پی آئی اے کی خریداری کے لیے عارف حبیب اور لکی گروپس کے درمیان مقابلہ: بولی 121 ارب روپے تک پہنچ گئی

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی خریداری کے لیے لکی گروپ اور عارف حبیب گروپ کے درمیان اوپن بڈنگ ہوئی ہے۔ اس دوران عارف حبیب گروپ سمیت چار کمپنیوں کے کنسورشیئم کی جانب سے سب سے زیادہ 121 ارب روپے کی بولی لگائی گئی ہے۔
پی آئی اے
Getty Images
پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری کی یہ دوسری کوشش ہے

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی خریداری کے لیے لکی گروپ اور عارف حبیب گروپ کے درمیان اوپن بڈنگ ہوئی ہے۔ اس دوران عارف حبیب گروپ سمیت چار کمپنیوں کے کنسورشیئم کی جانب سے سب سے زیادہ 121 ارب روپے کی بولی لگائی گئی ہے۔

اس نجکاری کے لیے عارف حبیب، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی سکول اور لیک سٹی ہولڈنگز پر مشتمل چار کمپنیوں کے کنسورشیئم کے علاوہ پاکستان کی نجی فضائی کمپنی ایئر بلیو اور لکی گروپ کے کنسورشیئم نے بھی بولیاں دی تھیں۔

منگل کو براہ راست نشر کی گئی تقریب میں پہلی بولی جو کھولی گئی وہ لکی گروپ کی جانب سے دی گئی تھی۔ اس گروپ نے پی آئی اے خریدنے کے لیے 101.5 ارب روپے کی بولی دی۔

اس کے علاوہ ایئر بلیو نے 26.5 ارب روپے کی بولی جمع کرائی ہے۔ جبکہ تیسری اور آخری بولی عارف حبیب گروپ اور ان کی ساتھی کمپنیوں کی تھی جو سب سے زیادہ 115 ارب روپے کی رہی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے پی آئی اے کی فروخت کے لیے کم سے کم قیمت 100 ارب روپے مقرر کی گئی تھی۔

دوسرے مرحلے میں عارف حبیب گروپ اور لکی گروپ کے درمیان اوپن بڈنگ ہوئی۔ اس مرحلے میں بولی کا آغاز 115 ارب روپے سے ہوا اور کم سے کم 25 کروڑ روپے کا اضافہ کیا جا رہا تھا۔ اس دوران بھی سب سے زیادہ بولی عارف حبیب کنسورشئیم نے 121 ارب روپے کی لگائی۔ اس کے بعد لکی گروپ نے 30 منٹ وقفے کی درخواست کی۔

اس سے قبل مشیر نجکاری محمد علی نے بتایا تھا کہ اگر بولی دہندگان کی جانب سے ریزرو پرائس سے زیادہ بولی دی گئی تو اوپن بڈنگ کا عمل ہو گا اور سب سے زیادہ بولی دینے والا گروپ کامیاب تصور کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری کی یہ دوسری کوشش ہے۔

گذشتہ برس اس سلسلے میں پہلی کوشش اس وقت ناکام ہوئی تھی جب قومی ائیرلائن کی خریداری کے لیے صرف ایک کمپنی کی جانب سے صرف دس ارب روپے کی بولی لگائی گئی تھی جبکہ حکومت نے اس کی کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔

پی آئی اے ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جس کے سرمائے کا تقریباً 96 فیصد حصہ حکومت کے پاس ہے۔ اس کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔

گذشتہ دو دہائیوں میں پی آئی اے کے مالی حالات سے متعلق جب بھی کوئی خبر آئی تو اس میں ہر سال اس کے بڑھتے مالی خسارے کا ذکر ملا تاہم رواں برس اپریل میں حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس ادارے نے 21 سال کے طویل عرصے کے بعد پہلی بار منافع کمایا ہے۔

پی آئی اے کی نجکاری
BBC
تین کمپنیوں کی جانب سے پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی گئی ہے

پی آئی اے کی خریداری میں کن کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا؟

