ایسی اطلاعات ہیں جن میں حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو تعمیراتی کام کے لیے چین اور انڈیا سمیت دیگر ممالک سے 70 ہزار مزدوروں کی ضرورت ہے۔ حماس کی طرف سے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کے بعد تعمیراتی شعبے میں زیادہ مزدوروں کی اشد ضرورت ہے۔
گذشتہ ہفتے انڈیا کی شمالی ریاست ہریانہ کی ایک وسیع و عریض رقبے پر محیط یونیورسٹی کے اندر انتہائی سخت سردی میں سینکڑوں افراد لائن بنا کر اپنی باری کے انتظار میں کھڑے تھے۔
چونکہ سردی زیادہ تھی اس لیے ان افراد نے گرم کپڑے اور یہاں تک کہ کمبل بھی اوڑھ رکھے تھے۔
انتظار میں کھڑے ان لوگوں میں سے بیشتر کے کندھوں پر بیگ ہیں اور دوپہر کے کھانے کے ڈبے بھی۔ یہ تمام افراد یہاں کنسٹرکشن انڈسٹری سے متعلقہ ملازمتوں کا امتحان دینے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ان ملازمتوں کا اعلان حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے کیا گیا ہے۔
ان ہی میں سے ایک رنجیت کمار ہیں جو یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ پینٹر، سٹیل فکسر، مزدور، آٹوموبائل ورکشاپ ٹیکنیشن جیسا کام کرنا جانتے ہیں اور ماضی میں ایک ادارے کے لیے بطور سروئیر بھی کام کر چکے ہیں۔ رنجیت کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اس امتحان کو پاس کریں۔
31 برس کے رنجیت تعلیم یافتہ ہیں جبکہ اس کے علاوہ انھوں نے ایک سرکاری ادارے سے ڈیزل مکینک کا ’ٹریڈ ٹیسٹ‘ بھی پاس کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود وہ کبھی بھی انڈیا میں 700 روپے سے زیادہ دیہاڑی کمانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل میں اسی کام کے لیے انھیں رہائش اور میڈیکل الاؤنس کے علاوہ ماہانہ 1648 ڈالر (137000 انڈین روپے) تنخواہ مل سکتی ہے۔
رنجیت نے گذشتہ برس ہی اپنا پاسپورٹ بنوایا ہے اور اب وہ اسرائیل کا ورک ویزا حاصل کر کے اپنے خاندان کے سات افراد کی کفالت کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں روزگار کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے جبکہ ڈگریاں ہونے کے باوجود میں ابھی تک مالی طور پر مستحکم نہیں ہو سکا ہوں۔‘
انڈیا میں ایسی اطلاعات ہیں کہ اسرائیل کو تعمیراتی کام کے لیے انڈیا سمیت دیگر ممالک سے 70 ہزار مزدوروں کی ضرورت ہے۔ حماس کی طرف سے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملوں کے بعد تعمیراتی شعبے میں زیادہ مزدوروں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسرائیل ان تمام فلسطینی مزدوروں کو وہاں سے نکال چکا ہے جو اسرائیل میں یہی کام کر رہے تھے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل پہلے مرحلے میں انڈیا سے دس ہزار مزدوروں کو بھرتی کرے گا۔ ریاست اُترپردیش اور ہریانہ کے رہائشیوں سے اس وقت اس ضمن میں درخواستیں وصول کی جا رہی ہیں۔ ہریانہ کے شہر روہتک میں مہارشی دیانند یونیورسٹی کی انتظامیہ مزدوری کی غرض سے اسرائیل جانے کے خواہشمند شہریوں کے پریکٹیکل ٹیسٹ لے رہی ہے۔
دہلی میں موجود اسرائیل کے سفارتخانے نے اس پیش رفت پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
رنجیت کمار کی طرح اسرائیل میں ملازمت کے خواہشمند قطار میں لگے یہ افراد انڈیا کی وسیع اور غیر یقینی کا شکار غیر رسمی معیشت کا حصہ ہیں، جو بغیر کسی باقاعدہ معاہدے اور دیگر فوائد کے ہی کام کر رہے ہیں۔
رنجیت کمار کی طرح بہت سارے افراد کالج سے تعلیم یافتہ ہیں مگر ملازمت کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یہ افراد محض 700 روپے دیہاڑی پر تعمیراتی شعبے میں ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں، جہاں مہینے میں 15 سے 20 دن کام ملتا ہے۔
قطار میں کھڑے بیشتر افراد کے ہاتھوں میں سی وی بھی ہے۔ اُن میں سے ایک کی سی وی پر یہ درج ہے کہ ’آئی ایم اے گڈ ٹیم پلیئر ود مائی ٹیم۔‘
ان میں سے بہت سے لوگ کمائی کو بڑھانے کے لیے ایک سے زیادہ ملازمتیں اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ اپنے دگرگوں معاشی حالات اور محدود مواقع کا ذمہ دار انڈیا کی سنہ 2016 کی ڈی موناٹِئزیشن پالیسی اور سنہ 2020 میں کورونا کی وبا کے دوران لگائے گئے سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔
