اسلام آباد(زاہد گشکوری، ہیڈ ہم انویسٹی گیشن ٹیم) 2024 کا انتخاب لڑنے والے 42 فیصد سابق ارکان قومی اسمبلی نے اپنی وفاداریاں تبدیل کرلی ہیں۔
ہم انویسٹگیشن ٹیم کی تحقیقات کے مطابق تقریبا 143 سابق ممبران نیشنل اسمبلی نے اپنی پرانی پارٹیاں چھوڑ کر 2024 کے انتخابات کیلیے نئی سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
پاکستان میں سردیوں کی پہلی بارش برسنے کی اطلاعات
2018 کی قومی اسمبلی کے42 فیصد (342میں سے 143) ارکان ایسے ہیں جنہوں نے یا تو اپنی سیاسی وفاداری بالکل تبدیل کر لی ہے یا پارٹی چھوڑ کر آزاد امیدوار کے طور قسمت آزما رہے ہیں۔
تحقیقات کے مطابق وفاداریاں تبدیل کرنے والوں میں 79 ایم این ایز کا تعلق پنجاب، 25 کا تعلق کے پی، 16 کا سندھ اور نو کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ تحریک انصاف کے 107 یعنی 65 فیصد سابق ایم این ایز نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے گیارہ سابق ارکان قومی اسمبلی، بلوچستان عوامی پارٹی کے سات، پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم پاکستان کے پانچ پانچ ممبران اور جے یو آئی فضل کے تین سابق ممبران اسمبلی نے اپنی پارٹی چھوڑ دی ہے۔
اسی طرح سے 2018 کے انتخابات سے پہلے ن لیگ کے 2013 میں جیتنے والے 61 سابق ارکان قومی اسمبلی نے اپنی پارٹی چھوڑی تھی، پاکستان مسلم لیگ نواز کے 54فیصد سابق ارکان قومی اسمبلی یا تو پارٹی چھوڑ گئے تھے یا پھر وہ آزاد امیدوار کے طور الیکشن میں حصہ لیا یا سرے سے الیکشن ہی نہیں لڑ ے تھے۔
اسطرح سے 2018 کے انتخاب سے پہلے پیپلز پارٹی کے 14 اور ایم کیو ایم کے 12 سابق ارکان قومی اسمبلی نے پارٹی چھوڑ تھی جبکہ 2018 کے انتخاب سے پہلے تحریک انصاف کے دس ارکان نے پارٹی تبدیل کی تھی۔
3 بڑی سیاسی جماعتیں عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں، شاہد خاقان عباسی
جبکہ باقی 22ارکان کا تعلق مسلم لیگ ق، جماعت اسلامی، نیشنل پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام ( ف) آل پاکستان مسلم لیگ اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی سے تھا۔
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کے چھوڑنے والے ممبران میں 79 برائے راست منتخب، 27 مخصوص نشستوں پر آئے ممبران نے چھوڑا ہے۔
پی ٹی آئی کے 21 سابق ارکان اسمبلی کئی وجوہات کی بنا پر الیکشن 2024 میں حصہ نہیں لے رہے ہیں، پی ٹی اے کے 18 سابق ارکان اسمبلی مسلم لیگ ن میں شامل ہوچکے ہیں۔
13 سابق ارکان اسمبلی استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہوئے، گیارہ سابق ارکان اسمبلی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے جبکہ سات سابق ارکان اسمبلی تحریک انصاف پارلیمنٹیرین میں شامل ہوئے ہیں۔
تین سابق ارکان اسمبلی جے یوآئی ف، دوعوامی نیشنل پارٹی اور دوسابق ممبران نے ایم کیوایم پاکستان میں شمولیت اختیار کی ہے۔
تحریک انصاف کے تیس سابق ارکان اسمبلی جنہوں نے حال ہی میں پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا اب ازاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑرہے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے انتخابات میں آرمڈ فورسز کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کردیا
ہم انویسٹگیشن ٹیم کی تحقیقات کے مطابق 2018 کے انتخابات سے پہلے 48 فیصد (115میں سے55) ایم این ایزجنہوں نے پارٹیاں تبدیل کی تھی کا تعلق پنجاب سے تھا جبکہ 25فیصد (115میں سے28) کا تعلق سندھ سے تھا۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے 11فیصد(115میں سے13) ارکان اسمبلی نے یا تو اپنی پارٹی تبدیل کی تھی یا پھر وہ الیکشن نہیں لڑے تھے۔
بلوچستان کے 80فیصد (15 میں سے12 ) سابق ارکان قومی اسمبلی نے یا تو اپنی پارٹی چھوڑ دی تھی یا پھر وہ الیکشن نہیں لڑ رہے تھے۔ جبکہ قبائلی علاقہ جات کے 64فیصد(11میں سے7 ) ارکان ایسے تھے جنہوں نے اپنی پارٹی وابستگی کو بدل دی تھی۔