قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عمر خالد کے خلاف پیش کیے گئے شواہد ’کمزور‘ اور بے بنیاد ہیں۔
جنوری 2020 میں ایک انٹرویو میں عمر خالد نے اپنا تعارف ایک ’بے روزگار 32 سالہ انڈین‘ کے طور پر کرایا، جس نے ایک معروف یونیورسٹی سے مقامی لوگوں پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’نظریاتی طور پر، آپ کہہ سکتے ہیں، میں ایک بنیاد پرست جمہوری فرد ہوں۔ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں اور میں اُس جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں جو صرف ووٹنگ کے عمل تک محدود نہیں ہے۔
یہ روزمرہ کی زندگی میں اس طرح سے عمل میں آنا چاہیے کہ آپ جمہوری کام کاج کے ساتھ اپنے مسائل اور خدشات کو آواز دے سکیں۔
واضح رہے کہ خالد پہلے ہی سنہ 2016 میں ان پانچ انڈین طالب علموں میں سے ایک کے طور پر شہرت حاصل کر چکے تھے جن پر سنہ 2013 میں ایک کشمیری کو پھانسی دیے جانے کے خلاف دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں احتجاج کا اہتمام کرنے پر غداری کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
انھوں نے ایک اور طالب علم کے ساتھ پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور کئی ماہ بعد انھیں ضمانت مل گئی تھی۔ سنہ 2022 میں سپریم کورٹ نے نوآبادیاتی غداری کے قانون کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا اور حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس وقت تک تمام ٹرائلز یعنی مقدمات پر سماعت روک دے جب تک عدالت اس قانون کی صداقت کا حتمی تعین نہیں کر لیتی۔
چار سال بعد ستمبر 2020 میں خالد کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور اس بار ان پر دہلی میں پرتشدد جھڑپوں میں ’کلیدی طور پر سازشی‘ ہونے کا الزام لگایا گیا، جس میں 53 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ انڈیا کے دارالحکومت میں فروری میں ہونے والے فسادات ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب متنازع شہریت قانون کے خلاف کئی ماہ سے جاری مظاہرے جاری تھے۔

اس وقت سے خالد شہر کی ہائی سکیورٹی جیل میں بند ہیں۔ خالد ان متعدد طلبہ اور کارکنان میں میں سے ایک تھے جنھیں تشدد کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے خلاف لگنے والے الزامات کی تردید کی ہے۔ 36 سالہ نوجوان کا کہنا ہے کہ انھوں نے صرف ایک پرامن احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
ابتدائی طور پر خالد پر دو مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ایک مقدمہ خارج کر دیا گیا ہے، جبکہ دوسرے میں، ان پر ابھی تک عدالت میں فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ اس مقدمے کی سماعت ہی شروع نہیں ہوئی ہے۔ دوسرے مقدمے میں اُن کی دو بار ضمانت رد ہو چکی ہے۔ وہ طویل مدت سے اس لیے قید ہیں کیونکہ پولیس نے کیس میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون یو اے پی اے کی دفعات شامل کردیں تھیں۔ یہ انسداد دہشت گردی کا ایک سخت قانون ہے جس میں ضمانت حاصل کرنا کافی مشکل ہوتا ہے اور اکثر ملزمان کو ٹرائل مکمل ہونے تک حراست میں ہی رکھا جاتا ہے۔ کئی بار یہ مدت سالوں تک بھی چلی جاتی ہے۔
