لکشدیپ: کیا انڈیا کا ’مالدیپ‘ بڑے پیمانے پر سیاحوں کی مہمان نوازی کر سکے گا؟

سمندری حیاتیات پر گہری نظر اور علم رکھنے والے اور 1996 سے جزیروں پر تحقیق کرنے والے کورل ریف ماحولیاتی ماہر روہن آرتھر کہتے ہیں ’لکشدیپ جزیروں کا طویل مدتی استحکام اس کے مرجان کی چٹانوں، جھیلوں اور ساحلوں کی ماحولیاتی سالمیت پر منحصر ہے۔‘ اُن کا مزید کہنا ’یہ اہم ’ماحولیاتی انفراسٹرکچر‘ تشکیل دیتے ہیں جو اس علاقے کو ایک ساتھ رکھتا ہے، بالکل لفظی طور پر۔‘

رواں ماہ کے اوائل میں انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے انڈیا کے جزیرے لکشدیپ کے دورے کے بعد ایک غیر متوقع تنازع پیدا ہوا تھا جس کے بعد اس کے ہمسایہ ملک مالدیپ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ اس تنازعے نے چھوٹے جزیروں کے اس سلسلے میں سیاحوں کی دلچسپی میں بھی اضافہ کیا ہے جس نے ماحولیاتی ماہرین اور بہت سے مقامی لوگوں کو پریشان کردیا ہے۔

مالدیپ کے شمال میں بحیرہ عرب میں واقع وفاق کے زیرِ انتظام علاقے لکشدیپ کے اپنے دورے کے دوران نریندر مودی نے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا تھا اور اس کے ساحلوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنی تصاویر شیئر کی تھیں۔

مالدیپ کے تین نائب وزراء نے ان کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کیا، جس پر انڈین سوشل میڈیا پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور بہت سے لوگوں نے لکشدیپ کو ایک متبادل سیاحتی مقام کے طور پر اجاگر کیا۔

ایسا لگتا ہے کہ انڈین سوشل میڈیا پر سامنے آنے والا یہ ردِ عمل کام کر رہا ہے۔ لکشدیپ کے لیے گوگل سرچ کی بھی اگر بات کی جائے تو یہ وہ الفاظ ہیں جو سرچ کیے جانے لگے ہیں، اور لکشدیپ گذشتہ ہفتے اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ انڈیا کی سب سے بڑی آن لائن ٹریول کمپنی میک مائی ٹرپ نے کہا ہے کہ مودی کے دورے کے بعد اس کے پلیٹ فارم پر لکشدیپ کی تلاش میں 3400 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

علاقے کے سرکاری ایڈمنسٹریٹر، پرفل پٹیل، جن کی متنازع پالیسیوں نے چند سال پہلے لکشدیپ میں مقامی لوگوں کی طرف سے ’احتجاج‘ کو جنم دیا تھا، نے اس توجہ کا خیرمقدم کیا ہے۔

لکشدیپ کی قدرتی خوبصورتی میں سیاحت کے شعبے کی ترقی کے بے پناہ امکانات اور مواقع موجود ہیں۔ انتظامیہ نے اسی حوالے سے کئی اقدامات شروع کیے ہیں۔

ٹاٹا گروپ نے 2026 تک لکشدیپ کے دو جزیروں پر دو ’عالمی معیار‘ کے ریزورٹ بنانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے (جزیرے میں 36 جزیرے ہیں جن میں سے صرف 10 آباد ہیں اور یہ 32 مربع کلومیٹر میں پھیلے ہوئے ہیں)۔ لکشدیپ کے لئے پرواز کرنے والی واحد ایئر لائن نے اضافی پروازیں شروع کردی ہیں اور جلد ہی ایک اور سروس شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ لکشدیپ جو چاندی کے خوبصورت ساحلوں، نیل گوں پانیوں اور مرجان کے جزیروں کے لیے مشہور ہے، کو مالدیپ کی طرح ایک بڑے سیاحتی مقام کے طور پر ترقی نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس کا حجم چھوٹا ہے اور اس کا ماحول بھی کُچھ خاص ساز گار نہیں ہے۔ بہت سے مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھیں ذمہ دارانہ سیاحت کی ضرورت ہے جس میں وہ شراکت دار ہیں، نہ کہ بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے جو ان کے طرز زندگی کو بدل دیں گے۔

