ہماری ٹرین کی اس کھڑکی سے باہر انسانی زندگی کے آثار بہت کم نظر آرہے تھے۔ اگر دکھ رہا تھا تو صرف زمین کی چھت کہلانے والی اس سرزمین پر تاحد نظر پھیلی سنہری گھاس جو کرہ ارض کی بلند ترین پہاڑیوں پر افق سے مل رہی تھی۔
وسطی چین میں زننگ سے تبت کے لہاسا تک چنگھائی-تبت ریلوے ہمالیائی سطح مرتفع کے درمیان تقریباً 2,000 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔
ہماری ٹرین کی اس کھڑکی سے باہر انسانی زندگی کے آثار بہت کم نظر آرہے تھے۔ اگر دکھ رہا تھا تو صرف زمین کی چھت کہلانے والی اس سرزمین پر تاحد نظر پھیلی سنہری گھاس جو کرہ ارض کی بلند ترین پہاڑیوں پر افق سے مل رہی تھی۔
اگر ٹرین با دل نخواسته کہیں رک جائے، تو مسافر تیز ہواؤں کی لپیٹ میں لمبے عرصے تک زندہ نہ رہ پائیں کیونکہ یہاں نہ پینے کے لیے قابلِ استعمال پانی تھا اور نہ ہی سائے کے لیے کوئی درخت۔
اگر کوئی چیز نظرآرہی تھی ہے تو وہ ایک مردہ یاک کا ڈھانچہ تھا جسے جانوروں نے کھا کر صاف کردیا تھا، یا ماؤ دور کی فوجی تنصیبات جنگ کے بعد کھنڈرات کی مانند تھیں۔
یہاں سے گزرتے ہوئے مجھے ان پہلے غیر ملکی مہم جوؤں کا خیال آیا جنھوں نے لہاسا شہرتک پہنچنے کی کوشش کی تھی جہاں ایک وقت تک غیر مقامیوں کا داخلہ بند تھا۔ جیسے نورویچ سے تعلق رکھنے والے سنکی تھامس میننگ جو 1811 کے اوائل میں چین میں پیش آنے والی مشکلات سے پریشان ہوکر گوانگزو سے کلکتہ کے لیے چلے گئے تھے۔
زاؤ نامی ایک چینی کیتھولک کے ہمراہ، میننگ بغیر کسی روک ٹوک کے بھوٹان- تبت کی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے، اور مہینوں کے سخت سفر کے بعد، بالا آخر تبت کے مقدس دارالحکومت پہنچنے والے پہلے انگریز بن گئے۔
میننگ کو لہاسا پہنچ کر لگا کہ یہ گندا اورغریب شہر ہے، لیکن اس کے باوجود ان کو چھ سالہ دلائی لامہ سے ملنے کا موقع مل گیا۔ اس کے بعد امبان، جسے بیجنگ کی جانب سے تبت میں مقرر کیا گیا تھا، انھیں قید کر دیا۔ وہ اس وقت تک پابندِ سلاسل رہے جب تک شہنشاہ جیاکنگ نے اسے زنجیروں میں جکڑ کر سرحد پر لے جانے اور ملک بدر کرنے کا حکم نہ دیا۔
اگرچہ اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں، بحری جنگوں اور یکطرفہ معاہدوں کے ذریعے غیر ملکی تاجروں نے چین کو اپنے ساحل کھولنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن تب بھی، مہم جو کارٹوگرافرز، کوہ پیما، مشنریز، سونے کی تلاش میں نکلے افراد اور سفرنامے لکھنے والے ’دنیا کی چھت‘ کہلائے جانے والے شہر میں بنے قلعے میں گھسنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔
وہ دنیا کے تمام ممالک سے اس طرف سےآئے تھے ان کے مقاصد مختلف تھے، لیکن جس چیز کا ان کو سامنا کرنا پڑا اس نے ان سب کو ایک برابر بنا دیا تھا اور وہ تھا بھیڑیوں کا حملہ، زلزلے اور چیچک سی ستایا ایک ایسا ملک جو باقی دنیا سے بالکل کٹا ہوا تھا اور جو غاصب راہبوں، پرعزم سرحدی محافظوں اور مسلح ڈاکوؤں سے آباد تھا۔
