کیا اس بار انہونی ہو گی، آزاد امیدوار ہی حکومت بنائیں گے؟

image

پاکستان تحریک انصاف کی حمایت سے جیتنے والے آزاد امیدواروں کی تعداد 90 سے زائد ہے جبکہ حکومت سازی کے لیے 134 کا ہندسہ عبور کرنا لازمی ہے۔

تحریک انصاف کی حمایتی جماعتوں میں سے صرف مجلس وحدت المسلمین ایک نشست جیت سکی ہے۔ جو حکومت سازی میں زیادہ معاون ثابت نہیں ہو سکتی۔

ایسے میں تحریک انصاف کے لیے ایم کیو ایم یا دیگر جماعتوں کی حمایت سے بھی بات نہیں بن سکتی تو ان کے پاس حکومت بنانے کا واحد آپشن پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد ہے۔

اگرچہ تحریک انصاف کی قیادت سادہ اکثریت سے بھی زیادہ نشستیں جیتنے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق اب تک جیتنے والے 100 آزاد امیداروں میں سے دو کا تعلق ن لیگ اور استحکام پارٹی سے جبکہ کچھ دیگر کے بارے میں بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ہرا کر جیتے ہیں۔

ایسی صورت میں اگر وہ 90 بھی رہ جائیں تو حکومت سازی کے لیے انھیں مزید 44 ارکان کی ضرورت ہے۔ جو پیپلز پارٹی کے 54 ارکان کو ساتھ ملا کر ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف سے متعلق نرم رویہ رکھا ہے جو دونوں جماعتوں کے درمیان برف پگھلانے میں مدد دے سکتا ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کا حصہ بننے والے پیپلزپارٹی کے سابق رہنما بھی اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس حوالے سے سردار لطیف کھوسہ جو پیپلز پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن رہنے کے ساتھ ساتھ سینیٹر اور گورنر پنجاب بھی رہے ہیں کہہ چکے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور بات چیت اور روابط کے دروازے بند نہیں کرنے چاہییں۔

اس اتحاد کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوگا کہ تحریک انصاف ماضی کی طرح ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر جماعتوں کی بلیک میلنگ سے بچ سکے گی۔

اس کے علاوہ پیپلز پارٹی پنجاب میں ن لیگ کے خلاف سیاست کر کے اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن کو بحال کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اور اگر پنجاب میں کچھ آزاد امیدواروں کو توڑ بھی لے تو تحریک انصاف پیپلز پارٹی کی مدد سے حکومت بنا سکتی ہے۔

اگر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اتحاد کرتے ہیں تو ایسی صورت میں پاور شیئرنگ کا فارمولا طے کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔

اس اتحاد کی صورت میں مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم اور باقی جماعتوں کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے گا اور ممکنہ طور پر شہباز شریف قائد حزب اختلاف ہوں گے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US