انڈیا کی ریاست گجرات کی ایک جھیل میں ڈوبنے والی کشتی میں سوار طلبہ کے والدین نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بچوں کو لائف جیکٹس نہیں دی گئیں۔ جمعرات کو وڈودرا شہر کی ہرنی جھیل میں پیش آنے والے اس واقعے میں کم از کم 12 طلبا اور دو اساتذہ ڈوب گئے۔

انڈیا کی ریاست گجرات کی ایک جھیل میں ڈوبنے والی کشتی میں سوار طلبہ کے والدین نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بچوں کو لائف جیکٹس نہیں دی گئیں۔
جمعرات کو وڈودرا شہر کی ہرنی جھیل میں پیش آنے والے اس واقعے میں کم از کم 12 طلبا اور دو اساتذہ ڈوب گئے۔
پولیس نے اس واقعے کے سلسلے میں دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔
باقی متاثرین کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اب تک اٹھارہ طلبہ اور دو اساتذہ کو بچالیا گیا ہے اور ان کا قریبی ہسپتال میں علاج جاری ہے۔
حادثے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کشتی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی۔ الزامات کے مطابق ’26 بچوں سمیت 34 افراد کو 14 افراد کی گنجائش والی کشتی میں سوار کیا گیا‘ اور ’زیادہ تر بچوں اور بڑوں کو لائف جیکٹس فراہم نہیں کی گئیں۔‘
یہ واقعہ توازن کھونے کی وجہ سے کشتی الٹنے کی وجہ سے پیش آیا۔
پی ایم او کے سوشل میڈیا ہینڈل پر لکھا کہ ’دکھ کی اس گھڑی میں میری ہمدردیاں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔ مقامی انتظامیہ متاثرہ افراد کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے۔‘
’وزیر اعظم کے قومی ریلیف فنڈ سے ہر مرنے والوں کے لواحقین کو 2 لاکھ روپے اور زخمیوں کو 50،000 روپے کی امداد دی جائے گی۔‘
وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی ریاست کے وزیر اعلیٰ سے بات کی اور واقعے کی رپورٹ طلب لی۔
اس افسوسناک واقعے نے قومی سطح پر شہ سرخیوں میں جگہ بنا لی ہے، اور بہت سے والدین نے حکام پر حفاظتی اصولوں کی خلاف ورزی کرکے ان کے بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔
ریسکیو کیے گئے ایک طالب علم کی رشتہ دار عاصمہ شیخ نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ پکنک اور کشتی کی سواری کے بارے میں بتانے کے باوجود سکول انتظامیہ نے مبینہ طور پر طالب علموں کو لائف جیکٹس فراہم نہیں کیں۔
وفاقی وزیر ہرش سنگھوی نے بتایا کہ کشتی پر صرف 10 طالب علموں نے لائف جیکٹ پہن رکھی تھی جس کا مطلب ہے کہ مسافروں کی اکثریت لائف جیکٹ کے بغیر تھی۔

جمعرات کو جب بی بی سی گجراتی نے جائے حادثہ کا دورہ کیا تو کئی والدین جھیل کے قریب جمع تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے سوال کیا کہ طلبا کو مناسب حفاظتی سامان کے بغیر کشتی پر سوار ہونے کی اجازت کیوں دی گئی۔
’یہ لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔۔۔ اس پر نظام، حکومت اور سکول کی براہ راست ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔‘
کچھ والدین نے الزام لگایا ہے کہ انھیں کشتی کی سواری اور اس واقعے کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ مرنے والے ایک طالب علم کی بہن نوشین گاندھی نے ٹائمز آف انڈیا اخبار کو بتایا کہ سکول نے انھیں مطلع کیا تھا کہ طالب علموں کو ایک واٹر پارک میں لے جایا جائے گا، لیکن پھر انھیں ایک جھیل میں لے جایا گیا۔
انھوں نے الزام لگایا کہ اس سانحے کے بعد سے میں نے سکول انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔
کچھ والدین نے الزام عائد کیا کہ گجرات حکام کی لاپرواہی کے نتیجے میں اس طرح کے واقعات اکثر ہو رہے ہیں۔ اکتوبر میں موربی میں پیدل چلنے والوں کا پل گرنے سے کم از کم 135 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

سانگھوی نے تازہ ترین واقعے کے لیے کشتی کے آپریٹر اور ٹھیکیدار کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اسے ’غلطی‘ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
گجرات حکومت نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور 10 دن کے اندر رپورٹ طلب کی ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیو سنرائز سکول کے تقریبا 80 طالب علم پکنک پر گئے تھے اور جہاں کچھ طالب علم کشتی کی سواری پر گئے تھے وہیں باقی دیگر سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
ایک عہدیدار نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ کشتی جھکنے لگی کیونکہ اس کے توازن میں کوئی مسئلہ تھا۔ انڈیا میں کشتیوں کے حادثات غیر معمولی نہیں ہیں، جہاں کشتیوں پر اکثر بھیڑ ہوتی ہے، خراب دیکھ بھال کی جاتی ہے اور حفاظتی سامان کی کمی ہوتی ہے۔ گذشتہ سال انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں ایک کشتی الٹنے سے 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