گذشتہ سال مئی میں خالد کے وکلا نے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔ گذشتہ آٹھ مہینوں میں 11 مرتبہ تاریخیں ملنے کے باوجود عدالتِ عظمی میں اب تک اس کی سماعت نہیں ہو سکی ہے۔
کبھی تاخیر دونوں طرف کے وکلا میں سے کسی کے غیر حاضر ہونے کی وجہ سے ہوئی کبھی کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں تبدیلی نے تاخیر کو طول دیا۔ خالد کے وکیل کپل سبل نے عدالت کو بتایا ہے کہ وہ صرف ’20 منٹ‘ میں یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ پولیس کے پاس ان کے مؤکل کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے۔
بالآخرجب جنوری 24 کو جسٹس بیلا ترویدی اور جسٹس اجل بھویان پر مشتمل بینچ نے معاملے کی سماعتشروع کی تو اس کو فوراً ہی 31 جنوری تک ملتوی کر دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ بینچ صرف لنچ تک ہی دستیاب تھا۔
عدالت نے معاملہ بدھ تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ اس کیس میں مزید التوا نہیں دیا جائے گا۔ اگلی سماعت 31 جنوری کو مقرر کی گئی، اور جج کا اصرار ہے کہ اس دن کارروائی ضرور شروع ہونی چاہیے۔
وکیلِ استغاثہ کا کہنا کہ ایک گواہ نے خالد کو فسادات میں ملوث افراد سے ملاقات کرتے دیکھا ہے۔ جبکہ ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ جب فسادات شروع ہوئے تو نہ تو خالد دہلی میں موجود تھے اور نہ ہی کوئی اور ثبوت ہے جو انھیں جرم سے جوڑے۔
یو اے پی اے کے تحت، پولیس نے خالد پر فسادات کے علاوہ دہشت گردی، مجرمانہ سازش اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بھی الزام لگایا ہے۔
پولیس کا ماننا ہے کہ خالد فسادات کا ’ریموٹ سپروائزر‘ اور ’ماسٹر مائنڈ‘ ہے۔ اس کے لیے پولیس نامعلوم گواہوں کے بیانات، خالد کی واٹس ایپ گروپس کی رکنیت، فسادات شروع ہونے پر انھیں دیگر ملزمان کی طرف سے کی گئی فون کالز اور مختلف مظاہروں میں ان کی موجودگی کا سہارا لے رہی ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ نامعلوم گواہوں نے انھیں بتایا ہے کہ خالد نہ صرف اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں بلکہ مودی حکومت کا تختہ الٹنے کے حامی بھی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خالد ایک انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں جو ضروری نہیں کہ خون کے بغیر مکمل ہو۔ خالد نے اشتعال انگیز تقاریر یا تشدد پر اکسانے کی تردید کی ہے۔
ٹرائل کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ، جہاں سے ان کی ضمانت کی درخواستیں رد ہو چکی ہیں، ابھی قائل نہیں ہیں۔ عدالتوں کا خیال ہے کہ خالد کے خلاف الزامات سچے ہیں۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ خالد کے خلاف پیش کیے گئے شواہد ’کمزور‘ اور بے بنیاد ہیں۔
اکتوبر 2022 میں، سپریم کورٹ کے ایک سابق جج، ہائی کورٹ کے تین ریٹائرڈ ججوں، اور ایک سابق وفاقی داخلہ سکریٹری پر مشتمل ایک کمیٹی، جو فسادات کی ایک مفصل رپورٹ پر کام کر رہی تھی، نے بھی خالد کے خلاف دائر یو اے پی اے کیس کی جانچ کی ہے۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ انھیں ایسے ٹھوس شواہد نہیں ملے کہ خالد پر دہشت گردی کی دفعات لگائی جائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ استغاثہ ایسے مواد پر انحصار کررہی ہے جو قانون کی نظر میں ناقابل اعتبار ہے۔ انھوں نے پولیس کے دعوؤں میں تضاد پایا جس سے اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ جمع کیے گئے گواہوں کے بیانات من گھڑت ہو سکتے ہیں۔
