بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پلادم کے ڈی ایس پی وجئے کمار نے کہا، ’ہم نے ایشوریہ اور نوین کو لڑکی کے والد پیرومل کی شکایت کی بنیاد پر پوچھ گچھ کے لیے پولیس سٹیشن بلایا تھا تاہم نوین پیش نہیں ہوا۔

(انتباہ: اس مضمون کے کچھ مندرجات آپ کو پریشان کر سکتے ہیں)
انڈیا کے تھانجاور ضلع کی پولیس نے شیڈول ذات سے تعلق رکھنے والے نوجوان سے شادی کرنے پر اپنی ہی بیٹی کو قتل کرنے اور بعد میں اسے جلا دینے والے والدین کو گرفتار کر لیا ہے۔
بھاسکر کا تعلق تھنجاور ضلع کے پٹوکوٹائی کے قریب پووالور گاؤں سے ہے۔ اُن کا اور اُن کے بیٹے نوین کا تعلق انڈیا میں شیڈولذات سے ہے۔ نوین نے 7 تاریخ کو پولیس سٹیشن میں ایک شکایت درج کرائی تھی۔
اپنی شکایت میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کی شادی پڑوس کے ایک گاؤں کی رہائشی 19 سالہ ایشوریہ سے ہوئی تھی۔ جنھیں اُن کے والدین اور رشتہ داروں نے قتل کر دیا اور نہ صرف یہ بلکہ اس گھناؤنے جرم کے بعد بھی اُنھوں نے بنا کسی کو بتائے شمشان گھاٹ لے جا کر ایشوریہ کو جلا دیا۔
ان تمام واقعات اور حالات کی ملنے والی کڑیوں کو دیکھتے ہوئے پولیس نے کارروائی کی اور ایشوریہ کے والدین کو پہلے تو شاملِ تفتیش کیا اور پھر قتل میں ملوث ہونے کے جُرم میں گرفتار کرلیا۔پیرومل اور ان کی بیوی کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہے۔
بی بی سی کی ٹیم اس سارے معاملے کی نوعیت جاننے کے لیے ایشوریہ کے آبائی گاؤں نیواویدی اور نوین کے آبائی گاؤں پووالور پہنچی کہ یہ واقعہ کن حالات میں رونما ہوا اور آخر ہوا کیا؟
ایشوریہ کا قتل کیسے ہوا؟ قتل کی اس واردات کے بعد علاقے میں حالات کیسے ہیں اور اس بارے میں پولیس کا کیا کہنا ہے؟

ہوا کیا؟
نوین نے 7 تاریخ کو وٹیکوٹائی پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔ نوین اور ایشوریہ گزشتہ پانچ سال سے ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے۔
نوین گزشتہ دو سال سے تیروپپور میں پلاسٹک ریسائیکل کرنے والی ایک نجی فیکٹری میں کام کر رہے تھے جبکہ ایشوریہ پچھلے ڈیڑھ سال سے تیروپپور ضلع کے پلادم علاقے میں کپڑے کی فیکٹری میں کام کر رہی تھیں۔
نوین نے پولیس کو اپنی شکایت میں کہا کہ ’ایشوریہ کے والدین اور رشتہ داروں نے ہماری محبت کا پتا چل جانے پر ہماری راہیں جُدا کرنے کی کوشش کی مگر ہم نے پچھلے سال 31 دسمبر کو شادی کر لی۔‘
پھر اس سال 2 جنوری کو ایشوریہ کے والدین اور رشتہ داروں نے، جو اس کی تلاش میں پلادم آئے تھے، پلادم پولیس میں نوین کے خلاف ایک شکایت درج کروا دی۔ نوین کے خلاف شکایت اور مقدمے کا درج ہونا ہی تھا کہ پولیس حرکت میں آئی اور ایشوریہ کو نوین سے نہ صرف جُدا کیا بلکہ ایسا کرنے کے بعد ایشوریہ کو اُن کی مرضی کے بغیر ہی اُن کے والدین کے حوالے کر دیا۔
نوین نے اپنے شکایت میں یہ بھی کہا کہ ’دوپہر 2 بجے کے قریب ایشوریہ، ان کے والد اور ان کے رشتہ دار پولیس سٹیشن کے اندر گئے۔ آدھے گھنٹے بعد ایشوریہ کو ان کے والد اور رشتہ داروں نےپلادم پولیس سٹیشن زبردستی اُٹھا کر باہر کھڑی ایک گاڑی میں ڈالا اور اپنے ساتھ لے گئے۔‘