کچھ دوسرے مزدور سرکاری امتحانات میں سوالیہ پرچہ لیک ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے غیر قانونی طور پر امریکہ اور کینیڈا میں داخل ہونے کے لیے ایجنٹوں کو ادائیگی کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں پیسے جمع کرنے میں مشکل پیش آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سب چیزوں نے انھیں ایک محفوظ، زیادہ منافع بخش بیرون ملک ملازمت تلاش کرنے کی طرف جانے کی ترغیب دی تھی۔
اسی قطار میں کھڑے سنجے ورما گریجوئیٹ ہیں اور انھوں نے تکنیکی تعلیم کا ڈپلومہ بھی حاصل کر رکھا ہے، گذشتہ چھ برس کے دوران وہ مختلف سرکاری محکموں کی جانب سے مشتہر اسامیوں پر 11 مرتبہ اپلائی کر چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ انڈیا میں اس وقت ’بہت کم ملازمتیں دستیاب ہیں جبکہ روزگار حاصل کرنے کے خواہاں افراد کی تعداد20 گنا زیادہ ہے۔‘
ان کے مطابق سنہ 2017 میں وہ ایک ایجنٹ کو اٹلی میں 900 یورو ماہانہ ایک کاشتکاری کی نوکری کے لیے 140,000 روپے ادا کرنے میں ناکام رہے۔
پربت سنگھ چوہان کا کہنا ہے کہ جب ’کرنسی بین‘ اور کورونا وائرس کی وبا پھوٹی تو میں پھر سے ایک بار غیر یقینی صورتحال میں کا شکار ہو گیا۔ راجھستان سے تعلق رکھنے والے 35 برس کے پربت ’ایمرجنسی ایمبولینس ڈرائیور‘ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کی 12 گھنٹے دن میں کام کرنے کے بعد ماہانہ آمدن آٹھ ہزار روپے بنتی ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں چھوٹے پیمانے پر تعمیرات سے متعلق ٹھیکے بھی لیتے ہیں اور انھوں اس سے چھ کاریں خرید کر ٹیکسی کے طور پر انھیں کرائے پر دے رکھا ہے۔
کئی دیگر افراد کی طرح پربت سنگھ چوہان نے اپنے ہائی سکول کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا ہے۔ وہ سکول میں اخبار فروخت کرتے تھے اور مہینے میں تین سو روپے کما لیتے تھے۔ جب ان کی والدہ فوت ہو گئیں تو پھر انھوں نے کپڑوں کی دکان پر بھی کام کیا۔ جب انھیں کوئی مناسب کام نہیں مل سکا تو انھوں نے موبائل فون کی رپیئرنگ سے متعلق ایک کورس کر لیا۔ ان کے مطابق ’اس کورس سے بھی ان کی مشکل زیادہ حل نہ ہو سکی۔‘
سنہ 2016 تک پانچ یا چھ برسوں میں ان کی قسمت میں بہتری آئی۔ انھیں ایک ایمبولینس کے ڈرائیور کی ملازمت مل گئی، وہ اپنے گاؤں میں چھوٹے موٹے تعمیراتی ٹھیکے حاصل کرتے اور پھر اپنی ٹیسکی کاریں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2020 کے لاک ڈاؤن نے مجھے (معاشی طور پر) تباہ کر کے رکھ دیا۔ مجھے اپنی کاریں فروخت کرنا پڑیں۔ اب میں نے دوبارہ ایک ایمبولینس کے ڈرائیور کے طور پر کام شروع کر دیا ہے اور پھر سے حکومت سے چھوٹے تعمیراتی ٹھیکے بھی لے رہا ہوں۔
ہریانہ سے تعلق رکھنے والے 40 برس کے ’ٹائل سیٹلر‘ رام ایواتر کی طرح ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں جنھیں 20 برس کام کا تجربہ ہے۔ رہائش کے بڑھتے اخراجات کے چیلنجز اور مزدوری کے مسدود مواقع کے علاوہ اب وہ اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات کے لیے بھی پریشان ہیں۔ ان کی بیٹی سائنس میں گریجوایشن کر رہی ہیں جبکہ ان کے بیٹے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کے خواہاں ہیں۔
انھوں نے دبئی، اٹلی اور کینیڈا میں ملازمت کے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ ایجنٹ کو اتنی بڑی رقم ادا نہیں کر سکے۔ ان کے مطابق اب مکان کے بڑھتے کرائے، ان کے بچوں کی تعلیمی اخراجات اور کھانے کے اخراجات پورا کرنے کے لیے وہ دن رات ایک کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق ’ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس وقت اسرائیل میں جنگ ہو رہی ہے۔ مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا۔ ہم یہاں بھی مر سکتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ اپنی امیدیں پورا کرنے کی بھی جستجو ہے۔
28 برس کے ہرش جٹ نے سنہ 2018 میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ آغاز میں وہ ایک کار فیکٹری میں مکینک کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اس کے بعد وہ دو برس تک پولیس کے محکمے میں بطور ڈرائیور کام کرتے رہے۔ وہ وہاں نشے میں دھت لوگوں کے ایمرجنسی لائن کے غلط استعمال سے تنگ ہونا شروع ہو گئے۔
