رام مندر: ’ملک صدیوں کی ذہنی غلامی سے باہر آ گیا،‘ وزیر اعظم مودی کا اعلان اور مسجد ’محمد بن عبداللہ‘ کا نوحہ

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے رام مندر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انڈیا میں ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ جبکہ اس مندر سے 25 کلومیٹر دور وہ مقام ہے جہاں دہائیوں قبل منہدم کی جانے والی بابری مسجد کو تعمیر ہونا تھا۔ بی بی سی نے اس گاؤں کا دورہ کیا ہے اور وہاں کے شہریوں سے بات کی ہے۔

ایودھیا میں ہندو منتروں، جاپ اور روایتی مذہبی رسوم و رواج کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی نے نو تعمیر شدہ رام مندر کا باضابطہ طور پر افتتاح کر دیا ہے۔

رام مندر کے افتتاح کے لیے مندر کے احاطے میں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا اور مودی اس تقریب کے محور تھے۔ رام مندر کی تقریب کو پورے ملک میں درجنوں ٹی وی چینلوں کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا جس میں وزیر اعظم مودی نے اسے ملک میں ایک ’نئے عہد کے آغاز‘ سے تعبیر کیا۔

مذہبی رسومات کے بعد انھوں نے وہا ں موجود ہزاروں سادھو سنتوں اور اہم شخصیات سے خطاب کیا۔ ان کی بیشتر تقریر بھگوان رام پر مرکوز تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ پل صدیوں کے طویل انتظار کے بعد آیا ہے۔ اس پل کو کھونا نہیں ہے۔ یہ انڈیا کے نئے عہد کا آغاز ہے۔ ہمیں اس وقت آئندہ ایک ہزار سال کے بھارت کی بنیاد رکھنی ہے۔‘

انھوں نے اپنی طویل تقریر میں یہ بھی کہا کہ ’دیو سے دیش اور رام سے قومی شعور کی تخلیق سے ہی قوم کی تعمیر ہو گی۔‘

انھوں کہا کہ ’ملک صدیوں کی غلامی کی ذہنیت کی زنجیر توڑ کر باہر آ گیا ہے۔‘

اس تقریب میں ملک کے اعلی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی شریک تھے۔ وہ سٹیج پر وزیر اعظم کی بغل میں بیٹھے تھے۔

رام مندر بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کا محور تھا۔ اس کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ یہ ہندوؤں کی بالادستی کی علامت ہے۔ اس کے ذریعے یہ سیاسی پیغام بھی دیا گیا کہ بی جے ہی ملک میں ہندو مذہب اور ثقافت کی سب سے بڑی علامت ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے چار برس قبل رام مندر کو بابری مسجد کی جگہ تعمیر کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے میں حکام کو بابری مسجد کی ایودھیا میں متبادل جگہ تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم بھی دیا تھا۔

یہ زمین ایودھیا کے دھننی پور گاؤں میں الاٹ کی گئی ہے۔ مسجد بنانے کی ذمہ داری سرکاری ادارے، سُنی وقف بورڈ، کو دی گئی تھی اور وقف بورڈ نے اس مقصد کے لیے انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ٹرسٹ بھی قائم کیا تھا۔

اس فاؤنڈیشن نے مسجد کے ساتھ ساتھ کینسر ہسپتال اور ایک کلچرل میوزیم بنانے کا ایک نقشہ بھی پیش کیا تھا۔ حال ہی میں اس نے اس کی جگہ مسجد کا ایک نیا نقشہ پیش کیا ہے جس میں مسجد کا نام ’محمد بن عبداللہ ‘ لکھا گیا ہے۔

چار برس گزرنے کے بعد ابھی تک اس مسجد کی بنیاد نہیں رکھی جا سکی ہے۔ نزدیکی دیہات کے لوگ اب مایوس ہونے لگے ہیں۔

اس گاؤں کے رہائشی شادان خان کہتے ہیں کہ ’چار سال ہو گئے مگر کچھ نہیں ہوا۔ جو صورتحال پہلے تھی آج بھی وہی ہے۔ بس زمین ناپ کر چھوڑ دی ہے۔‘

اسی گاؤں کے ایک اور رہائشی نعیم خان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں میں مسجد کی تعمیر کے حوالے سے اب مایوسی پیدا ہو گئی ہے۔

’ایسا لگ رہا ہے کہ خالی کاغذوں پر ہی زمین دی گئی ہے۔ یہاں حقیقت میں کچھ نہیں ہوا ہے۔ کیا ریاست کے وزیر اعلیٰ صرف ہندوؤں کے وزیر اعلیٰ ہیں، ہم مسلمانوں کے وزیر اعلیٰ نہیں ہیں۔ یا تو کھلے عام اعلان کروا دیں کہ ہم ہندوؤں کے ہی وزیر اعلیٰ ہیں اور ہمیں مسلمانوں سے کوئی مطلب نہیں۔‘

نعیم خان مزید کہتے ہیں کہ ’اگر یہی سب کرنا تھا تو سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس میں یہ زمین بھی نہ دیتے۔‘

تصویر
BBC

دھننی پور کے سلمان بیگ کا بھی یہی کہنا ہے کہ اب لوگ امید کھو چکے ہیں۔

’ہمیں کیا پورے ملک کو لگ رہا ہے کہ کچھ نہیں ہونا ہے۔ یہ صرف ایک انتخابی ایجنڈا ہے۔ یہ سیاست ہے اور کچھ بھی نہیں۔ مسلمانوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔‘

ارشد افضال خان ایودھیا کے ایک سینیئرصحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مسجد کی تعمیر کے لیے سب سے پہلے فنڈ اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کمی بھی پوری ہو جاتی اگر سُنی وقف بورڈ نے خود عوام سے رابطہ کیا ہوتا۔ لوگوں کو اپنی کوششوں میں ملوث کیا گیا ہوتا تو آج صورتحال یہ نہ ہوتی۔ سُنی وقف بورڈ نے مکمل نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔‘

پیر کے روز بی جے پی نے رام مندر کا اپنا وعدہ تو پورا کر دیا ہے لیکن یہ تنازع یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب یہ بنارس اور متھرا کی مسلم عبادت گاہوں کو بھی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔

یہ سیکولرزم اور ہندو اکثریتی جمہوریت کی کشمکش ہے۔ دو مہینے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں رام مندر کو ایک بڑی سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اور اب پارلیمانی انتخابات ہی یہ طے کریں گے کہ ’سیکولر انڈیا‘ کا سیاسی مستقبل کیسا ہو گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US