نوین کی شکایت کی بنیاد پر درج ایف آئی آر میں انھوں نے کہا کہ ’انھیں اطلاع ملی تھی کہ ایشوریہ کو 3 جنوری کی علی الصبح قتل کر دیا گیا اور گاؤں میں کسی کو بھی بتائے بنا اُن کے والدین نے اُن کی لاش کو شمشان گھاٹ لے جا کر آخری رسومات ادا کیں اور اُنھیں جلا بھی دیا۔ اس سب کے بعد اُن کے والدین کئی روز تک ڈر کے مارے گھر سے نہیں نکلے۔‘
ایشوریہ کے والدینایشوریہ کے ساتھ کیا ہوا؟
ایشوریہ کے گاؤں نیواویدی میں پولیس کے داخل ہوتے ہوئے تو چہل پہل دیکھائی دے رہی تھی مگر یہ جاننے کے بعد کہ پولیس وہاں کیوں آئی ہے، آہستہ آہستہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں جا بیٹھے، گاؤں میں گھروں کے دروازے بند ہو گئے اور ایک ہُو کا عالم چھا گیا۔
ہم (بی بی سی کی ٹیم) گاؤں کی ایک جانب کونے میں بنے ایک چھوٹے سے گھر میں گئے جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ایشوریہ کا گھر ہے اور یہاں ہی مبینہ طور پر یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ سکیورٹی کے لیے وہاں تعینات پولیس اہلکاروں نے کسی کو بھی جائے وقوعہ کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی۔
پولیس سب انسپیکٹر نوین پرساد، جنھوں نے نوین کی شکایت پر کارروائی کا آغاز کیا اور مقدمہ درج کیا، اس مقام کا معائنہ کر رہے تھے جہاں مبینہ طور پر ایشوریہ کی جان ی گئی تھی۔
بی بی سی تامل کی ٹیم سے بات کرتے ہوئے سب انسپیکٹر نوین پرساد نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایشوریہ کو پھانسی دے کر قتل کیا گیا۔ تفتیش مکمل کرنے کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ قتل کہاں ہوا تو انھوں نے قتل کے مقام کے بارے میں بتایا اور ایک درخت کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ’املی کا وہ درخت، جس پر اُس رسی کے نشانات موجود ہیں جس کی مدد سے ایشوریہ کو پھندا لگا کر اُن کی جان لی گئی۔‘
ہم اُس جانب بڑھنے لگے تو نوین پرساد نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ’قریب مت جاؤ‘ اور اس کے بعد وہ خود بھی وہاں سے چلے گئے۔
اس کے بعد بی بی سی نے محلے کے لوگوں سے بات کرنے کی بھی کوشش کی۔
ایشوریہ کے گھر کے قریب رہنے والے لوگوں نے اس واقعے کا عینی شاہد ہونے سے انکار کر دیا لیکن کُچھ لوگوں نے ہمت کی اور یہ ضرور بتایا کہ انھوں نے ایشوریہ کے والد کو اُنھیں گھسیٹ کے لے جاتے ہوئے ضرور دیکھا۔
ایشوریہ کے گھر کے قریب والے ایک گھر میں رہنے والی ایک خاتون نے نامظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ ضرور کہا کہ ’مجھے تاریخ یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ رات کا وقت تھا ہر جانب اندھیرا چھایا ہوا تھا کہ مُجھے بس کسی کی ایک ہی مرتبہ چیخنے کی آواز آئی۔‘
اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر کہا ’صرف ایک چیخ۔ جب ہم یہ شور سن کر ہم باہر نکل آئے۔ وہ لڑکی کو گھسیٹ کر سیدھا املی کے درخت کے پاس لے گیا۔ تب تک میرے شوہر بھی باہر نکل آئے اور مجھے انتہائی غصے میں کہا کہ خاموشی سے اندر چلی جاؤ۔‘

ایشوریہ کو کیسے قتل کیا گیا؟
قتل کے معاملے کی تحقیقات کرنے والے تفتیشی افسروں میں سے ایک نے بی بی سی تامل سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ پیرومل اور ان کی بیوی روجا سے جب پوچھ گچھ کی گئی تو انھوں نے سارا معاملہ پولیس کے سامنے بیان کر دیا۔
پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’جب وہ (پیرومل) گاڑی سے نیچے اترے تو وہ ایشوریہ کو گھر کے اندر بھی نہیں لے کر گئے، انھیں گھسیٹ کر سیدھا املی کے درخت کے نیچے لے جایا گیا۔ وہاں جاتے ہوئے انھوں نے اپنی بیوی سے کرسی اور رسی لانے کو کہا۔ افسر نے تفتیش کے دوران جو کچھ دیکھا اس کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ بیوی نے رسی کو درخت کی شاخ سے ایسے باندھا تھا، جیسے کسی کو بھانسی دینے کی لیے تیاری کی جاری رہی ہو۔
انھوں نے مزید کہا کہ جب یہ سب ہو رہا تھا تو ایشوریہ نے اپنے والد سے معافی مانگی۔ اس نے اپنے والد سے کہا کہ ’مجھے اپنی محبت کو پانے کے لیے کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔‘
’اس سب کے دوران ایشوریہ کے گلے میں اُن کے والد نے رسی کا وہ پھندا ڈال دیا۔ رسی کے دوسرے سرے کو مضبوطی سے پکڑا اور اسے پوری طاقت سے کھینچ کر درخت سے باندھ دیا۔ پھر ایشوریہ کی خالہ آئیں اور درانتی سے رسی کاٹ دی۔‘
’رسی کٹی اور ایشوریہ بے سود زمین پر آگریں۔ ایشوریہ کے قریب جا کر جب یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ وہ مر چُکی ہیں یا زندہ ہیں تو پتا چلا کہ ابھی اُن کی سانسیں چل رہی تھیں، جس پر والد نے ایشوریہ کو اپنے ہاتھوں سے گلا دبا کر مار ڈالا۔‘
تفتیشی افسر نے بی بی سی کی ٹیم کے ساتھ یہ وہ باتیں بیان کیں جو ملزمان نے اپنے جُرم کا اعتراف کرتے ہوئے بیان کی تھیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آشیش راوت نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔
انھوں نے کہا کہ ’لڑکی کے والد کے بیان کے مطابق، انھوں نے خاتون کو پھانسی دی اور پھر گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ ان کے بیان کا موازنہ دوسروں کے بیانات سے کیا جانا چاہیے۔‘

سکول کے دنوں سے ہی ذات پات سے متعلق بتایا اور سمجھایا گیا
اس واقعہ میں ہم ایشوریہ کے شوہر نوین کے گاؤں گئے، جو شکایت کنندہ اور مرکزی گواہ ہیں۔ پولیس نے ہمیں گاؤں کے داخلی راستے پر ہی روک لیا۔ پولیس افسر نے کہا کہ ’بیرونی لوگوں کو اعلیٰ حکام کی اجازت کے بغیر اندر نہیں جانے دیا جا سکتا۔‘
ہم (بی بی سی ٹیم) مناسب اجازت کے ساتھ نوین کے پووالور گاؤں میں داخل ہوئے۔ جیسے ہی نوین کے گھر کے قریب پہنچے، پولیس نے گھیرے میں لے لیا اور فوٹیج ریکارڈ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
