ہندوؤں کی مقدس کتاب ’راماین‘ کے مطابق ہندوؤں کے دیوتا بھگوان رام ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد دشرتھ ایودھیا کے راجہ تھے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے ایک کمانڈر میر باقی نے 1528 میں بابری مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہ مسجد شہر کے وسط میں مٹی کے ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن بیسویں صدر میں یہ جگہ اتنی متنازع ہو گئی کہ دو مذاہب کے لوگ آمنے سامنے آن کھڑے ہوئے۔
فائل فوٹوہندوؤں کی مقدس کتاب ’راماین‘ کے مطابق ہندوؤں کے دیوتا بھگوان ’رام‘ ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد دشرتھ ایودھیا کے راجہ تھے۔ رام نے بھگوان کے روپ میں ان کے گھر جنم لیا تھا۔
رام ہندوؤں کے ایک اہم دیوتا ہیں۔ ہندو روایات کے مطابق سیتا، رام کی اہلیہ تھیں۔ انھیں ’سیتا ماتا‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق موجودہ نیپال کے جنک پور علاقے سے تھا۔
رام اور سیتا کے دو بچے تھے جن کے نام ’لو‘ اور ’کُش‘ تھے۔ رام اور ان کے خاندان کے افراد کے نام سے منسوب ایودھیا میں درجنوں مندر، عمارتیں اور گھاٹ بنے ہوئے ہیں۔
یہ بہتقدیم نہیں ہیں اور بیشتر مغل حکمرانوں اور اودھ کے نوابین کے عہد میں تعمیر کی گئی تھیں۔ ایودھیا اتر پردیش کے دارالحکومت تاریخ شہر لکھنؤ کے مشرق میں 140 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔
یہ دریائے گھاگھرا کے کنارے بسا ہوا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ گھاگرا ندی کو ’سریو‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ہندو سریو ندی کو مقدس تصور کرتے ہیں۔
بابری مسجد کہاں واقع تھی
مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر سے منسوب بابری مسجد بابر نے نہیں بنوائی تھی۔ لودھی حکمرانوں کے خلاف اودھ اور بنگال کی اپنی مہم کے دوران بابر اس راستے سے گزرے تھے۔ ان کے ایک کمانڈر میر باقی نے 1528 میں بابری مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہ مسجد شہر کے وسط میں مٹی کے ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کی گئی تھی۔
یہ شہر کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ اس میں تین بڑے گنبد تھے اور گنبد اور صحن کے بعد کھلا ہوا حصہ تھا۔ تین طرف سے اس میں چار دیواری تھی۔ اس میں تسلسل کے ساتھ 1949 تک نماز ادا کی جاتی رہی تھی۔
مسجد جس علاقے میں واقع تھی اس کے اطراف میں مسلمانوں کی آبادی تھی۔ کئی محلے ملی جلی آبادی کے تھے۔ آس پاس میں بہت سے مندر بھی تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہاں مسلم آبادی کم ہوتی گئی۔

رام مندر کا تنازع کب اور کیوں شروع ہوا ؟
1885 میں انگریزوں کے دور حکومت ميں ایودھیا کے ایک سادھو رگھوبر داس نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں ایک درخواست داخل کی جس میں انھوں نے بابری مسجد کے باہر ایک چھتری بنانے کی اجازت مانگی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ اس وقت بابری مسجد پردعویٰ نہیں کیا گیا تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ہندو مہا سبھا اور آر ایس جیسی ہندو تنظیمیں وجود میں آ چکی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کہا جانے لگا یہ مسجد اس مقام پر بنائی گئی ہے جہاں بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان دعوؤں کے تاریخی شواہد یا ریفرنس نہیں ملتے ہیں۔ ہندو فریق کا کہنا تھا کہ یہ مسجد رام مندر توڑ کر اس کے مقام پر بنائی گئی ہے۔
22 دسمبر 1949 کی رات کے اندھیرے میں ایودھیا کے کچھ سادھوؤں نے بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے منبر کے مقام پررام کی ایک چھوٹی مورتی رکھ دی اور اگلی صبح یہ افواہ پھیلائی کہ بھگوان رام بابری مسجد میں اپنی پیدائش کے مقام پر ’ظاہر‘ ہو گئے ہیں۔ چند سادھو مسجد کے باہربھجن کیرتن کرنے لگے۔
مسجد کے باہر تعینات پولیس اہلکار نے جو رپورٹ درج کی تھی اس میں مورتی رکھنے والے سادھوؤں کے نام درج کرائے گئے تھے۔
مقامی کلکٹر کے کے نائر نے بابری مسجد پر تالہ لگوا دیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اتر پردیش کے کانگریس کے وزیر اعلی جی بی پنت کومسجد سے مورتی ہٹانے کی ہدایت کی۔ پنت نے نہرو کو جواب دیا کہ اگرمورتی ہٹائی گئی تو ایودھیا میں فساد برپا ہو جائے گا۔ اس وقت کے فیض آباد کے کانگریس کے رکن پارلیمان بابا راگھو داس نے بھی مسجد سے مورتی ہٹانے کی سخت مخالفت کی تھی۔
