بنگلورو: انڈیا کی سلیکون ویلی میں انگریزی زبان کے خلاف احتجاج اس کی ساکھ کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟

نئے سال کے موقع پر انڈیا کے جنوبی شہر بنگلورو (سابق بنگلور) جسے اکثر عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی بڑی کمپنیوں کا گھر ہونے کی وجہ سے انڈیا کی سلیکون ویلی کہا جاتا ہے، اس وقت سرخیوں میں آیا جب مظاہرین نے انگریزی زبان میں لگے بل بورڈز پھاڑ دیے اور مطالبہ کیا کہ انھیں شہر کی مقامی زبان کنڑا میں لکھا جائے۔

نئے سال کے موقع پر انڈیا کے جنوبی شہر بنگلورو (سابق بنگلور) جسے اکثر عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی بڑی کمپنیوں کا گھر ہونے کی وجہ سے انڈیا کی سلیکون ویلی کہا جاتا ہے، اس وقت سرخیوں میں آیا جب مظاہرین نے انگریزی زبان میں لگے بل بورڈز پھاڑ دیے اور مطالبہ کیا کہ انھیں شہر کی مقامی زبان کنڑا میں لکھا جائے۔

کرناٹک رکشانا ویدیکے (کے آر وی) کے احتجاج کا مقصد حکومت کو ایک قانون نافذ کرنے کے لیے مجبور کرنا تھا جس کے تحت شہر میں ہر ڈسپلے سائن بورڈ کا 60 فیصد حصہ کنڑ زبان میں ہونا چاہیے۔

کے آر وی کو انڈیا کی کچھ مرکزی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے جنھوں نے اس پرتشدد احتجاج کی مذمت کی ہے لیکن کہا ہے کہ کنڑ زبان کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک وفاقی وزیر نے ایک مقامی نیوز چینل کو بتایا کہ ’انگریزی کے علاوہ کنڑ میں لکھنے میں کیا حرج ہے؟ یہ انگلینڈ نہیں ہے۔‘

ان میں سے کوئی بھی تعجب کی بات نہیں تھی کیونکہ انڈیا میں جہاں 300 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں، لسانی شناخت کا دعویٰ عام ہے۔ مثال کے طور پر کرناٹک کی پڑوسی ریاست تمل ناڈو میں تمل زبان کے حامی مظاہرین 1930 کی دہائی سے ’تمل ناڈو تملوں کے لیے ہے‘ کا نعرہ استعمال کر رہے ہیں۔

سنہ 1947 میں انڈیا کی آزادی کے بعد سے ملک میں متعدد ریاستیں لسانی خطوط پر تشکیل دی گئیں اور ایک ہی زبان بولنے والے خطوں کو ایک ساتھ جمع کیا گیا۔ کرناٹک ایسی ہی ایک ریاست تھی جو 1956 میں قائم ہوئی تھی۔

کے آر وی، جس نے پچھلے مہینے انگریزی بل بورڈ پھاڑ دیے تھے، کئی دہائیوں سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ کنڑا اور اس کے بولنے والوں کو ایک کاسموپولیٹن شہر میں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔

بنگلورو میں 10 میں سے چار لوگ شہر کے باہر سے کام کاج کے لیے آتے ہیں، حالانکہ اس کی دو تہائی آبادی ریاست کے اندر سے ہی ہے۔ اگرچہ تارکین کی آمد نے کچھ مقامی لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ جلد ہی شہر میں اقلیت بن جائیں گے۔

لیکن کے آر وی کا ’کنڑا فرسٹ‘ مطالبہ ایک لسانی قوم پرستی سے پیدا ہوتا ہے جو دہائیوں سے بن رہا ہے۔ ثقافتی مؤرخ جانکی نائر ایک تحقیقی مقالے میں کہتے ہیں کہ کنڑ بولنے والوں نے پہلی بار 1920 کی دہائی میں ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔

جانکی نائر کہتی ہیں کہ پہلے تو کنڑ قوم پرست انگریزی سمیت دیگرزبانوں سے ہم آہنگ تھے۔ کنڑ قوم پرستوں میں سے ایک نے یہاں تک کہا کہ ’انگریزی ہماری ثقافتی اور سیاسی زبان ہے، سنسکرت ہماری روحانی اور کلاسیکی زبان ہے اور کنڑ ہماری مادری اور بولی جانے والی زبان ہے۔‘

کنڑا اسکالر مظفر اسدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شروع میں یہ لسانی تحریک کبھی بھی مضبوط نہیں تھی کیونکہ اس نے بنیادی طور پر زبان اور ادب کی ترقی کا مطالبہ کیا تھا۔ حال ہی میں اس تحریک میںپرتشدد مظاہرے شامل ہو گئے ہیں۔

