’نامناسب رویہ‘ اور مہمان نوازی نہ ہونے کا شکوہ: کیا وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا کے دورہ لاہور سے سیاسی تلخی مزید بڑھ گئی؟

سہیل آفریدی نے سنیچر کو لاہور میں پی ٹی آئی ی طلبہ تنظیم انصاف آرگنائزیشن (ائی ایس ایف)، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے علاوہ لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک بھی گئے، جہاں پی ٹی آئی کے کارکن جمع ہو گئے۔
سہیل آفریدی
Getty Images

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کا دورہ لاہور عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اُن کے پنجاب اسمبلی کے دورے کے دوران دھکم پیل اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف سخت زبان کے استعمال اور جواب میں پنجاب حکومت کے بھی سخت ردعمل کی وجہ سے ماہرین کے مطابق سیاسی تلخی مزید بڑھ گئی ہے۔

اس دوران خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر مینا خان آفریدی اور صحافیوں کے مابین ہونے والے مکالمے پر بھیسوشل میڈیا پر تنقید ہو رہی ہے۔

سہیل آفریدی کارکنوں کے ہمراہ جمعے کو بذریعہ موٹروے لاہور پہنچے تھے، جہاں ٹھوکر نیاز بیگ پر تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے اُن کا استقبال کیا۔

دورے کے آغاز پر ہی سہیل آفریدی نے الزام عائد کیا کہ پنجاب حکومت نے موٹروے کے مختلف انٹرچینجز پر تحریک انصاف کے کارکنوں کو روکا جبکہ لاہور آمد پر بھی قافلے میں شامل گاڑیوں کو روکا گیا۔

سہیل آفریدی لاہور کا دورہ کیوں کر رہے ہیں؟

اسلام آباد سے لاہور کے سفر کے دوران مختلف مواقع پر سہیل آفریدی نے بتایا کہ وہ عمران خان کی ہدایت پر لاہور کا دورہ کر رہے ہیں، جس کا مقصد پی ٹی آئی کی سٹریٹ موومنٹ کے لیے لوگوں کو متحرک کرنا ہے۔

سہیل آفریدی نے سنیچر کو لاہور میں پی ٹی آئی کی طلبہ تنظیم انصاف آرگنائزیشن (آئی ایس ایف)، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے علاوہ عمران خان کی رہائشگاہ زمان پارک کا دورہ بھی کیا، جہاں پی ٹی آئی کے کارکن جمع ہو گئے۔

اس سے قبل وہ پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں سے ملاقات کے لیے کوٹ لکھپت جیل بھی گئے لیکن اُنھیں شاہ محمود قریشی، میاں محمود الرشید، یاسمین راشد اور عمر سرفراز چیمہ سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

جس کے بعد اُنھوں نے ان اسیر رہنماؤں کے اہلخانہ سے لاہور میں ملاقات کی۔

لاہور ہائی کورٹ بار میں خطاب کرتے ہوئے سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ وہ وکلا برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کی ’سٹریٹ موومنٹ‘ میں پارٹی کارکنوں کا ساتھ دیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ’سٹریٹ موومنٹ‘ شروع کرنے کے احکامات جاری رکھے ہیں اور اُن پر بھاری ذمے داری ہے۔

سہیل آفریدی کی جانب سے اپنے دورے کے دوران بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ لاہور آمد پر مہمان نوازی کی روایات کا بھرم نہیں رکھا جا رہا۔

جمعے کو پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا کے گارڈز اور اسمبلی کی سکیورٹی کے درمیان دھکم پیل اور صحافیوں کے ساتھ صوبائی وزیرمینا خان آفریدی کی گفتگو کو سیاسی مبصرین ملکی سیاست کے لیے بدقسمتی قرار دے رہے ہیں۔

مہمان نوازی نہ ہونے کا شکوہ اور پنجاب اسمبلی میں تلخی

سہیل آفریدی کے دورے کے دوران تلخی کا معاملہ سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہے اور سینیئر صحافی بھی اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے ایکس پر لکھا کہ ’پنجاب کی مہمان نوازی کی روایت ہے کہ مہمان کو چائے یا کھانے پر مدعو کیا جاتا ہے۔ لہذا گورنر یا وزیرِ اعلی سہیل آفریدی کو بھی چائے یا کھانے پر مدعو کریں، اس سے سیاسی تلخی کم ہو گی۔‘

مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا سے بھی کہتے ہیں کہ وہ آداب مہمانی کو برقرار رکھیں۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے دورے کی کوریج کرنے والے صحافی اور تجزیہ کار عمر دراز گوندل کہتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور بھی اپنے دور میں لاہور کے دورے پر آئے تھے لیکن اس وقت اُنھوں نے پنجاب حکومت کے ساتھ معاملات طے کیے تھے۔

اُن کے بقول علی امین گنڈا پور سے کہا گیا تھا کہ وہ پنجاب یا لاہور کی تنظیم سے دُور رہیں گے، اس وقت تحریک انصاف کی رہنما عالیہ حمزہ کو پریس کانفرنس میں بھی نہیں بلایا گیا تھا۔

عمر دراز گوندل کے بقول ’سہیل آفریدی کے اس دورے کے ذریعے پی ٹی آئی ایک طرح سے یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ پنجاب حکومت پریشان ہوتی ہے یا نہیں؟ تو اُنھیں لگتا ہے کہ پنجاب حکومت اس دورے کو لے کر پریشان تھی۔‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ کسی پاکستانی شہری کو ملک میں کسی دوسری جگہ جانے سے نہیں روکا جا سکتا اور سہیل آفریدی کا یہ دورہ لاہور میں تحریک انصاف کی تنظیم کو متحرک کرنے کی ایک کوشش تھی، جو ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کے لیے ہضم کرنا اتنا آسان نہیں۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ سہیل آفریدی کی سیاست کا محور یہی ہے کہ وہ عمران خان کو کچھ نہ کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔

اُن کے بقول اگر وہ لاہور آئے تھے تو پنجاب حکومت کو بھی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اُنھیں سرگرمیاں کرنے کی اجازت دینی چاہیے تھے۔

سلمان غنی کے بقول کیونکہ فریقین کے مابین پہلے سے ہی بہت تناؤ موجود تھا تو وہ اس دورے کی وجہ سے مزید بڑھ گیا۔

پنجاب اسمبلی میں پیش آنے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ جس طرح کے سوالات کیے گئے، وہ طرز عمل درست نہیں تھا اور اس کے جواب میں بھی جو کچھ کہا گیا، وہ بھی اخلاقی تقاضوں کے مطابق نہیں تھا۔

پنجاب حکومت کا ردِعمل

دوسری جانب پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری کہتی ہیں کہ خیبر پختونخوا کے وزرا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان پر افسوس ہے۔

سنیچر کو لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے سہیل آفریدی کے دورے کے راستے میں کوئی رکاوت نہیں ڈالی بلکہ اُنھیں پنجاب پولیس کی جانب سے سکیورٹی بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ سہیل آفریدی ہمارے مہمان ہیں لیکن پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور اُن کے رویے پر افسوس ہے۔

عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے مراسلہ پہلے ہی جاری کر دیا گیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US