مؤرخ عرفان حبیب نے بی بی سی کوچند برس قبل دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تقسیم ہند کے بعد ملک میں مذہبی منافرت اپنے عروج پر تھی۔ ہندو تنظیمیں انتہائی سرگرم تھی اور ملک کے مسلمانوں کے خلاف فضا بہت خراب تھی۔ جس کے نتیجے میں دسمبر 1949 سے بابری مسجد میں نماز ادا نہیں کی جا سکی۔
کلکٹر کے کے نائر سبکدوش ہونے کے چند برس بعد بی جے پی کی پیشرو جماعت جن سنگھ کے پہلے رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔
- 1950 میں گوپال ویشارد نے فیض آباد ضلع عدالت میں درخواست دائر کی کہ ہندوؤں کو بابری مسجد میں رکھی ہوئی رام کی مورتی کو پوجنے کا حق دیا جائے۔
- 1950 میں ہی ایک دیگر سادھو پرم ہنس رام چندر داس نے بھی ایک پٹیشن کے ذریعے مسجد میں روزانہ پوجا کی اجازت مانگی۔
- 1959 میں پہلی بار سادھوؤں کے ایک سکول ’نرموہی اکھاڑہ‘ نے پورے بابری مسجد کمپاؤنڈ پر دعوے کی پٹیشن داخل کی۔
- 1961 میں اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ نے بابری مسجد کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کی پٹیشن ڈالی۔
- 1986 میں کانگریس کی حکومت تھی اور راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے، اس وقت فیض آباد کی ایک ذیلی عدالت نے مسجد کا تالہ ہندو عقید مندوں کی پوجا کے لیے کھولنے کا حکم دیا۔
- یہی وہ وقت تھا جب آر ایس ایس، وشوہندوپریشد اور بجرنگ دل جیسی جماعتوں نے بی بی جے پی کی حمایت سے رام جنم بھومی کو بابری مسجد سے آزاد کرانے کی ملک گیر مہم شروع کی۔ رفتہ رفتہ یہ مہم زور پکڑنے لگی۔ آزاد ہندوستان میں یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اورسب سے منظم تحریک تھی۔
- 1989 میں خود بگھوان رام کے نام سے ملکیت کا ایک مقدمہ الہ آبادہائی کورٹ میں دائر کیا گیا۔
- 25 ستمبر1990 کو بی جے پی کے سینئیر رہنما ایل کے اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ مندر سے ایودھیا تک ایک رتھ یاترا کی مہم شروع کی۔ اس مہم میں لاکھوں ہندو شریک ہوئے۔
- 1990 میں زبردست سکیورٹی کو توڑتے ہوئے ہزاروں کارسیوک یعنی رضاکار اکتوبر میں پیدل ایودھیا پہنچنا شروع ہو گئے۔ ایک مرحلے پر ایسا لگا کہ یہ ہجوم بابری مسجد پر یلغار کر سکتا ہے۔ اس وقت ریاست میں ملائم سنگھ کی حکومت تھی۔ انھوں نے کارسیوکوں کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کا حکم دیا جس میں کم ازکم آٹھ کارسیوک مارے گئے۔
حتمی مارچ کی کال
دسمبر 1992 میں بی جے پی رہنما ایل کے اڈوانی، اٹل بہاری واجپئی اور ہندو تنظیموں کے اعلیٰ رہنماؤں نے ایودھیا کی طرف حتمی مارچ کی کال دی۔ پورے ملک سے لاکھوں کارسیوک ایودھیا پہنچنا شروع ہو گئے۔ یہ کارسیوک بابری مسجد کے نزدیک ایک میدان میں جمع تھے۔
6 سمبر 1992 کو صبح دس بجے کے قریب کارسیوکوں کے ایک ہجوم نے بابری مسجد پر حملہ کر دیا اور چند گھنٹوں میں بابری مسجد زمین بوس کردی گئی۔ اسی وقت وہاں ترپال اور ٹن سے گھیر کر ایک عارضی علامتی مندر بنا دیا گیا۔ عدالت نے جو جس حالت میں تھا اسے اسی حالت برقرار رکھنے کا حکم دیا۔
نرسمہا راؤ کی کانگریس حکومت نے متنازع زمین کے اطراف کی 27 ایکڑ زمین ایکوائر کر لی اور اس کے اطراف میں خاردار باڑیں لکا دی گئیں۔
30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک کے مقابلے دو کی اکثریت سے منہدم بابری مسجد کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے مقدمے کے دو ہندو فریقوں اور ایک سنی وقف بورڈ کو برابربرابر دینے کا حکم دیا۔
9 نومبر سنہ 2019 کو سپریم کورٹ نے متّفقہ طورپر ہندو فریق کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت عظمی نے مرکزی حکومت کو رام مندرکے تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کرنے کا حکم دیا۔ اس نے حکومت کو یہ ہدایت بھی کی کہ سنی وقف بورڈ کو ایودھیا کے اندر کسی ’مناسب‘ مقام پرمسجد کے لیے پانچ ایکڑ اراضی مہیا کرائے۔
5 اگست 2020 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندرکا سنگ بنیاد رکھا۔
22 جنوری 2024 کو وزیر اعظم نریندر مودی ایودھیا میں ایک بڑی تقریب میں اس کا باضاطہ افتتاح کر رہے ہیں۔
مسجد کے لیے زمین ایودھیا شہر سے 25 کلومیٹر دور ایک گاؤں میں دی گئی ہے۔ فیصلے کے بعد وہ ابھی تک خالی پڑی ہے۔