اس کے بعد انھوں نے گڑگاؤن کے ایک مہنگے نواحی علاقے میں ایک پب میں باؤنسر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا، جہاں انھیں ماہانہ 40 ہزار تنخواہ ملتی تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’اس طرح کی ملازمتوں میں دو سال کے بعد وہ آپ کو نکال باہر پھینکتے ہیں اور کسی قسم کی کوئی سکیورٹی بھی میسر نہیں ہوتی۔‘
ہرش جٹ ابھی بے روزگار ہو کر اپنے خاندان کی آٹھ ایکڑ زمین پر کام کے لیے آ گئے ہیں۔ مگر، ان کے مطابق ’اب کوئی کاشت کاری کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔‘
انھوں نے کلرک بننے اور پولیس کے محکمے تک میں سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے بھی کوشش کی مگر اس میں بھی انھیں کامیابی نہ مل سکی۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں کچھ نوجوانوں نے امریکہ اور کینیڈا میں داخل ہونے کے لیے ایجنٹوں کو فی کس چھ ملین روپے دیے۔ ان کے مطابق ’اب وہ سب اپنے گھر پیسے بھیج رہے ہیں، اپنے خاندانوں کے لیے فینسی کاریں خرید لی ہیں۔
ہرش جٹ کا کہنا ہے کہ ’میں بھی باہر جانا چاہتا ہوں اور وہاں اچھی ملازمت اختیار کرنا چاہتا ہوں کیونکہ جب میرا بچہ ہو گا تو وہ مجھ سے پوچھے گا کہ ہمارےپڑوسی کے پاس تو اچھی بڑی کار ہے اور ہمارے پاس نہیں ہے؟‘
’میں جنگ سے خوفزدہ نہیں ہوں۔‘

انڈیا میں ملازمت کا شعبہ ایک ملی جلی تصویر پیش کرتا ہے۔ ملک کے ’پیریاڈک لیبر فورس سروے‘ کے سرکاری اعداد و شمار، بے روزگاری میں کمی کے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق سنہ 2017-2018 میں یہ تعداد چھ فیصد سے کم ہو کر 2021-2022 میں چار فیصد تک ہو گئی۔
ایک ترقیاتی ماہر معاشیات اور باتھ یونیورسٹی کے پروفیسر سنتوش مہروترا اس کی وجہ سرکاری اعداد و شمار میں بلا معاوضہ کام کو ملازمتوں کے طور پر شامل کرنے کو قرار دیتے ہیں۔
پروفیسر مہروترا کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ملازمتیں نہیں نکل رہی ہیں۔ صرف یہ ہے کہ منظم ملازمتیں بمشکل بڑھ رہی ہیں اور ساتھ ہی، نوکریوں کی تلاش میں نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‘
اعظم پریم جی یونیورسٹی کی تازہ ترین ’سٹیٹ آف ورکنگ انڈیا رپورٹ‘ کے مطابق بے روزگاری کم ہو رہی ہے مگر ابھی بھی بے روزگار نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سنہ 1980 کی دہائی سے جمود کا شکار رہنے کے بعد سنہ 2004 میں باقاعدہ اجرت یا تنخواہ پر کام کرنے والے کارکنوں کا حصہ بڑھنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔رپورٹ کے مطابق مردوں کے لیے 18 سے 25 فیصد اور خواتین کے لیے دس سے 25 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
تاہم سنہ 2019 کے بعد سے ’ترقی کی سست روی اور وبائی بیماری‘ کی وجہ سے باقاعدہ اجرت والی ملازمتوں کی رفتار کم ہو گئی تھی۔‘

رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 15 فیصد سے زیادہ گریجویٹس، جن میں 25 سال سے کم عمر کی تعداد 42 فیصد بنتی ہے کے لیے وبائی امراض کے بعد ملک میں کوئی ملازمت دستیاب نہیں ہے۔
اعظم پریم جی یونیورسٹی کے لیبر اکانومسٹ روسا ابراہام نے کہا کہ اس گروپ کی زیادہ آمدنی کی خواہش ہے، اور وہ غیر محفوظ کام نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم یہ طبقہ زیادہ آمدنی اور روزگار کے لیے (اسرائیل جانے کے) انتہائی خطرہ مول لے رہا ہے۔
ان افراد میں سے ایک اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے انکیت اپادھیا ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے ایک ایجنٹ کو ادائیگی کی، ویزا حاصل کیا اور وبائی امراض کے دوران اپنی ملازمت ختم ہونے سے قبل کویت میں ’سٹیل فکسر‘ کے طور پر کام کرتے ہوئے آٹھ سال کام کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے کوئی خوف نہیں رہا۔ میں اسرائیل میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے وہاں کے خطرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ گھر میں ملازمت کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔‘