چار دہائیوں کے بعد ریٹائرمنٹ کی عمر میں ملازمت کا لیٹر حاصل کرنے والے اب یہ خط اٹھائے انصاف حاصل کرنے لیے سرکاری دفاتر کا چکر لگا رہے ہیں۔ یہ مقدمہ ہے کیا؟
انڈیا کی ریاست مغربی بنگال کے ہگلی ضلع سے تعلق رکھنے والے دین بندھو بھٹاچاریہ نے نوجوانی کے دنوں میں پرائمری سکول ٹیچر کی نوکری کے لیے درخواست دی تھی۔ کافی تگ و دو کے بعد بالآخر جمعرات کو انھیں ہاں میں جواب ملا۔
مگر اب دین بندھو بھٹاچاریہ کی عمر 64 برس ہے۔
سنہ 1980 کی دہائی میں انھوں نے پرائمری ٹیچر کی نوکری کے لیے بھی درخواست دی تھی لیکن مبینہ طور پر قابلیت کے باوجود انھیں اس وقت تعینات نہیں کیا گیا۔ وہ یہ معاملہ عدالت میں لے گئے مگر پھر بھی کوئی حل نہیں نکل سکا۔
آخر کار کولکتہ ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا اور ان کی تقرری کے احکامات جاری کیے مگر اس دوران چار دہائیاں بیت گئیں۔
ایم بھٹاچاریہ ہی وہ واحد شخص نہیں ہیں بلکہ عدالت نے اسی مقدمے میں 66 اور بھی افراد کو پرائمری ٹیچر کی نوکری دینے کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔ لیکن اب وہ ’ریٹائرمنٹ‘ کی عمر کی حد کو عبور کر چکے ہیں۔
دین بندھو بھٹاچاریہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ملازمت کا خط ملنے کے بعد کیا کریں۔
انھوں نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نوجوان تھا جب میں نے پرائمری ٹیچر کی نوکری کا امتحان دیا۔ میں اب 64 سال کا ہوں اور نوکری کا انتظار کر رہا ہوں۔ مجھے کل تقرری کا لیٹر ملا۔ میں اکیلا نہیں، مجھ جیسے 66 لوگوں کو یہ خط ملا ہے۔ ان میں سے چار اب زندہ بھی نہیں ہیں۔‘
نوکری پر تقرری کا خط ہاتھ میں لیے وہ پانڈوا میں چکرا ودیالیہ انسپکٹر کے دفتر پہنچے۔ ان جیسے کئی اور لوگ بھی یہی خط اٹھائے اسے سمجھنےکے لیے اس دفتر پہنچ گئے۔
جس وقت نوکری پر بھرتی کا یہ مقدمہ درج ہوا تو اس وقت مغربی بنگال میں بائیں بازو کی حکومت تھی۔ اپنے حق کے لیے سائلین نے احتجاج بھی کیا تھا۔

وقت کا پہیہ آگے بڑھ گیا
سنہ 1983 میں دین بندھو بھٹاچاریہ، اچنتیا اداک، کالی داس بنرجی سمیت بہت سے دوسرے افراد نے اساتذہ کی بھرتی کے لیے امتحان دیا۔ اسی سال ملازمت کے انٹرویوز بھی ہوئے۔
کالی داس کا کہنا ہے کہ ’تب میری عمر 27 یا 28 سال ہو گی۔ میں نے پرائمری ٹیچر کا امتحان دیا۔ انٹرویو کے بعد ہمارا انتخاب بھی ہوا، لیکن وہ پینل منسوخ ہو گیا۔ ہم نے اسی سال عدالت سے رجوع کیا۔ میں نے سب کچھ فروخت کر دیا اور اتنے عرصے تک اس کیس کی پیروی کی۔‘
اسے ہگلی ضلع سے پرائمری ٹیچر کا تقرری خط بھی ملا۔
کولکتہ ہائی کورٹ میں بھرتی کا مقدمہ چل رہا تھا۔ کیس طویل عرصے تک چلتا رہا۔ معلومات کے مطابق عدالت نے کہا کہ ان کی تقرری اگست 2014 سے کی جائے گی۔
ریاست کے نکھل بنگا پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر موہن داس پنڈت نے کہا کہ جونیئر اساتذہ کو بنیادی تربیت سنہ 1983 میں دی گئی۔
اس سال ریاست بھر میں بھرتی کے دوران کچھ افراد کی بطور اساتذہ تقرری ہوئی اور کچھ کی نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق ’اس وقت کا اصول یہ تھا کہ 60 فیصد تربیت یافتہ اساتذہ کو لیا جائے گا، اور باقی جو غیر تربیت یافتہ لیکن اہل تھے، کو بعد میں لیا جا سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق دوسری طرف بھرتی نہ کیے جانے والے اساتذہ نے عدالت میں درخواست دی کہ تربیت یافتہ تمام افراد کو پرائمری اساتذہ کے طور پر تعینات کیا جائے۔
جب سنہ 2014 میں عدالتی فیصلہ ان درخواست گزاروں کے حق میں آ گیا تو پھر ریاستی حکومت اس حق میں نہیں تھی کہ ان افراد کو بھرتی کیا جائے۔ اس وجہ سے یہ مقدمہ عدالتوں میں ہی زیر التوا رہا۔
آخر کار گذشتہ برس 20 دسمبر کو ہائی کورٹ نے ان افراد کو بھرتی کرنے کا حکم سنایا۔ لیکن ریاستی حکومت نے عدالت کو مطلع نہیں کیا کہ درخواست گزار 60 سال کی عمر سے تجاوز کر چکے ہیں اور ان میں سے اب چار زندہ بھی نہیں رہے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی سوال کیا کہ ضلعی حکومت نے محکمہ تعلیم کی منظوری کے بغیر تقرری کے خطوط کیسے بھیجے۔
ریاستی حکومت کو انکوائری کے بعد عدالت کو صحیح معلومات دینی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔
اس کے بجائے انھوں نے راتوں رات تقرری کے خط بھیج دیے۔
تقرری خط پر ہگلی ڈسٹرکٹ پرائمری ایجوکیشن کونسل کی چیئرپرسن شلپا نندی کے دستخط ہیں۔
ضلع پریشد کے رکن مکوپادھیائے نے کہا کہ ’تعیناتی کے سلسلے میں عدالت کے فیصلے کے مطابق قدم اٹھایا گیا ہے۔ میرے پاس اس بارے میں مزید کچھ کہنے کو نہیں ہے۔‘

’کیس کی پیروی میں پیسہ برباد کیا اور آدھی زندگی بھی چلی گئی‘
طویل انتظار کے بعد اپائنمنٹ لیٹر مل گیا لیکن کیا سکون مل سکا ہے؟
دین بندھو بھٹاچاریہ نے کہا کہ ’میں یہ سب ختم کر رہا ہوں۔ میں نوکری کے انتظار میں تھک گیا ہوں۔ مقدمہ لڑنے اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے ہمیں زمین فروخت کرنا پڑی ہے۔ اب میں اپنی ضعیف ماں کے ساتھ رہتا ہوں۔ میں نے سوچا کہ میں طلبہ کو پڑھاؤں گا اور پھر کماؤں گا۔ بس اب یہی کافی ہے کہ ہم زندہ ہیں مگر ہمارا ایک دوست فوت ہو گیا ہے۔‘
ہگلی ضلع سے موصول ہونے والے بھرتی کے خط کے مندرجات کے مطابق ابھی انھیں سکول میں بطور ٹیچر بھرتی ہونا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے تین چار لوگوں کو کھو دیا ہے جن میں امیش تلوکدر، سید الحلدر، سوپن گھوش شامل ہیں۔ بہت سے لوگوں کے خاندان اس انتظار میں اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔‘
خانیان کے اچنتیا ادک نے بھی کہا کہ ’جو خط مجھے موصول ہوا ہے اس کے مطابق تو مجھے وانی مندر پرائمری سکول میں بطور استاد کام شروع کرنا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں بہت غریب خاندان سے ہوں۔ میں اپنی بہو کے ساتھ رہتا ہوں۔‘
ان کے مطابق انھوں نے اس کیس کی پیروی میں پیسہ برباد کیا اور اس میں آدھی زندگی بھی چلی گئی۔ ’اب میں 68 برس کا ہو گیا ہوں۔‘