سکالرز کا کہنا ہے کہ یہ سخت احتجاج 1980 کی دہائی میں شروع ہوا تھا اور انگریزی کے خلاف احتجاج کرنے سے پہلے کنڑ قوم پرستوں نے دیگر انڈین زبانوں سنسکرت، تمل، اردو اور ہندی کا سہارا لیا۔ سب سے پہلے 1982 کی گوکاک تحریک تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ سکولوں میں سنسکرت کے بجائے کنڑ کو واحد پہلی زبان بنایا جائے۔

کنڑا فلم انڈسٹری نے اس احتجاج کی حمایت کی تھی جس میں سپر سٹار راج کمار نے اس تحریک کی قیادت کی۔ اس کے بعد 1991 کے تامل مخالف فسادات ہوئے جس نے بنگلورو اور میسورو شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تنازع کاویری ندی میں پانی کی تقسیم پر تھا جو دونوں ریاستوں سے گزرتی ہے۔ نہ تو تمل بولنے والے اور نہ ہی کنڑ بولنے والے چاہتے تھے کہ ایک دوسرے کو پانی کا بڑا حصہ ملے۔

بعد ازاں 1996 میں بڑے پیمانے پر احتجاج اس وقت شروع ہوئے جب سرکاری نشریاتی ادارے دوردرشن نے اردو زبان میں پروگرامنگ شروع کی۔

ایک دہائی بعد 2017 میں کے آر وی کی قیادت میں کنڑ قوم پرستوں نے ہندی کا مقابلہ کیا۔ مظاہرین نے بنگلورو میٹرو لائن پر سائن بورڈز اور عوامی اعلانات سے ہندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ’نما میٹرو، ہندی بیڈا‘ جس کا مطلب ہے ’ہماری میٹرو میں ہندی نہیں‘ کئی دنوں تک سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتا رہا تھا۔

کنڑ قوم پرستوں نے انگریزی کے خلاف احتجاج اس وقت شروع کیا جب 1990 کی دہائی میں انڈیا میں آئی ٹی کا عروج شروع ہوا اور انگریزی بولنے والے کارکنوں کی مانگ میں اضافہ ہوا۔

بہت سے مقامی زبان بولنے والوں میں ایک عام تشویش تھی کہ دوسری ریاستوں کے انگریزی بولنے والے ان کی نوکریاں چھین رہے ہیں، اور کے آر وی نے 1980 کی دہائی کی سروجنی مہیشی کمیٹی کی سفارش کے مطابق ’مٹی کے بیٹوں‘ کے لیے کوٹہ یا مثبت کارروائی کے نفاذ کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔

کے آر وی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ دوسروں پرعلاقائی زبانوں کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ انڈیا کی وفاقیت کی جڑیں علاقائی خودمختاری میں ہیں اور انگریزی کے نشانات اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف نہیں ہیں جہاں انگریزی کام کے لیے اہم ہے۔

ارون جاوگل کہتے ہیں کہ ’ہم صرف یہ سوچتے ہیں کہ کنڑا اور اس کے لوگوں کو ترجیح دی جانی چاہیے۔‘

کنڑ کارکنوں نے دسمبر 2023 میں ہونے والے ایک احتجاج میں انگریزی کا ایک سائن بورڈ پھاڑ دیا تاہم، کنڑ قوم پرستی کے زیادہ تر مظاہر ریاست میں بلا مقابلہ ہیں اور کنڑ بولنے والوں کا ایک طبقہ کے آر وی کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

جاوگل کا دعویٰ ہے کہ ان کی تنظیم کو بنگلورو سمیت ریاست میں کافی حمایت حاصل ہے۔ لیکن کیا حالیہ احتجاج اور انگریزی سے کنڑ میں سائن بورڈز میں تبدیلی برانڈ بنگلورو کی عالمی امیج کو متاثر کر سکتی ہے؟ فیڈریشن آف کرناٹک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف کے سی سی آئی) کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔

ایف کے سی سی آئی کے صدر رمیش چندرا کا کہنا ہے کہ ’یہ بنگلورو کی محنتی افرادی قوت ہے جس نے اس برانڈ کو بنایا ہے اور اگر سائن بورڈ تبدیل بھی ہو جائیں تو بھی وہ اچھا کام کرتے رہیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے ’تجارتی اداروں سے درخواست کی ہے کہ وہ قانون پر عمل کریں اور سائن بورڈز میں کنڑ زبان کا نمایاں استعمال کریں۔‘

سائن بورڈز کو تبدیل کرنے کی آخری تاریخ 28 فروری ہے۔ جہاں تک کے آر وی کا تعلق ہے اس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر یورپی ممالک اپنی مقامی زبانوں میں بل بورڈ لگا سکتے ہیں تو کرناٹک جس کی آبادی چھ کروڑ 11 لاکھ ہےاور جس میں اکثریت کنڑ بولنے والوں کی ہے وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US