حکومت کی جانب سے پی آئی اے نجکاری کی دوسری کوشش کے سلسلے میں ابتدائی طور پر آٹھ کمپنیوں نے قومی ایئرلائن کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم نجکاری کمیشن کو ڈیڈ لائن ختم ہونے تک پانچ کمپنیوں کی جانب سے ہی سٹیٹمنٹ آف کوالیفکیشن موصول ہوئی تھیں اور اب حتمی مرحلے میں چار، چار کمپنیوں پر مشتمل دو کنسورشیمز اور ایک کمپنی اس عمل میں شامل ہیں۔

جو دو کنسورشیمز منگل کو ہونے والی بولی میں حصہ لے رہے ہیں ان میں سے ایک لکی سیمنٹ، حب پاور، کوہاٹ سیمنٹ اور میٹرو وینچرز جیسے اداروں پر مشتمل ہے۔

دوسرے کنسورشیم میں عارف حبیب، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی سکول اور لیک سٹی ہولڈنگز شامل ہیں۔

ان کے علاوہ پاکستان کی نجی فضائی کمپنی ایئر بلیو اور فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے بھی باضابطہ طور پر اپنی اپنی سٹیٹمنٹ آف کوالیفکیشن جمع کروائیں جن میں سے اب صرف ایئربلیو حتمی بولی کا حصہ بن رہی ہے۔

حتمی بولی کے لیے قابل قرار دیے جانے کے باوجود فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بولی کے عمل میں حصہ نہیں لے گی۔

اس بات کا انکشاف وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کامیاب بولی دہندہ فوجی فرٹیلائزر کمپنی کو شراکت کی دعوت دیتا ہے تو یہ کمپنی بعد میں اس عمل کا حصہ بن سکتی ہے۔

ان کے مطابق نجکاری کے فریم ورک میں یہ گنجائش موجود ہے کہ کامیاب فریق مکمل ادائیگی سے قبل مزید شراکت دار شامل کر سکتا ہے تاہم صرف وہی کمپنیاں اضافی شراکت دار بن سکتی ہیں جو بولی کے عمل میں شامل نہ رہی ہوں۔

فوجی فرٹیلائزرز کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری میں عدم دلچسپی کے وجہ کے بارے میں نجکاری کمیشن کے ترجمان نے کہا وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔

’75 فیصد حصص برائے فروخت‘

نجکاری کمیشن کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے منگل کو پی آئی اے کے 75 فیصد حصص کے لیے بولی لگائی جائے گی تاہم کامیاب بولی دہندہ کے پاس بقیہ 25 فیصد حاصل کرنے کا بھی موقع ہوگا۔

اس سلسلے میں ترجمان نے وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی کی ایک ویڈیو بھی بی بی سی کو دی جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ کامیاب بولی دہندہ حکومت کے پاس موجود بقیہ 25 فیصد حصص بھی خرید سکے گا جس کے لیے اسے 90 دن کا وقت دیا جائے گا۔

مشیرِ نجکاری کے مطابق 75 فیصد حصص کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا دو تہائی حصہ کامیاب بولی دینے والا کو 90 دن میں دینا ہو گا جبکہ باقی رقم کے لیے ایک سال کا وقت دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 75 فیصد حصص کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں سے صرف ساڑھے سات فیصد حکومت کو ملےگی جب کی باقی رقم پی آئی اے میں سرمایہ کاری کی صورت میں لگائی جائے گی جس میں جہازوں کی تعداد بڑھانا اور اس کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک سال قبل جب حکومت مطلوبہ قیمت حاصل نہیں کر پائی تھی تو ایک سال میں پی آئی اے میں ایسا کیا بدلا ہے کہ کوئی اسے خریدنے میں دلچسپی لے۔

اس کا جواب ادارے کی مارکیٹ ویلیو میں ہے۔ گذشتہ برس پی آئی اے کی ’ایکویٹی منفی 45 ارب تھی جو اب واجبات کی ادائیگی یا منتقلی کے بعد 30 ارب روپے ہے۔