میننگ کے بعد ہونے والی کوششوں میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ یہ راجِ برطانیہ ہی تھا جوبالآخر لہاسا کو عالمی منظر میں لایا۔ یہ اس وقت ممکن ہوا جب سرحد پار ہندوستان میں تبت فرنٹیئر کمیشن کو برطانیہ اور تبت کے درمیان تجارتی مسائل کو حل کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ کمیشن ایک فوجی یونٹ تھا جس کی سربراہی فرانسس ینگ ہزبینڈ کر رہے تھے جن کا واحد کام سلطنت کو مطمئن کرنا تھا اور جنھوں نے یہ گرو کی لڑائی (جسے کچھ قتل عام بھی کہتے ہیں) کے ںریعے حاصل کیا۔
اس حملے سی نمٹنے کے لیے، تبت کے باسی اپنےپاس پرانی میچلوک بندوقیں اور دلائی لامہ کی تصویریں لیے نکل آئے۔ ان کا خیال تھا دلائی لامہ کی تصویریں ان کی حفاظت کریں گے۔ لیکن یہ چیزیں، اینفیلڈ رائفلز اور میکسم بندوقوں کا مقابلہ کیسے کرپاتیں جو ایک منٹ میں سینکڑوں گولیاں چلانے کی قابل تھیں۔
ایک برطانوی سپاہی کی جانب سی غلطی سی چل جانے والی گولی کے بعد شروع ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں تبتی فوج کی صفیں ختم ہوگئیں۔
جو بچ گئے وہ خاموشی سے وہاں سے چلے گئے، اور یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ برطانوی فوجیوں کو کم از کم اس بات کی داد ملنی چاہیئے کہ انھوں نے زخمی تبتیوں کو بچانے کی کوشش کی۔
اس کے بعد انھوں نے لہاسا کی طرف پیش قدمی کی، راستے میں کئی جھڑپیں ہوئیں جس میں کرو پاس کی جنگ بھی شامل ہے، جو تاریخ میں سب سے زیادہ اونچائی پر لڑی جانے والی جنگ کے طورپرمشہورہے۔
انگریز فوج بالآخر مقدس شہر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ دلائی لامہ منگولیا بھاگنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن برطانیہ نے وہ حاصل کرلیا جو وہ چاہتے تھے یعنی تبت کے ساتھ ایک نیا معاہدہ جس پر 1904 میں دستخط ہوئے۔
تاہم، اس حملے نے آنے والے وقت میں تبت کے بارے میں چینی رویے کو بدل دیا۔ چنگ خاندان کے خاتمے کے بعد دہائیوں پر محیط افراتفری کے سبب تبت ایک طرح سے خودمختاری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
لیکن 1950 میں چین کی ریڈ آرمی تبتیوں کو ’غلامی‘ سے ’آزاد‘ کروانے کے لیے ملک میں گھس آئی۔
جب تبتیوں کو اس خودمختاری کی اجازت نہیں دی گئی جس کی وہ خواہش کرتے تھے، تودلائی لامہ سمیت بہت سے لوگ بیرون ملک فرار ہو گئے اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔
1984 میں چنگھائی-تبت ریلوے لاًئن کے پہلے حصے کی تعمیر مکمل ہو گئی جس نے زننگ کو گولمود سے جوڑ دیا۔چنگھائی صوبے کے وسط میں واقع ایک چھوٹا سا قصبہ جو لہاسا جانے والے ہپیوں کے لیے ایک مرکز بن گیا تھا۔
جب 80 کی دہائی کے وسط میں سفر نامہ نگار پال تھیروکس نے اس پٹری کا سفر کیا، تو اس وقت ٹرین بھاپ سے چلتی تھی اور اس سفر میں 30 گھنٹے لگتے تھے، جبکہ 2018 میں میرے سفر کے وقت تک یہ دورانیہ مختصر ہو کرصرف سات گھنٹے تک رہ گیا تھا۔ تھیروکس نے اپنے سفرنامے میں اس کو ’ایک خوفناک ٹرین‘ لکھا ہے۔ آئرن روسٹر کی سواری کے دوران، مسافروں میں جھگڑا، سفر شروع ہونے کے ایک گھنٹہ بعد ہی ٹرین میں پانی کا ختم ہو جانا جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے برعکس، جس سیکنڈ کلاس ڈبے میں میں سوار تھا، اس میں آرام دہ برتھ کے علاوہ، آکسیجن کی سطح کو منظم کرنے اور اونچائی سی ہچنے والی متلی کو روکنے کے لیے اوور ہیڈ نوزلز لگے ہوئے تھے۔ اگر چائے کے فلاسک کو دوبارہ بھرنے کی ضرورت پیش آئے ہو تو ہر گاڑی کے آخر میں کھولتے گرم پانی کا ایک بیرل تھا۔ میں نے اپنی ڈائری میں لکھا ’دنیا بدل گئی ہے لیکن چنگھائی صحرا نہیں بدلا۔‘