خالد کے وکیل نے سنہ 2022 میں ضمانت سے انکار کو چیلنج کرتے ہوئے ایک عدالت میں کہا تھا کہ استغاثہ کو واقعی اپنا ذہن بنانے کی ضرورت ہے کہ ان کے خلاف کیا مقدمہ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’مجھے دو سال سے قید بھگتنی پڑ رہی ہے کیونکہ آپ کے پاس (ایک غیر تصدیق شدہ گواہ کا) بیان ہے۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ خالد کو ضمانت نہ ملنا ملک میں آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسی جگہ کی عکاسی کرتا ہے جو تنقیدی آوازوں کے لیے تیزی سے سکڑ رہی ہے۔ یہ اختلاف رائے رکھنے والی آوازوں کے لیے ایک عبرتناک مثال ہے۔‘
دریں اثنا، جیل میں، خالد شوق سے پڑھتے ہیں، ساتھی قیدیوں کے لیے درخواستیں لکھتے ہیں، اور ٹی وی پر کرکٹ دیکھتے ہیں۔ وہ تندہی سے لکھتے ہیں، جس کا مقصد جیل کی ڈائری تیار کرنا ہے جس نے پہلے ہی پبلشرز کی دلچسپی بڑھا دی ہے۔
خالد کے اہل خانہ کو ہر ہفتے 20 منٹ کی ویڈیو کال کی اجازت ہے اور ان کے دوست جیل میں آدھے گھنٹے تک ملاقات کر سکتے ہیں۔ کئی سالوں تک ایک اردو اخبار کی ایڈیٹنگ کرنے کے بعد، ان کے والد نے ایک چھوٹی سی سیاسی جماعت قائم کی، جبکہ ان کی والدہ، جو ڈاکٹر کے طور پر کام کرتی تھیں، اب ایک بوتیک چلاتی ہیں۔ جولائی 2022 میں، خالد کو اپنی بہن کی شادی میں شرکت کے لئے ایک ہفتے کے لئے عارضی ضمانت دی گئی تھی۔
خالد کی دیرینہ ساتھی اور دوست، بنوجیوتسنا لہری کہتی ہیں کہ ’یہ کوئی بہت اُمید افزا صورتحال نہیں ہے۔ لیکن عمر ٹھیک ہیں، اپنا حوصلہ بلند رکھے ہوئے ہیں۔‘ ان دونوں کی ملاقات 2008 میں طالب علم کے طور پر ہوئی تھی اور پانچ سال بعد ڈیٹنگ شروع کردی تھی۔
لہری نے لکھا ہے کہ ’کس طرح دونوں ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے طویل فاصلے کے رشتے میں رہے ہیں، جیل میں شیشے کی دیوار کے پار ملاقات کرتے ہیں اور انٹرکام پر بات کرتے ہیں۔‘
انھوں نے انڈیا لو پروجیکٹ کو بتایا کہ ’ہم ہنستے ہیں، مذاق کرتے ہیں اور افسردہ کر دینے والی چیزوں پر بات نہیں کرتے۔۔۔ وہ مجھے بھی بلاتا ہے، اور ہمارے پاس عدالت کی تاریخیں ہیں۔ عدالت میں ہم سائن لینگویج میں بات کرتے ہیں۔‘
گذشتہ ہفتے لہری نے خالد سے جیل میں ملاقات کے دوران انھیں چھ نئی کتابیں نئی کتابیں دین۔ ان میں پال لنچ کی بُکر ایوارڈ جیتنے والی پرافٹ سانگ، ولیم سٹائرن کی صوفی چوائس، سعادت حسن منٹو کی تخلیقات اور اردو شاعر مرزا غالب پر ایک کتاب شامل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خالد نے قید میں تقریباً 200 کتابیں پڑھی ہیں، اور انھوں نے کتابوں کی الماریاں خریدی ہے تاکہ خالد کی طرف سے واپس کی جانے والی کتابوں کو سنبھال کر رکھ سکیں۔
اپنے جیل کے وارڈ میں، جہاں انھیں دن کے وقت اپنی کوٹھری سے باہر نکلنے کی اجازت ہے، خالد مجرموں، بشمول قاتلوں اور دیگر گھناؤنے جرائم کے مجرموں کے ساتھ وقت گُزارتے ہیں۔
وہ اکثر ان کی ملاقاتوں کے دوران لہری سے پوچھتے ہیں کہ ’میں یہاں ان سبھی لوگوں کے درمیان کیوں ہوں؟‘