حاجی ملنگ: 700 برس قبل ’عرب سے انڈیا آنے والے‘ مبلغ کی درگاہ کا تنازع جن کے عقیدت مندوں میں ہندو بھی شامل ہیں

عقیدت مندوں کو اس درگاہ تک جانے والے پہاڑوں اور چٹانوں کو کاٹ کر بنائی گئی تقریباً 1500 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ اس مشکل اور تھکا دینے والے راستے کے باوجود روزانہ سینکڑوں عقیدت مند یہاں پہنچتے ہیں۔
حاجی ملنگ کی درگاہ انڈیا کے شہر ممبئیکے مضافات میں ایک پہاڑی پر واقع ہے
BBC
حاجی ملنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 700 برس قبل انڈیا آئے تھے

حاجی ملنگ کی درگاہ انڈیا کے شہر ممبئی کے مضافات میں واقع ایک پہاڑی پر ہے۔ مقامی روایت کے مطابق حاجی ملنگ ایک عرب مبلغ تھے جو تقریباً 700 برس قبل انڈیا آئے تھے۔

انڈیا میں موجود بہت سے دوسرے صوفیا کے مزارات کی طرح، حاجی ملنگ کی درگاہ کو بھی مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مگر اُن کی درگاہ تک پہنچنا آسان نہیں۔ عقیدت مندوں کو اس درگاہ تک جانے والے پہاڑوں اور چٹانوں کو کاٹ کر بنائی گئی تقریباً 1500 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ اس مشکل اور تھکا دینے والے راستے کے باوجود روزانہ سینکڑوں عقیدت مند یہاں پہنچتے ہیں۔ یہاں آنے والے عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ اگر یہاں ’صدقِ دل‘ سے دعا مانگی جائے تو ہر خواہش پوری ہوتی ہے۔

لیکن حال ہی میں یہ صوفی مزار اس وقت خبروں کی زینت بنا جب ایک ہندو سیاسی رہنما نے اعلان کیا کہ یہ مزار درحقیت ایک مندر ہے جسے وہ ہندوؤں کے لیے ’آزاد‘ کروانا چاہتے ہیں۔

بی بی سی کی نامہ نگار شیریلین مولان نے حال ہی میں اس درگاہ کا دورہ تاکہ یہ جان سکیں کہ یہ تنازع کیا ہے۔ جب مولان وہا٘ں پہنچیں تو اس وقت بھی ہندو اور مسلمان عقیدت مند مزار پر پھول اور چادر چڑھا رہے تھے۔

مزار کی انتظامیہ بھی مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی مثال ہے کیونکہ جہاں اس مزار کے دو معتمد مسلمان ہیں، وہیں اس مزار کے متولی کا تعلق ایک ہندو برہمن خاندان سے ہے۔

تمام مذاہب کے لوگ مزار پر حاضری دیتے ہیں
BBC
اس درگاہ کا متولی ایک ہندو برہمن خاندان ہے

رواں ماہ کے آغاز میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے ایک سیاسی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے اس درگاہ سے متعلقہ دہائیوں پرانے تنازع کو پھر زندہ کر دیا ہے۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ درگاہ دراصل ہندوؤں کا ایک مندر تھا جسے ’آزاد‘ کروایا جائے گا۔

جب بی بی سی نے ان کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ان کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انڈیا میں کئی مساجد اور مسلمان حکمرانوں کے ادوار میں بنائی گئی تاریخی یادگاریں اس نوعیت کے دعوؤں کے باعث تنازعات کا شکار ہیں کہ ان مساجد اور یادگاروں کو صدیوں قبل ہندو مندروں کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا۔

ایسا پہلی بار نہیں کہ حاجی ملنگ کے درگاہ کو ’آزاد‘ کروانے کی بات کی جا رہی ہے۔ 1980 کی دہائی میں سیاسی رہنما آنند دیگے نے بھی حاجی ملنگ درگاہ کو ہندوؤں کے لیے دوبارہ حاصل کرنے کی مہم چلائی تھی۔

سنہ 1996 میں آنند دیگے نے مبینہ طور پر درگاہ کے اندر شیو سینا کے 20,000 کارکنوں کے ساتھ پوجا کا انعقاد بھی کیا تھا۔

تب سے ہندو انتہا پسند (جو اس مزار کو ملنگ گڑھ کہہ کر پکارتے ہیں) پورے چاند کے دنوں میں مزار پر پوجا پاٹ کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کا کبھی کبھار مسلمان عقیدت مندوں اور مقامی لوگوں سے لڑائی جھگڑا بھی ہو جاتا ہے۔

ہندو انتہا پسند اس جگہ کو ملنگ گڑھ پکارتے ہیں
BBC
اس پہاڑی پر درگاہ کے اطراف کئی چھوٹے مندر بھی ہیں

لیکن سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ شندے کے مؤقف کا تعلق عقیدے سے کم جبکہ دکھاوے سے زیادہ ہے۔ اس کے لیے وہ دیگے کی مہم کی مثال پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ریاست مہاراشٹر کے ہندو ووٹروں میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا۔

پرشانت ڈکشٹ ایک سابق صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’شندے اب خود کو مہاراشٹر کے ’ہندو نجات دہندہ‘ کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