تھیروکس کے سفرنامے پڑھتے ہوئے جب ہم سطح مرتفع پر آباد گولمڈ شہر کی جانب بڑھ رہے تھے تو ایسا محسوس ہوا جیسے یہ کتاب کھڑکی کے پار گزرنے والے مناظر کا خوبصورتی سے رواں تبصرہ بیان کر رہی ہے۔ جیسے جیسے ہم چین کے سب سے مشکل گزار علاقے کی جانب بڑھ رہے تھے، پتھریلے میدان میں بکھرے مٹی سے بنے کچے مکانات پر مشتمل دیہات ایسا منظر پیش کر رہے تھے جیسے ہم پتھر کے دور کی بستیوں سے گزر رہے ہوں۔
لیکن آج کا گولمڈ تھیروکس کے زمانے کے گولمڈ سے یکسر مختلف ہے۔ درجن بھر چھوٹی چھوٹی عمارتوں کی جگہ ایک نیا اور صاف ستھرا شہرجسے دیکھ کر ایسا لگتا جیسے اسے ماڈل ٹاؤن کی فیکٹری سے بذریعہ ہیلی کاپٹر سطح مرتفع پر لا کر رکھ دیا گیا ہو۔ لیکن میں یہ محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا کہ جیسے یہ خوبصورت شہر واضح طور پر متوسط طبقے کی ایک نیم خوشحال بستی کے لیے موزوں نہیں۔
گولمڈ میں ایک رات گزارنے کے بعد اگلی دوپہر ’سکائی ٹرین‘ کہلائی جانے والی ریل گاڑی پرسوار ہو کر لہاسا کے لیے نکل گئے۔
2006 میں گولمڈ اسٹیشن کی افتتاحی تقریب کے دوران (یہ وہ وقت ہے جب لہاسا سیکشن کھولا گیا تھا)، چینی صدر ہوجن تاؤ نے چنگھائی-تبت ریلوے کے دوسرے حصے کو ’چین کی ریلوے کی تعمیر کی تاریخ میں ایک شاندار کارنامہ‘ اور ’دنیا کی ریلوے کی تاریخ کا معجزہ‘ قرار دیا تھا۔
چینی صدر کی تقریر سے قطع نظر، انجینئروں نے واقعی ایک ناممکن کام کو پورا کر دکھایا تھا۔
دنیا کی چھت کہلانے والے اس علاقے کے بقیہ 1,200 کلومیٹر ریلوے لائن کی تعمیر کے چیلنجز کسی بھی صحیح سوچ رکھنے والے ریلوے سرویئر کے لیے ایک بھیانک خواب سے کم نہ تھے۔
سطح مرتفع پر موسم سرما اتنا شدید تھا کہ اس کی وجہ سے تبت کو ’تیسرا قطب‘ کہا جاتا ہے۔ سیدھے الفاظ میں کہیں تو اگر آپ گولف بال کے سائز کے اولوںسے یا ہوا کے تیز جھونکے جو ایک چھوٹے بچے کو اڑا دینے کے لیے کافی ہیں سے بچ بھی جاتے ہیں تو بھی شدید ٹھنڈ کی وجہ سے آپ کو کچھ انگلیوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
اس شدید موسم نے انجینئرز کے لیے بھی سنگین چیلنجز پیدا کیے۔ سب سے بڑا مسئلہ 869,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا پرما فراسٹ تھا، جو ابراہم لسٹگارٹن کی کتاب، چائناز گریٹ ٹرین کے مطابق، جنوبی اور شمالی قطبوں کے باہر سب سے بڑا منجمد مٹی کا علاقہ ہے۔
پرما فراسٹ موسمِ سرما میں جم جاتا ہے لیکن گرمیوں کے آتے ہی ایک دلدل کے میدان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس ریلوے لائن سے جڑے انجینئر کے لیے اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک سال میں زمین 30 سینٹی میٹر تک اوپر یا نیچے ہوسکتی ہے۔
جو چیزاس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہی تھی وہ تھی غیر متوازن زمین جو کچھ جگہوں پر سخت جم جاتی تھی اور دیگرجگپوں پر تھوری نرم رہ جاتی۔اور مزید یہ کہ اس میں انسانی مداخلت سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں جن کی وجہ سے تبت کا سطح مرتفع کسی بھی جگہ سے زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا تھا۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریلوے لائن کا 14 فیصد سے زائد حصہ پلوں پر بنایا گیا جیسے بہتے پانی کو عبور کرنے کے لیے بنایا گیا ہو۔
