پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ کی جانب سے سنایا جانے والا ایک حالیہ فیصلہ تنقید کا نشانہ بنا۔ اس فیصلے میں عدالت نے ریپ کے دس سال پرانے مقدمے میں سزا یافتہ مجرم کی اپیل منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ حقائق متاثرہ لڑکی کے ساتھ ریپ ثابت نہیں کرتے تاہم زنا کا ارتکاب ضرور ہوا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ کی جانب سے سنایا جانے والا ایک حالیہ فیصلہ تنقید کا نشانہ بنا۔ اس فیصلے میں عدالت نے ریپ کے دس سال پرانے مقدمے میں سزا یافتہ مجرم کی اپیل منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ حقائق متاثرہ لڑکی کے ساتھ ریپ ثابت نہیں کرتے تاہم زنا کا ارتکاب ضرور ہوا۔
اس فیصلے پر ہونے والی تنقید کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سپریم کورٹ تک یہ معاملہ پہنچنے سے قبل ایک سیشن عدالت ریپ کے الزام پر 20 سال قید کی سزا سنا چکی تھی جسے بعد میں ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں مجرم کو صرف زنا کے الزام پر پانچ سال قید کی سزا دی گئی جو وہ پہلے ہی مکمل کر چکا ہے۔
اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین اکثر خوف اور معاشرتی وجوہات کی بنا پر مقدمہ درج کروانے سے خائف ہوتی ہیں اور اس فیصلے کی وجہ سے خوف میں اضافہ ہو گا۔
یہ معاملہ کیا ہے اور کیوں اہم ہے؟ بی بی سی نے اس مقدمے سے جڑے تمام حقائق جاننے کی کوشش کی جس میں دس سال پہلے درج ہونے والا مقدمہ اور سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی تفصیلات پر قانونی ماہرین سے بات کی گئی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ میں شامل ایک جج نے اختلاف رائے کیا اور اس تحریر میں ان کے اختلافی نوٹ کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔
پنجاب کے شہر بھکر کی ایک مقامی عدالت نے جولائی 2017 میں زنابالجبر کے مقدمے میں مجرم حسن خان کو 20 سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ یہ مقدمہ تھانہ جنڈانوالہ میں اکتوبر سنہ 2015 میں درج ہوا تھا۔
مقامی پولیس کے مطابق یہ مقدمہ وقوعہ کے سات ماہ کے بعد درج کیا گیا۔ اس وقت ملزم حسن خان کو گرفتار کیا گیا تھا تاہم بعد میں تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ جب تک اس واقعہ سے متعلق ڈی این اے رپورٹ نہیں آ جاتی اس وقت تک ملزم پولیس کو مطلوب نہیں ہے جس پر عدالت نے ملزم کو ضمانت دے دی۔
’متاثرہ لڑکی سات ماہ تک خاموش رہی‘: سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا کہا گیا؟
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مجرم حسن خان کی اس مقدمے میں سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کی تھی اور ایک کے مقابلے میں دو کی اکثریت سے مجرم کی اپیل منظور کر لی گئی تھی۔ اس تین رکنی بنچ میں جسٹس عقیل احمد عباسی اور جسٹس صلاح الدین پنور بھی شامل تھے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس مقدمے میں نہ تو پولیس نے اپنی تفتیش میں اور نہ ہی ٹرائل کورٹ نے متاثرہ لڑکی کو چالانکیا تاہم اس وقت یہ مناسب نہیں ہے کہ متاثرہ لڑکی کو اس کے دفاع کا حق دیے بغیر اس مقدمے میں کوئی سزا سنائی جا سکے۔
سپریم کورٹ کے دو ججز نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ زنا بالجبر کا مقدمہ وقوعہ رونما ہونے کے سات ماہ کے بعد درج کیا گیا اور عدالت کے سامنے یہ معاملہ تھا کہ یہ ریپ تھا یا صرف زنا کا معاملہ تھا جو کہ رضامندی سے کیا گیا۔
عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ متاثرہ لڑکی کی جانب سے کپڑے نہ تو متعلقہ پولیس سٹیشن اور نہ ہی ٹرائل کورٹ میں پیش کیے گئے جس سے یہ ثابت ہوتا کہ ملزم نے ریپ کے دوران متاثرہ لڑکی کے کپڑے پھاڑے تھے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ آبزرویشن دی کہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ لڑکی کی جانب سے مبینہ ریپ کے دوران کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مبینہ ریپ کے دوران متاثرہ لڑکی نے مزاحمت کی نہ شور مچایا۔ عدالت کے مطابق جب ڈاکٹر نے متاثرہ لڑکی کا معائنہ کیا تو اس کے جسم پر تشدد کا ایک بھی نشان موجود نہیں تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ یہ واقعہ متاثرہ لڑکی کے گھر کے قریب جنگلوں میں پیش آیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق اس واقعہ کے بعد مجرم کئی ماہ تک متاثرہ لڑکی کے گھر میں رہالیکن متاثرہ لڑکی نے اس واقعہ کا ذکر نہ تو اپنے بھائی اور نہ ہی اپنے کسی رشتہ دار سے کیا اور سات ماہ تک خاموش رہی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ حالات کو دیکھتے ہوئے سات ماہ کے بعد اس واقعے سے متعلق مقدمے کے اندراج اور ایف آئی آر میں لکھی گئی تحریر پر آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مجرم پر زنا کے الزامات درست ہیں تاہم حقائق یہ ثابت نہیں کرتے کہ متاثرہ لڑکی کے ساتھ ریپ ہوا۔
عدالت کے مطابق اس واقعہ میں زنا کا ارتکاب ضرور ہوا جو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 496 کے تحت قابل سزا جرم ہے جس کے تحت مجرم کو پانچ سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے مجرم حسن خان کو جرم ثابت ہونے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت دی گئی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے مجرم حسن خان کو جرم ثابت ہونے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت دی گئی سزا کو کالعدم قرار دے دیا’ڈی این اے ٹیسٹ ڈیڑھ سال بعد‘
اپیل کنندہ حسن خان کے وکیل سید محمد طیب ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے موکل کا ڈی این اے ٹیسٹ مقدمے کے اندراج کے پانچ ماہ کے بعد لیا گیا جبکہ نمونوں کی رپورٹ 18 ماہ کے بعد وصول ہوئی تھی۔ ان کے مطابق اس ضمن میں ڈی این اے کی رپورٹ کسی طور پر بھی قابل بھروسہ نہیں ہے۔
سید محمدطیب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ریپ یا زنا کے مقدمے میں اگر ملزم کے نمونوں کو فریز کر دیا جائے تو 15 روز میں اس کا رزلٹ آ سکتا ہے اور اگر ان نمونوں کو فریج میں رکھا جائے تو 7 روز میں اور اگر نارمل ٹمپریچر میں رکھا جائے تو سیمپلز 3 دن تک کارآمد ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مقدمے کے اندراج میں تاخیر اور نمونوں کی بروقت رپورٹ نہ آنے کا فائدہ ان کے موکل کو ہوا کیونکہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔
اپیل کنندہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ کیس بریت کا تھا لیکن سپریم کورٹ نے ان کے موکل کو زنا کا مرتکب گردانتے ہوئے 5 سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟
ضلع بھکر کے ایڈیشنل سیشن جج نے 20 جولائی سنہ 2017 کو اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ متاثرہ لڑکی کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہ رہی تھی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق چونکہ متاثرہ لڑکی کو بدنامی کا خوف تھا اس لیے اس نے اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہیں کیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ جب متاثرہ لڑکی حاملہ ہو گئی تو اس کے پاس اس واقعہ کا ذکر اپنے رشتہ داروں سے کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس واقعہ سے متعلق کوئی عینی گواہ نہیں ہے، اس لیے اس بارے میں صرف متاثرہ لڑکی کے بیان اور ڈاکٹر کی رپورٹ پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔
اس فیصلے میں کہا گیا کہ ریپ کے اس واقعہ سے متعلق مقدمے کے اندراج میں تاخیر سے ہونے کی سزا متاثرہ لڑکی کو نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ متاثرہ لڑکی کے جسم پر تشدد کے نشانات ہوں تو ہی ریپ تصور ہوگا۔
عدالت نے حسن خان کو مجرم گردانتے ہوئے اسے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت 20 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ مجرم نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جو 18 دسمبر 2018 کو مسترد کر دی گئی اور لاہور ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