یہی نہیں بلکہ حکومت کامیاب بولی دہندہ کو جہازوں کی لیز پر عائد 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ دے گی اور پی آئی اے کے ذمے واجب الادا ٹیکسوں کا کچھ حصہ بھی ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کر دیا گیا ہے۔

pia
Getty Images

حکومت کو پی آئی اے کی فروخت سے کیا حاصل ہو گا؟

پی آئی اے کی فروخت سے حکومت کا حاصل ہونے کے فائدے کے بارے میں ترجمان نجکاری کا کہنا ہے کہ حکومت 75 فیصد حصص کے لیے دی جانے والی رقم میں سے صرف ساڑھے سات فیصد رقم لے گی جبکہ باقی رقم پی آئی اے میں ہی شامل کر دی جائے گی یعنی کہ کامیاب بولی دہندہ اس رقم کو ادارے کے لیے ہی استعمال کرنے کا پابند ہو گا.

اگرچہ حکومت کو پی آئی اے کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا صرف ساڑھے سات فیصد ہی ملے گا تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فروخت سے حکومت کو ہر سال اربوں روپے کے نقصان سے چھٹکارا مل جائے گا۔

نجکاری امور کے ماہر شہباز جمیل نے کہا اس نجکاری سے حکومت کو ہر سال اس مالی خسارے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو وہ پی آئی اے کو چلانے کے لیے خزانے سے دینے کی وجہ سے ہوتا تھا۔

واضح رہے کہ حکومت نے پی آئی اے کے ذمے واجب الادہ قرضوں میں سے ساڑھے چھ سو ارب روپے سے زائد قرضے پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی میں ڈال دیے ہیں۔

شہباز جمیل کے مطابق ماضی میں بینکوں کی نجکاری بھی اسی ماڈل پر ہوئی تھی اور اب پی آئی اے کی بھی انھی خطوط پرنجکاری کی جا رہی ہے۔

ایئرہوسٹس پی آئی اے
Getty Images
مشیر نجکاری کے مطابق اس وقت پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد ساڑھے چھ ہزار کے لگ بھگ ہے

نجکاری کے بعد پی آئی اے کے ملازمین اور اثاثوں کا کیا بنے گا؟

پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں ماضی میں جو کوششیں ہوئیں اس میں پی آئی اے کے ملازمین اور اس کے اثاثوں کا معاملہ زیر بحث رہا۔

پی آئی اے کے پاس اس وقت 38 جہاز ہیں جن میں سے صرف 18 آپریشنل ہیں جبکہ اس کے پاس دنیا بھر میں 78 مقامات کے ہوائی اڈوں پر لینڈنگ کے حقوق ہیں۔

ان میں لندن اور یورپی ممالک کے شہر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کینیڈا بھی جاتی ہے تاہم امریکہ میں اس پر پابندی تاحال قائم ہے۔

مشیر نجکاری کے مطابق چھ سات برس قبل پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد ساڑھے گیارہ ہزار تھی تاہم اس وقت یہ تعداد ساڑھے چھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔

پی آئی اے کی نج کاری کے بعد ان ملازمین کی نوکریوں کے بارے میں ترجمان نے بتایا کہ پی آئی اے کے ملازمین کو ایک سال تک ملازمت کا تحفظ حاصل ہو گا۔

مشیر نجکاری کےمطابق موجودہ ملازمین کو ایک سال تک تنخواہ اور دوسری مراعات حاصل رہیں گی جب کہ ایک سال کے بعد بہت زیادہ ملازمین نکالے جانے کا امکان نہیں تاہم انھیں رضا کارانہ طور پر ملازمت چھوڑنے کا کہا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن، ان کے میڈیکل بل اور رعایتی ٹکٹس کی ادائیگی پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کرے گی۔

خیال رہے کہ پی آئی اے کے پاس اس کے کور بزنس یعنی آپریشنز سے متعلق پراپرٹیز کے علاوہ نیویارک اور پیرس میں روز ویلٹ اور سکرائب ہوٹل کی قیمتی جائیدادیں موجود ہیں

مشیر نج کاری کے مطابق یہ دونوں پی آئی اے کی ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں ہوں گے اور اس ٹرانزیکشن میں اس کا کارگو، مسافر، کچن اور ٹریننگ سے متعلقہ اثاثے شامل ہوں گے۔