ایک سرکاری ویب سائٹ کے مطابق، ’لوگوں کا بنیادی پیشہ ماہی گیری، ناریل کی کھیتی ہے، جو یہاں سیاحت کو ’ابھرتی ہوئی صنعت‘ قرار دیتی ہے۔

اضافی پروازوں کے آغاز سے پہلے تک، جزیرے تک پہنچنے کے صرف دو راستے تھے، الائنس ایئر کے ذریعہ چلایا جانے والا 72 نشستوں والا طیارہ جو روزانہ ریاست کیرالہ کے کوچی سے اگاتی جزیرے پر لکشدیپ کے واحد ہوائی اڈے کے لئے پرواز کرتا تھا، اور مین لینڈ سے جہاز جو ہر چار دن میں آتے تھے۔

انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ اجازت نامے کے ذریعہ لکشدیپ میں داخلہ بھی محدود ہے۔

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے پی پی محمد فیضل کہتے ہیں، جو لکشدیپ میں تقریبا 70 ہزار لوگوں کی نمائندگی کرنے والے واحد رکن پارلیمنٹ ہیں، ’نقل و حمل، رہائش اور زمین پر مبنی بنیادی ڈھانچہ (جزیروں کی ترقی میں) ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بنگارام، جس جزیرے پر وزیر اعظم مودی ٹھہرے تھے، وہاں (سیاحوں کے لیے) صرف 36 کمرے ہیں۔‘

لہٰذا، اس علاقے کی موجودہ سیاحت کا زیادہ تر حصہ کروز کے ذریعے چلتا ہے، جزیرے پر لنگر انداز ہونے والے بحری جہازوں کے زائرین دن کے وقت جزیروں کا دورہ کرتے ہیں اور رات گزارنے کے لیے جہاز پر واپس آتے ہیں۔

اس کے برعکس مالدیپ میں سیاحوں کے قیام کے لیے سینکڑوں آپشنز موجود ہیں جن میں ریزورٹس، ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز شامل ہیں۔

فیضل کہتے ہیں ’کہ مالدیپ کے پاس جو کچھ ہے وہ لکشدیپ ساحلوں، زیر آب اور پانی کے کھیلوں کی سرگرمیوں کے ذریعے پیش کر سکتا ہے۔ لیکن بنیادی ڈھانچے کے لحاظ سے، ہمیں میلوں کا سفر کرنا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ کسی بھی ترقی کے لیے، انتظامیہ اور جزیرے کے باشندوں کے مابین اختلافات کو حل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

لکشدیپ کی 96 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور 2021 میں مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق رہنما پٹیل کو لکشدیپ کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے جانے کے بعد سے جزیرے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔

اس کے بعد سے انھوں نے متنازع اقدامات کا اعلان کیا ہے جن میں سکول کے کھانے کے مینو سے گوشت کو ہٹانا اور ایک مسودہ قانون شامل ہے جو انتظامیہ کو زمین پر قبضہ کرنے کے وسیع اختیارات دیتا ہے۔

بی بی سی نے پٹیل کے دفتر، لکشدیپ کے کلکٹر اور اس کے سیاحت اور اطلاعاتی محکموں کو فون اور ای میل کے ذریعے سوالات پوچھے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

انٹرویو میں پٹیل نے اپنی انتظامیہ کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا واحد ایجنڈا لکشدیپ کی ترقی ہے۔

اگاٹی جزیرے پر ٹریول ایجنسی چلانے والے الثاف حسین کا کہنا ہے کہ مودی کے دورے کے بعد سے ممکنہ سیاحوں سے پوچھ گچھ میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اگرچہ وہ مزید مہمانوں کو خوش آمدید کہیں گے، لیکن حسین، جو مستقبل میں اگاٹی پر اپنا ریزورٹ قائم کرنے کی ُامید رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ مواقع صرف بڑے کاروباری اداروں کو نہیں بلکہ مقامی کاروباری افراد کو ملنے چاہئیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہمیں چھوٹی نوکریاں مل سکتی ہیں کیونکہ یہ منصوبے آتے ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم ان منصوبوں میں ملکیت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور صرف مزدوری نہیں کرنا چاہتے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ لکشدیپ میں کسی بھی پیش رفت کو آب و ہوا کی تبدیلی کے خوف کے ساتھ معاش کے خدشات کو متوازن کرنے کی ضرورت ہوگی۔

سمندری حیاتیات پر گہری نظر اور علم رکھنے والے اور 1996 سے جزیروں پر تحقیق کرنے والے کورل ریف ماحولیاتی ماہر روہن آرتھر کہتے ہیں ’لکشدیپ جزیروں کا طویل مدتی استحکام اس کے مرجان کی چٹانوں، جھیلوں اور ساحلوں کی ماحولیاتی سالمیت پر منحصر ہے۔‘ اُن کا مزید کہنا ’یہ اہم ’ماحولیاتی انفراسٹرکچر‘ تشکیل دیتے ہیں جو اس علاقے کو ایک ساتھ رکھتا ہے، بالکل لفظی طور پر۔‘

لیکن ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران بحر ہند کے اس حصے کو تباہ کن ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کا تعلق ایل نینو سدرن اوسلیشن (این ایس او) کے موسمی رجحان (سمندر کی سطح کا گرم ہونا) سے ہے جس نے مرجان کی چٹانوں کی صحت کو متاثر کیا ہے۔

اس سال اس سے بھی بڑا این ایس او متوقع ہے، اس لیے وہ ’یہ سوچنے سے ڈرتے ہیں کہ اس سے لکشدیپ کی چٹانوں کا کیا ہوگا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ غیر منصوبہ بند یا ٹکڑوں میں ہونے والی ترقی جس میں آب و ہوا کی لچک نہیں ہے، صرف لکشدیپ میں رہائش کے بحران میں اضافہ کرے گی۔

تو یہاں پائیدار سیاحت کیسی نظر آئے گی؟

ماہرین اور مقامی افراد اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پرتعیش سیاحت کے بجائے، جو غیر متناسب طور پر کاربن فٹ پرنٹ چھوڑتا ہے، جزیرے کو ایک ایسے ماڈل کی ضرورت ہے جو اس کے نازک ماحولیاتی نظام اور اس کے لوگوں کی ضروریات کو مرکز میں رکھے۔

فیضل کہتے ہیں کہ ان جزیروں میں پہلے سے ہی ’ترقی کے لیے مواقع‘ موجود ہے، جو سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ جسٹس رویندرن کمیشن کی جانب سے پیش کیے گئے منصوبے کی شکل میں ہے۔ اس کی منظوری وفاقی وزارت ماحولیات نے 2015 میں دی تھی۔

پٹیل نے کہا ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے لیکن فیضل کا دعویٰ ہے کہ موجودہ انتظامیہ شاذ و نادر ہی عدالت کی طرف سے طے کردہ ہدایات پر عمل کرتی ہے۔

انٹیگریٹڈ آئی لینڈ مینجمنٹ پلان میں منتخب مقامی خود مختار اداروں کی مشاورت سے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد، جھیلوں، مرجانوں اور دیگر ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے ڈریجنگ اور ریت کی کان کنی پر پابندی اور صرف غیر آباد جزیروں میں سیاحتی منصوبوں پر عمل درآمد کی سفارش کی گئی ہے۔

سیاحوں کو بھی زیادہ ذمہ دارانہ ذہنیت کے ساتھ دورہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

روہن آرتھر نے لکشدیپ کے سفر کے دوران سیاحوں کو اس کی گہری ثقافتی تاریخ کو سمجھنے، مقامی ترکیبوں کے ساتھ پائیدار طور پر تیار اور پکایا ہوا کھانا کھانے، مقامی گائیڈز اور غوطہ خوروں کے ساتھ ریف کی تلاش کرنے اور ان انوکھی جگہوں کی طویل مدتی بقا کے سفیر بننے میں شامل کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک ایسی سیاحت کا تصور کرنا ممکن ہو سکتا ہے جو مقامی معیشتوں کی حمایت اور احترام کرتی ہو اور سیاحوں کو گاؤں کی زندگی میں حصہ لینے کا موقع ملے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US