لکھنؤ اور بنارس کے درمیان واقع ایودھیا ہندو دھرم کے ایک اہم مرکز کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے دیوتا بگھوان رام کی شکل میں یہیں پیدا ہوئے تھے۔

32 برس قبل بابری مسجد کے گرائے جانے کے واقعے نے ایودھیا شہر کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج کل پورے انڈیا سے ہزاروں ہندو عقیدت مند اس شہر میں جمع ہیں۔
جگہ جگہ رام بھگتوں کی ٹولیاں ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اور بھجن، کیرتن گاتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
ایودھیا جشن کے ماحول میں ڈوبا ہوا ہے۔

پتھروں اور سنگ مرمر کا رام مندر اور کارسیوکوں کی خوشی
رام مندر کی تعمیر حکمراں بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت میں ہندو تنظیموں کی ایک طویل تحریک کے بعد وجود میں آئی ہے۔
عشروں تک چلنے والی اس تحریک میں ہزاروں ہندوؤں نے حصہ لیا تھا۔ چھ دسمبر 1992 کو ہندو کارسیوکوں نے بابری مسجد کو گرا دیا تھا اور طویل مقدمے کے بعد ملک کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کا فیصلہ رام مندر کے حق میں دیا تھا، جہاں حکومت کی سرپرستی میں رام مندر تعمیر کیا گیا ہے۔
رام مندر کی تحریک میں ایودھیا کے سنتوش دوبے بھی شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ بابری مسجد گرانے میں حصہ لینے میں انھیں کوئی افسوس نہیں ہے۔ افسوس کس بات کا۔ بھگوان رام کے لیے اگر مجھے جان بھی دینی پڑے تو میں دے دوں گا۔ اگر رام کے لیے کچھ لوگ مارے گئے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔‘
40 برس سے ایودھیا کے مسلمان خوف اور اندیشوں کے بیچ زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اب بس یہی سوچ رہے ہیں کہ جو بھی ہے اب ان کے لیے حالات بہتر ہو جائیں۔
ایک مقامی صحافی علمدار عابدی کہتے ہیں کہ ’مسلمان اس لیے خوش ہیں کہ مندر بن جانے سے ماضی میں جو جو کشیدگی اور فسادات کا ماحول رہتا تھا اس سے نجات مل گئی۔‘

مندر کے جوش میں ایودھیا کے خاموش مسلمان
منہدم بابری مسجد سے تھوڑی دوری پر محمد شاہد کا مکان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’رام مندر سے مجھے کیا خوشی حاصل ہو گی؟ میں نے فسادات میں اپنے والد اور چچا کو کھویا، میری مسجد چلی گئی۔ میرا کاروبار تباہ کر دیا گیا۔ مجھے کس بات کی خوشی ہو گی۔ میں نے سب کچھ کھو دیا ہے۔‘
انھوں نے ان سب مصائب کے باوجود ایودھیا نہیں چھوڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے آباؤ اجداد کا وطن نہیں چھوڑ سکتا، جو ہو گا اس کا سامنا کریں گے۔‘
سید اخلاق احمد لطیفی صدیوں پرانے ایک آستانے کے بزرگ ہیں۔ وہ فسادات میں زندہ تو بچ گئے لیکن ان کے مکان اور مسجد کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
ابھی نئے مندر کی توسیع میں ان کے گھر کا کچھ حصہ حکومت نے لے لیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں آستانہ ہے، مسجد ہے، مدرسہ ہے۔ ہمیں اس کی رکھوالی کرنے والے ہیں۔ ہم چھوڑ کر کہاں جائیں گے۔
’ہم کبھی نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ یہ ہمارا وطن ہے۔ یہیں مریں گے، یہیں مٹی بھی ہو گی۔ ساڑھے چار سو برس سے ہمارے سارے خاندان کے لوگ یہاں دفن ہے۔ ہم یہاں سے نہیں جانے والے۔‘

ایودھیا شہر کیسا ہے؟
لکھنؤ اور بنارس کے درمیان واقع ایودھیا ہندو دھرم کے ایک اہم مرکز کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے دیوتا بگھوان رام کی شکل میں یہیں پیدا ہوئے تھے۔
شہر میں رام اوران کے خاندان سے منسوب بہت سے مندر بنے ہوئے ہیں۔
یہ بیشتر مسلم حکمرانوں کے عہد میں تعمیر کیے گئے تھے۔ بابری مسجد کا جو تنازع تھا وہ اس بات کا تھا کہ بہت سے ہندو یہ مانتے تھے کہ مغل حکمراں ظہیرالدین بابر نے بگھوان رام کی جائے پیدائش پر بنے ہوئے مندر کو توڑ کر اس کی جگہ یہ مسجد بنوائی تھی۔