جسٹس صلاح الدین کا اختلافی نوٹ: ’ریپ ثابت نہ ہونے سے رضامندی ثابت نہیں ہوتی‘
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنور نے اپنے اختلافی نوٹ میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریپ کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوا اس کی تصدیق ڈی این اے رپورٹ سے ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جنسی جرائم میں ایف آئی آر میں تاخیر کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ انھوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ معاشرتی دباو اور خوف کے باعث متاثرہ لڑکی رپورٹ درج کروانے میں تاخیر کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلحہ کی موجودگی میں مزاحمت نہ ہونا فطری عمل ہو سکتا ہے۔
اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس صلاح الدین کا کہنا تھا کہ وقوعہ کے سات ماہ کے بعد طبی معائنہ مزاحمت کے نشانات ظاہر نہیں کر سکتا۔
انھوں نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 اور 496- بی دو الگ الگ جرائم ہیںاور دفعہ 496- بی کے تحت دونوں کی مکمل رضامندی ثابت ہونا ضروری ہے اور ریپ ثابت نہ ہونے سے خود بخود رضامندی ثابت نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا کہ صرف سزا کم کرنے کے لیے جرم کی دفعہ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
’متاثرہ شخص کو ملزم نہیں گردانا جا سکتا‘
فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیلافتخار شیروانی کا کہنا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 203 کے سب سیکشن سی کے تحت زنا کا مقدمہ متاثرہ فریق کی درخواست پر ہی درج ہو سکتا ہے اور اس میں متاثرہ شخص کو کسی طور پر بھی ملزم نہیں گردانا جا سکتا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نہ ہی پولیس نے اور نہ ہی ٹرائل کورٹ نے متاثرہ لڑکی اور اس مقدمے کی مدعی کو چالان کیا جبکہ اسی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس واقعہ سے متعلق متاثرہ لڑکی کا بیان غیر متزلزل رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہقانون میں بھی یہ بات درج ہے کہ اگر حالات اور واقعات اور شواہد مضبوط ہوں تو واقعہ سے متعلق مقدمے کی تاخیر حقائق پر اثرانداز نہیں ہوتی۔
افتخار شیزوانی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ریپ کے واقعہ کا استغاثہ ہوگا اور اگر پولیس ضابطہ فوجداری کی دفعہ 173 کے تحت متعقلہ عدالت میں جو رپورٹ جمع کرواتی ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ یہ ریپ نہیں بنتا تو پھر پولیس کو اس واقعہ سے متعلق درج مقدمہ واپس لینا ہوگا کیونکہ یہ قابل دست اندازی جرم نہیں بنتا۔
سوشل میڈیا پر تنقید: ’اس فیصلے کے بعد خواتین اور بھی زیادہ ڈریں گی‘
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ سامنے آیا تو پاکستان میں سوشل میڈیا پر تنقید سامنے آئی۔ صحافی منیزے جہانگیر نے ایکس پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے حیران کن فیصلہ ہے جس میں ججوں نے ریپ کے کیس کو زنا کے مقدمے میں بدل دیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے ملزم کو ریپ کے الزام پر سزا دی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اسے فارنیکیشن میں بدل دیا۔ ان کے مطابق ’وکلا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے قانون کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے کیوں کہ کسی کو زنا کے کیس میں سزا دینے کے لیے پہلے کوئی درخواست موجود ہونی چاہیے۔‘
منیزے نے لکھا کہ ’پہلے ہی خواتین ریپ کے مقدمے درج نہیں کرواتی ہیں اور اب اس فیصلے کے بعد خواتین اور بھی زیادہ ڈریں گی۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’اگر اس طرح کے فیصلے ہوتے رہیں گے تو یہ ملک خواتین کے لیے کبھی محفوظ نہیں ہو گا۔‘