ایک سال پہلے اربوں روپے خسارے والی ائیر لائنز منافع بخش کیسے بن گئی؟

سال 2024 کی رپورٹ کے مطابق پی آئی اے نے 9.3 ارب روپے آپریشنل منافع جبکہ 26.2 ارب روپے خالص منافع کمایا۔

خیال رہے کہ سنہ 2023 میں پی آئی اے کا خالص خسارہ 75 ارب روپے تھا۔

قومی ایئر لائنز کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پی آئی اے کا آپریٹنگ مارجن 12 فیصد سے زیادہ رہا جو دنیا کی کسی بھی بہترین ائیرلائنز کی پرفارمنس کے ہم پلہ ہے۔ واضح رہے کہ آپریشنل کاسٹ میں جہاز کا ایندھن، انتظامی اخراجات، تقسیم کاری کے اخراجات وغیرہ شامل ہیں۔

پی آئی اے کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی سرپرستی میں اس ادارے میں جامع اصلاحات کی گئیں جن میں افرادی قوت اور اخراجات میں واضح کمی، منافع بخش روٹس میں استحکام، نقصان دہ روٹس کا خاتمہ اور بیلنس شیٹ ری سٹرکچرنگ شامل ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ پی آئی اے کے واپس منافع بخش ادارہ بننے سے نا صرف اس کی ساکھ میں اضافہ ہو گا بلکہ یہ ملکی معیشت کے لیے بھی مفید ثابت ہو گا۔

اس اعلان کے حوالے سے نشریاتی ادارے بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے تحت قومی ایئر لائنز کی فروخت سے قبل اس کا سالانہ منافع ایک بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے تاہم یہ ادارے کے ذمے قرضوں کی بڑی مقدار کو سرکاری کھاتوں میں منتقل کیے جانے کے بعد ہی ممکن ہو سکا۔

بلومبرگ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ آڈٹ شدہ مالیاتی گوشواروں کے مطابق پی آئی اے نے دسمبر 2024 میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران فی شیئر 5.01 روپے آمدن حاصل کی۔

نومبر 2024 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو سیکرٹری نجکاری عثمان باجوہ نے بتایا تھا کہ پی آئی کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والے بولی دہندگان چاہتے تھے کہ حکومت 26 ارب روپے مالیت کے ٹیکس واجبات، سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے پی آئی اے کو 10 ارب روپے مالیت کی عبوری مالی معاونت اور نو ارب روپے کے دیگر واجبات کو ختم کر دے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال پی آئی اے کی نجکاری کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد وفاقی وزیر نجکاری عبد العلیم خان کا کہنا تھا کہ جب تک پی آئی اے کی بیلنس شیٹ مکمل طور پر صاف نہیں کی جاتی، کوئی سنجیدہ سرمایہ کار آگے نہیں آئے گا۔

ماہرین کے مطابق پی آئی اے کی جانب سے اربوں روپے خالص منافع کمانا اس لیے مشکل نہیں رہا کہ حکومت نے اس کے ذمے کئی سو ارب روپے کے قرضے اپنے ذمے لے لیے۔

پی آئی اے نجکاری اور اس کے مالیاتی معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق پی آئی اے کی جانب سے اربوں روپے خالص منافع کمانا اس لیے مشکل نہیں رہا کہ حکومت نے اس کے ذمے کئی سو ارب روپے کے قرضے اور ان پر سود کی ادائیگی اپنے ذمے لے لی، جس کے بعد اس کی بیلنس شیٹ بالکل کلین ہو گئی کہ جس نے ائیر لائنز کو منافع بخش بنا دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ جب حکومت کئی سو ارب روپے قرض اور اس پر سود کی ادائیگی کو اپنے کھاتے میں لے لی گی تو اس کے بعد ائیر لائنز کا منافع بخش ہونا حیران کن نہیں رہ جاتا۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پی آئی اے کے ذمے 850 ارب روپے کا قرض ہے جس کا بڑا حصہ حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا اور اس کے بعد اس پر سود کی ادائیگی بھی حکومت کے کھاتے میں چلی گئی تو اس کے بعد اس کے آپریشنل منافع بخش بننے میں کوئی مشکل نہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US