مسلم تہذیب اور ثقافت کا اہم مرکز ایودھیا
رام مندر کی تحریک سے پہلے ایودھیا ایک پر امن شہر ہوا کرتا تھا۔ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی صدیوں سے یہاں رہتے چلے آ رہے ہیں۔
یہاں مندروں کے درمیان جگہ جگہ مساجد، مقبرے، درگاہیں اور قدیم قبریں اس شہر میں مسلمانوں کی صدیوں سے آبادی کا پتہ دیتی ہیں۔ بہت سے قبرستان لودھی حکمرانوں اور خلجی عہد کے ہیں۔
یہاں دو مسلم پیغمبروں حضرت شیث اور حضرت نوح سے منسوب دو روضے بھی ہیں۔ ان کا ذکر شہنشاہ اکبر کے مورخ ابوالفضل فیضی نے چار سو سال پہلے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے۔
شہر کے ایک سرکردہ کارکن خالق احمد خان نے ایودھیا کے مسلم مقامات کی فہرست تیار کی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرکاری ریکارڈ کے مطابق ایودھیا میں 55 مساجد، 22 قبرستان، 22 مزار اور 11 امام باڑے ہیں۔ یہ سبھی موجود ہیں اور ان میں بیشتراستعمال میں ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ بعض مقامات کی نوعیت بدلنے کے لیے کتبوں وغیرہ کو اکھاڑ دیا گیا ہے یا ان کی عبارت پر پوتائی کر دی گئی ہے اور مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں کی مدد سے موجودہ ریکارڈ کو غائب کر دیا گیا ہے۔
لیکن قدیم ریکارڈ اور گزٹ وغیرہ میں ان مقامات کی ساری تفصیلات درج ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایودھیا سے مسلمانوں کے نشانات مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
مسلمانوں کے خوف اور اندیشے
ایودھیا میں جو قدیم قبرستان ہیں وہ بہت بڑے رقبوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے قبرستان اور مقبرے ہیں، جن کے اطراف میں مسلم آبادیاں ختم ہو چکی ہیں اور یہ قبرستان اب ویران پڑے ہیں۔
ایودھیا وقف بورڈ کے صدر محمد اعظم قادری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب سے رام مندر کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے زمینی مافیاؤں کی نگاہیں صرف قبرستان اور وقف کی املاک پر لگی ہوئی ہیں۔ کئی ایسے قبرستان اور وقف کی جائیدادیں ہیں جن پر لوگ قبضہ کر چکے ہیں۔ یہاں ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ رام مندر کی مزید توسیع کی جائے گی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اس میں ہمارے بہت سے قبرستان اور مقبرے وغیرہ بھی لے لیے جائیں گے۔‘
قاضیانہ محلے کی لیلت النسا مندروں میں چڑھاوے اور سادھوؤں کے پہننے کی مخصوص لکڑی کے چپل بناتی ہیں۔ ان کا گھر رام مندر کی باہری دیوار سے ملا ہوا ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کا گھربھی لیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ سن رہے ہیں کہ ہم لوگوں کو بھی یہاں سے ہٹا دیا جائے گا۔ ہم تو یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔ ہم تو یہیں رہیں گے، خواہ کچھ بھی ہو۔‘

ایودھیا اور ملک میں بدلتے ہوئے رشتے
ایودھیا ویسے تو ہندو دھرم کے ایک اہم شہر کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی صدیوں سے رہتے چلے آ رہے ہیں۔
مسلم حکمرانوں کے دور میں یہ شہر شمالی انڈیا میں مسلمانوں کی تہذیب، مذہب اور ثقافت کا ایک اہم مرکز تھا۔
رام مندر کی تحریک سے پہلے یہ ایک پر امن شہر ہوا کرتا تھا۔ ایک ملی جلی تہذیب تھی یہاں کی۔ لوگ میل ومحبت سے زندگی گزار رہے تھے۔
سید اخلاق لطیفی جیسے بہت سے مسلمان اب اسے کھویا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کھونے کا احساس تو بہت شدت سے ہوتا ہے۔ یہاں بہت اجھا ماحول ہوا کرتا تھا۔ اب بھی کچھ لوگ ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جب وقت آتا ہے، جب فیصلہ کن گھڑی آتی ہے تو کون بدل جائے کچھ نہیں کہا جا جا سکتا۔‘
اخلاق لطیفی کہتے ہیں ’یہ ماحول اب ہر جگہ بدل رہا ہے۔ بدلتے ہوئے انڈیا پر جہاں بھی نگاہ ڈالیے اب تو ہر طرف تقسیم نظر آتی ہے۔ سب پر اس کا اثر پڑ رہا ہے، جو جہاں ہے وہیں اس کو محسوس کر رہا ہے۔ اس کا کیا کیا جائے، یہ زہر تو پھیلتا ہی جا رہا ہے۔‘
ایودھیا میں ایک بہت وسیع رام مندر بنایا گیا ہے۔ پورا شہر اب تبدیل ہو چکا ہے۔
رام مندر کی تعمیر نے مذہبی قوم پرستی کی ایک نئی بنیاد رکھی ہے۔ رام ندر کی تحریک صرف مندر مسجد کا تنازع نہیں تھی۔ اس نے انڈیا کی سیاست کا رخ بدل دیا ہے۔
انڈیا ایک ایسی جمہوریت کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں انڈیا مسلمان بدلتے ہوئے پس منظر میں انجانے اندیشوں سے گھرا ہوا محسوس کر رہا ہیں۔