مہاراشٹر، جو کہ انڈیا کی سب سے امیر ریاست ہے، میں رواں سال کے آخر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونا ہیں۔

ڈکشٹ کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر کے سیاسی منظر نامے کے پیش نظر، شندے کے لیے ہندو اکثریت کی حمایت حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔

مہاراشٹر میں انتخابات عام طور پر قوم پرستوں، جن میں ہندو قوم پرست شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، اور سینٹرسٹ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اور کانگریس کے درمیان چار طرفہ مقابلہ ہوتا ہے۔

لیکن شندے کو اس بار ایک اور مشکل کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ سنہ 2022 میں وہ اور اُن کے چند بڑے حامی شیو سینا سے منحرف ہو گئے تھے۔

ان کی اس بغاوت کی وجہ سے شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کی سہ فریقی حکومت گر گئی تھی اور انھوں نے نئی حکومت بنانے کے لیے بی جے پی کے ساتھ ایک اتحاد قائم کر لیا تھا۔

ڈکشٹ کہتے ہیں کہ سیاست دان تو پارٹیاں بدل لیتے ہیں، لیکن بنیادی ووٹروں کی وفاداریاں بدلنا مشکل کام ہے۔ ’شندے امید کر رہے ہیں کہ درگاہ کا مسئلہ اٹھا کر وہ سابق شیو سینا کے ووٹروں کے جذبات کو اپنی جانب راغب کر پائیں گے اور ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کر سکیں گے۔‘

کشال مسل ہر سال ایک بار مزار پر جاتے ہیں
BBC
کشال مسل ہر سال اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ایک بار اس مزار پر آتے ہیں

بی بی سی نے جن ہندو عقیدت مندوں سے بات کی انھوں نے شندے کے درگاہ کے حوالے سے دعوؤں اور تبصروں پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔

کشال مِسل کو لگتا ہے کہ شندے ان کے ذہن میں طویل عرصے سے چلی آ رہی بات کو زبان فراہم کر رہے ہیں، یعنی اس عقیدے کو کہ مزار دراصل ایک ہندو سنت کا تھا جس پر بعد میں مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔

راجندر گائیکواڈ کے بھی کچھ ایسے ہی خیالات ہیں۔ مگر وہ اس جاری بحث کی وجہ سے بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔

’بھارت میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بہت بُرا ہے۔‘ اُن ماننا ہے کہ ’تمام دیوتا ایک ہی ہیں۔‘

ابھیجیت ناگارے اس درگاہ کے ایک ہندو عقیدت مند ہیں اور ہر مہینے اس مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ درگاہ کس مذہب کی ہے، ان کے مطابق وہ یہاں اس لیے آنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہاں ان کو سکون محسوس ہوتا ہے۔

ناصر خان مزار کے معتمدوں میں سے ایک ہیں۔ اںھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تنازع کی وجہ سے مزار پر آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ یہاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتے ہیں اور شرپسندوں سے پریشان نہیں ہونا چاہتے ہیں۔‘

اس تنازع سے مقامی افراد کے کاروبار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

3,000 فٹ بلند اس پہاڑ پر مزار کے علاوہ درجنوں مکانات ، دکانیں اور ریستوران بھی ہیں۔
BBC
زائرین کو حاجی ملنگ کے مزار تک پہنچنے کے لیے چٹانون کو تراش پر بنائی گئی تقریباً 1500 سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں

3,000 فٹ (914 میٹر) بلند اس پہاڑ پر صرف یہ مزار ہی موجود نہیں۔ یہاں درجنوں مکانات ، دکانیں اور ریستوران بھی ہیں۔

ناصر کہتے ہیں کہ یہاں تقریباً 4000 لوگ رہتے ہیں جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ روزی کمانے کے لیے مقامی لوگوں کاانحصار اس مزار سے متعلقہ مذہبی سیاحت پر ہے لیکن اب صورتحال کے باعث یہاں گزارا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کو پینے کے پانی جیسی بنیادی چیز کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور گرمی کے مہینوں میں ان مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔

مقامی ویلج کونسل کے رکن ایوب شیخ کہتے ہیں کہ ہر خاندان کو سرکار کی جانب سے روزانہ صرف 10 لیٹر پانی دیا جاتا ہے۔

اس پہاڑی علاقے میں کوئی باقاعدہ ہسپتال، سکول اور ایمبولینس سروس بھی موجود نہیں ہے۔

22 سالہ شیخ رکشہ ڈرائیور ہیں۔ انھوں نے اپنا صرف پہلا نام استعمال کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ ’کوئی پڑھا لکھا شخص یہاں رہنا نہیں چاہے گا۔ ان کے لیے یہاں کچھ نہیں ہے۔‘

’تمام سیاست دان ووٹ حاصل کرنے کے لیے کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ کسی کو بھی اس بات کی پروا نہیں کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔‘

اس سوچ میں شیخ اکیلے نہیں بلکہ بہت سے مقامی لوگ ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔

شیخ کہتے ہیں کہ ’صدیوں سے ہندو اور مسلمان اس پہاڑی پر ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔‘

’ہم ایک ساتھ تہوار مناتے ہیں اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ کوئی اور ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا ہے تو اب ہم آپس میں کیوں لڑیں گے؟‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US