ان سب اقدامات کے با وجود، یہ کرہ ارض کا سب سے بڑا براعظمی پلیٹوں کے تصادم کا علاقہ ہے اور یہاں شدید پیمانے کے زلزلے کا خدشہ ہمیشہ رہے گا۔
یہی وجہ ہے کہ، جیسے ہی میری ٹرین نظر میں آئی، ایک عامیانہ ٹرین کو دیکھ کرمجھے کچھ مایوسی محسوس ہوئی۔ جب میں گاڑی میں چڑھا تو دیکھا کہ گاڑی کا اندرونی حصہ تبتی قالینوں سے سجا ہوا تھا اوردیواریں بدھ مت کے روایتی نقشوں سے مزین ہیں۔
’نی ہاو،‘ میں نے گاڑی میں موجود تبتیوں سے واقفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، لیکن جواب میں صرف چھوٹی سی ہنسی سنائی دی۔
کھڑکی کے پاس نشست تلاش کرکے، میں نے رائڈنگ دی آئرن روسٹر کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا، جس کا اختتام تھیروکس کے گولمڈ سے لہاسا تک بذریعہ سڑک کے سفر پر ہوا۔
یہ دو دن کے مشکل سفر کی مزاحیہ کہانی تھی جس میں تھیروکس کے ساتھی تھے سرگوشی میں بات کرنے والی مس سن اور نااہل ڈرائیور مسٹر یو کی جو اونچائی پر بیمار ہو گیا اور جس نے ریل کار کو حادثہ سے دوچار کر دیا تھا۔
تھیروکس شاندار مشاہدات کی قابلیت رکھنے کے با وجود وہ مستقبل کا اندازہ نہ لگا سکے جب انھوں نے لکھا کہ تبت کے اس قدر غیر ترقی یافتہ اور غیر چینی ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ چین میں ایک ایسی عظیم جگہ ہے جہاں تک ریلوے نہیں پہنچی اور کُن لُن رینج اس بات کی ضمانت ہے کہ ریلوے کبھی بھی لہاسا تک نہیں پہنچے گی۔
ٹرین سے باہر دکھتے پرما فراسٹ ٹنڈرا کے میدان آہستہ آہستہ شام کے اندھیروں میں غائب ہو رہے تھے۔ میں رات کا کھانا کھائے بغیر جلدی سو گیا۔ رات کے وقت کسی وقت، ہم نے تنگگولا پاس کو عبور کیا، جو کہ 5,702 میٹر کی بلندی پر دنیا کی بلند ترین ریلوے کی علامت ہے۔
اگلی صبح میری آنکھ ریلوے کی ترقی سے متعلق خوشگوار آواز میں ہونے والی نشریات کھلی: ’رات کو درجہ حرارت اکثر منفی 20 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، اس لیے ٹوائلٹ جاتے وقت سردی لگنے کا امکان ہوتا ہے۔ اسمسئلہ کے حل کے لیے ریلوے کمپنی نے الیکٹریکل ہیٹر والے بیت الخلاء نصب کیے ہیں۔‘
چینیوں کو اپنی سکائی ٹرین پر اتنا ہی ناز ہے جتنا انھیں اپنی دیوارِ چین یا تھری گورجز ڈیم پر۔ اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ایسا کیوں ہے؟ شاید یہ سب سے ان کی تاریخ میں دیوہیکل تعمیرات کرنے کا فخریہ حصہ تھا، چاہے وہ دیوارِچین ہو جسے مانچو گھڑسواروں نے باآسانی عبور کر لیا تھا، یا تھری گورجز ڈیم جس نے لاکھوں گھروں کو غرق کر دیا ہو، حالانکہ اسے کرنے کی وجوہات ہمیشہ مشکوک رہیں۔
سرکاری طور پر ’چین کی ڈرائیو ویسٹ‘ کے نام سے مشہور ایک ایسی پالیسی ہے کہ جس کا مقصد ملک کے 12 مغربی صوبوں میں معاشی ترقی کو فروغ دینا تھا۔ اسے غربت کے خاتمے کے طور پر سب کے سامنے پیش کیا گیا تھا، اور 2006 میں اس کی تکمیل پر، ریلوے نے ابتدائی طور پر اس وعدے کو پورا کیا، جس سے پہلے پانچ مہینوں میں 25 لاکھ سیاحوں کی آمد کے ساتھ علاقائی سیاحوں میں اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں قومی اوسط سے زیادہ ترقی ہوئی، جس کے نتیجے میں لہاسا کو ہوٹلوں، پکی سڑکوں اور کنڈومینیم کے ساتھ انقلابی طور پر تبدیل کیا گیا، جس تبدیلی کو ناقدین نے ’تبت کا دوسرا حملہ‘ کہا اور اس کا مذاق اڑایا۔