وہاں سکیورٹی ڈیوٹی پر مامور ایک پولیس افسر نے کہا کہ ’فی الحال چونکہ دونوں گاؤوں کے درمیان کشیدہ صورتحال ہے، اس لیے کسی کو بھی ان کے گھر کے قریب جانے کی اجازت نہیں ۔‘
اس کے بعد، ہم نوین کے والد بھاسکر سے واٹی کوٹائی پولیس سٹیشن میں ملے، جن سے پولیس تفتیش کر رہی تھی۔
انھوں نے کہا کہ نوین جب نویں کلاس میں پڑھ رہے تھے تو انھوں نے اپنے بیٹے کو متنبہ کیا تھا۔
نوین کے والد بھاسکر نے بی بی سی تامل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں نے مختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ لیکن انھیں ایک دوسرے سے محبت سرکاری بس میں سکول آنے اور جانے کے دوران ہوئی۔ میں نے اپنے بیٹے کو بھی 10ویں جماعت کے بعد پتوکوٹائی کے سکول میں نہیں بھیجا بلکہ اسے دوسرے علاقے کے پولی ٹیکنیک کالج میں داخل کرایا لیکن کورونا کے بعد اس نے کالج جانا چھوڑ دیا اور کام پر جانا شروع کر دیا۔‘
اس واقعے سے پہلے نوین کے والد بھاسکر اور ایشوریہ کے والد پیرومل ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
بھاسکر نے کہا ’اگرچہ دونوں گہرے دوست نہیں لیکن پڑوسی گاؤں سے ہیں۔ یہاں تک کہ جب انھیں اس واقعہ کا علم ہوا تو انھوں نے مجھے فون کر کے کہا کہ وہ کسی کے علم میں لائے بغیر ان دونوں کے راستے جُدا کر دیں لیکن پھر ایسا مُمکن نہیں ہو سکا۔‘
پووالور گاؤں کی رہائشی تھملسیلوی کے مطابق گاؤں میں ہر کوئی جانتا ہے کہ شادی اس مسئلے کی وجہ ہے۔
تھملسیلوی نے کہا ’ماضی میں بھی ایسی شادیاں ہوئی ہیں اور ایسا کرنے والےاکثر کچھ سال تک شہر نہیں آتے لیکن ایشوریہ اور نوین کے معاملے میں دونوں کی شادی کی ویڈیو واٹس ایپ پر شہر کے سبھی لوگوں تک پہنچ گئی۔‘

پولیس انسپیکٹر معطل
اپنی شکایت میں نوین نے دعویٰ کیا تھا کہ ایشوریہ کو پلادم پولیس سٹیشن سے اٹھایا گیا تھا اور پولیس نے انھیں بتایا تھا کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پلادم کے ڈی ایس پی وجئے کمار نے کہا کہ ’ہم نے ایشوریہ اور نوین کو لڑکی کے والد پیرومل کی شکایت کی بنیاد پر پوچھ گچھ کے لیے پولیس سٹیشن بلایا تھا تاہم نوین پیش نہیں ہوا۔ جب ہم نے ایشوریہ سے پوچھ گچھ کی تو انھوں نے کہا کہ ’میں اپنے والدین کے ساتھ شہر جا رہی ہوں۔ میں اپنی شادی کے بارے میں اپنے والدین سے بات کروں گی اور انھیں اس پر راضی کرنے کی کوشش کروں گی۔ یہ ایشوریہ کی رضامندی پر تھا کہ ہم نے اسے اس کے والدین کے ساتھ جانے دیا۔ اب اس میں اس سے آگے ہمارا عمل دخل نہیں تھا۔
ہم نے یہ سوال ڈی ایس پی وجئے کمار سے پوچھا کہ ’کیا نوین پوچھ گچھ کے لیے حاضر نہیں ہوا کیوںکہ اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی تھیں؟‘
اس کے جواب میں انھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر نوین تفتیش کے لیے پیش ہوتے تو یہ معلوم ہوتا کہ انھیںجان سے مارنے کی دھمکیاں ملی تھیں یا نہیں۔ وہ نہ تو پوچھ گچھ کے لیے پیش ہوئے اور نہ ہی انھوں نے جان سے مارنے کی کسی دھمکی کی اطلاع پولیس کو دی۔‘
دریں اثنا، پلادم پولیس سٹیشن کے انسپیکٹر مروگیا کو معطل کر دیا گیا ہے۔