاقات کی۔

سی راجہ موہن انڈین ایکسپریس میں لکھتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے بنگلہ دیش میں انڈین مفادات کو اہمیت دینا شروع کر دی ہے اور اس کے ساتھ تعلقات میں تلخی کو کم کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

سنجے بھردواج کہتے ہیں کہ ’اگر بنگلہ دیش امریکہ کے سٹریٹجک مفادات میں فٹ بیٹھتا ہے اور اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بنگلہ دیش کا جمہوریت، انسانی حقوق اور دیگر مسائل پر کیا موقف ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اس کی انڈو پیسیفک حکمت عملی میں تعاون کریں تاکہ چین کا مقابلہ کیا جا سکے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کواڈ کا رکن ہے۔ وہ امریکہ کی انڈو پیسفک حکمت عملی کا اتحادی بھی ہے۔ اس لیے انڈیا بھی چاہتا ہے کہ امریکہ اور بنگلہ دیش کے درمیان مفادات کا تبادلہ ہو۔ یہ انڈیا کے مفاد میں بھی ہے کہ امریکہ اور بنگلہ دیش کے تعلقات اچھے رہیں۔ بنگلہ دیش بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہے گا کیونکہ یہ بنگلہ دیش کے کپڑوں کی بڑی مارکیٹ ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US