لیکن یہ تیزی برقرار نہیں رہی اور تبت خود مختار علاقہ چین کا سب سے کم ترقی یافتہ علاقہ تھا جب میں اس سے گزرا۔ معاشیات کے علاوہ، ریلوے کی سٹریٹجک قدر پر غور کرنا زیادہ معقول تھا۔ جیسا کہ پریزنرز آف جیوگرافی کے مصنف ٹم مارشل نے سرد، جغرافیائی سیاسی الفاظ میں کہا، ’اگر چین تبت کو کنٹرول نہیں کرتا، تو یہ امکانات تھے کہ انڈیا ایسا کرنے کی کوشش کرے۔‘
اس کے بعد قوم کی تعمیر میں ریلوے کا کردار تھا۔ امریکہ اور روس جیسے بڑے ممالک لوہے کی سڑکوں سے بنے تھے، جن میں سے زیادہ تر چینی قلیوں نے بچھائی تھیں، جبکہ اندرون ملک، ریلوے کی نوآبادیاتی طاقت اس وقت محسوس کی گئی تھی جب غیر ملکی طاقتوں نے 19 ویں صدی کے دوران پورے چین میں پٹریاں بچھائیں۔
پھر بھی کھڑکی سے باہر کے قدرتی مناظر میں، جغرافیائی سیاست انسان پر مرکوز چیز کی طرح محسوس ہوتی تھی۔ لہاسا تک کا راستہ دریائے یارلونگ سانگپو کی شمالی ذیلی ندی چی چو سے گزرتا تھا جو سیاہ رنگ کی چوٹیوں سے گھری ہوئی ایک ٹوٹی پھوٹی وادی سے گزرتی تھی جس کا اختتام کپاس کے اون کے بادلوں سے ہوتا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ واقعی ایک ’پتھر کا قلعہ‘ تھا، جس سے کچھ حد تک یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ جدیدیت کی زد میں آنے والا قرون وسطی کا آخری شہر کیوں تھا۔
دنیا میں گھومنے پھرنے والے کسی بھی سیاح کے لیے لہاسا کی کشش خود بخود عیاں تھی: اس کی دوری، اس کی عجیب و غریبی اور گلوبلائزیشن اور سنیفیکیشن کی قوتوں کے باوجود، اس کی تنہائی۔ یہ بیجنگ سے 3700 کلومیٹر اور بھوٹان کے قریب تریندارالحکومت تھمپو سے 284 کلومیٹر دور تھا۔ یہاں تک کہ ٹرین کے ساتھ بھی، لہاسا اب بھی جانے کے لیے سب سے زیادہ مشکل جگہ تھی۔
آخر کار میں اپنی ریل گاڑی سے نیچے اتر گیا اور تھکاوٹ کے برعکس خود کو تروتازہ محسوس کیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ مجھے تبتی ہوا کا جھونکا لینے کا وقت ملتا، ایک سکیورٹی گارڈ مجھے ایک بڑے سفید خیمے کی طرف اشارہ کر رہا تھا جہاں تمام غیر ملکی زائرین کو اپنی آمد کا اندراج کرانے کے لیے جانا پڑتا تھا۔
کچھ دیر بعد، ایک سرخ ڈاک ٹکٹ اور ایک دستخط کے بعد مُجھے یہ اشارہ ملا کے میں اب یہاں سے آگے جانے کے لیے آزاد ہوں۔ لیکن، جیسا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق آپ کو رجسٹرڈ ٹریول کمپنی کے ساتھ ٹور بک کرنا پڑتا ہے، لہاسا میں آزادی زیادہ دیر تک نہیں رہتی ہے، صرف سٹیشن فور کورٹ کی لمبائی ہے، جس کے آگے ٹریول کمپنی کے لوگوں کے ساتھ ایک خوش مزاج تبتی نے پوچھا، ’کیا آپ مسٹر برڈ، تھامس؟‘
’جی ہاں، یہ نام میرا ہی ہے۔‘
’لہاسا میں خوش آمدید۔‘
انھوں نے میرے گلے میں سفید ریشم کا اسکارف پہنایا، روایتی تبتی استقبال، پھر مجھے عجیب و غریب نظر آنے والے غیر ملکیوں سے بھری ایک منی بس میں بٹھایا۔ لہاسا کے تاریخی مرکز برخور کی طرف بڑھتے ہوئے ہم نے مختصر بات چیت کی۔ پتہ چلا کہ میں اکیلا تھا جو ہوائی جہاز سے نہیں پہنچا تھا۔