انتخابات میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں کافی مایوس کن رہی ہے جس پر یہ جماعتیں دھاندلی کا الزام بھی عائد کر رہی ہیں اور احتجاج بھی کر رہی ہیں

’بلوچ نوجوان پہلے ہی وفاق سے دور ہو چکے تھے۔ اب ہمارے سیاسی کارکن بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم انتخابی عمل میں حصہ لیں یا نہ لیں۔‘
نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے یہ رائے بی بی سی سے گفتگو کے دوران حالیہ انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کی کارکردگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے دی۔
آٹھ فروری کے عام انتخابات میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں کافی مایوس کن رہی ہے۔
یہ جماعتیں ایک جانب دھاندلی کا الزام بھی عائد کر رہی ہیں اور احتجاج بھی کر رہی ہیں تو دوسری جانب بلوچستان اور خیبرپختونخوا، دونوں صوبوں میں ہی مرکزی سیاسی جماعتوں کو بھرپور کامیابی ملی ہے۔
تاہم ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ قوم پرست جماعتوں کی انتخابات میں ناکامی کی وجوہات کیا ہیں اور ملکی سیاست پر اس کے ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
قوم پرست جماعتوں اور بعض سیاسی مبصرین کی یہ رائے ہے کہ قوم پرست جماعتوں کی پارلیمانی نظام سے دوری کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے ان علیحدگی پسند قوتوں کو تقویت ملے گی جن کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ ان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
تاہم سرکاری حکام نے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی کا کہنا ہے کہ بعض قوم پرست جماعتیں علیحدگی پسندی کے رحجانات کو بلیک میلنگ اور مراعات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔

قوم پرست جماعتوں کی ناکامی اور مرکزی جماعتوں کی کامیابی
حالیہ عام انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کو مجموعی طور پر بلوچستان سے قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی سات عام نشستیں ملیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کو قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست ملی۔
بلوچستان اسمبلی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو کوئی نشست نہیں ملی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کو بلوچستان اسمبلی کی ایک، نیشنل پارٹی کو تین، عوامی نیشنل پارٹی کو دو اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کو ایک نشست ملی ہے جبکہ ہزارہ ڈیموکریٹ پارٹی کوئی نشست حاصل نہیں کر سکی۔
2018 کے عام انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کو بلوچستان اسمبلی کی مجموعی طورپر 15 عام نشتیں ملی تھیں۔ ان میں سےبلوچستان نیشنل پارٹی کو سات، عوامی نیشنل پارٹی کو تین، بی این پی عوامی کو دو, ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کو دو اور پشتونخوا ملی عوامیپارٹیکو ایک عام نشست ملی تھی۔
ان میں سے پشتونخواملی عوامی پارٹی ، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن 2013 میں جیتنے والے قوم پرست امیدواروں کی تعداد 2018 کے مقابلے میں زیادہ تھی۔
2013 میں قوم پرست جماعتوں کو مجموعی طور پر 20 عام نشستیں ملی تھیں۔ ان میں سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو دس, نیشنل پارٹی کو سات، بی این پی ، نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی کو ایک ایک نشست ملی تھی۔
بلوچستان میں حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور جمیعت علمائے اسلام کو سب سے زیادہ نشستیں ملی ہیں۔
ان میں جے یو آئی کو قومی اسمبلی کی عام نشستوں میں سے چار اور بلوچستان اسمبلی کی دس عام نشستیں ملیں۔
پیپلز پارٹی کو 2013 اور اس کے بعد 2018 میں بلوچستان سے کوئی نشست نہیں ملی تھی تاہم حالیہ انتخابات میں اسے قومی اسمبلی کی دو اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں 10 عام نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان مسلم لیگ نون پلوجستان سے چار قومی اورصوبائی اسمبلی کی 11عام نشستیںجیتنے میں کامیاب رہی۔

2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو بلوچستان میں سب سے زیادہ عام نشستیں ملی تھیں۔ وہ آٹھ نشتوں پر کامیاب ہوئے تھے جبکہ بعد میں چھ آراکین ان کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔
لیکن اس کے مقابلے میں 2018 میں نون لیگ کو صرف ایک نشست ملی تھی۔
ن لیگ کی قیادت نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل بلوچستان میں الیکٹیبلز کے پارٹی چھوڑنے اور الزام لگاتے ہوئے ان انتخابات میں اپنی ناکامی کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا تھا۔
بلوچستان میں 2018 میں سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بننے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی صرف ایک جبکہ بلوچستان اسمبلی کی پانچ عام نشستیں حاصل کر سکی۔
سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی بڑی وجہ الیکٹیبلز ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب 2018 سے قبل الیکٹیبلز نے یہ دیکھا کہ ہوا کا رخ بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب ہے تو وہ نواز لیگ کو چھوڑ کر بی اے پی میں چلے گئے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ اب ہوا کا رخ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب ہے تو انھوں نے پھر ان جماعتوں کا رخ کرلیا جس کی وجہ سے بی اے پی کو کم اور ان کے مقابلے میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں۔‘

انتخابات کے بارے میں قوم پرستوں کا کیا کہنا ہے؟
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ اب جس پارٹی کو آشیر باد حاصل تھا ان میں سے کسی کو بلوچستان میں دس نشستیں دی گئیں تو کسی کو 11نشستیں۔
بی این پی کے سربراہ نے کہا کہ ’جو سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں بلوچستان میں لوگوں کو کسی جلسے کے لیے اکھٹا نہیں کر سکے تو وہ ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے لیے کس طرح نکال سکتے تھے۔‘
’بلوچستان میں بلاول بھٹو زرداری صرف ایک دو جگہ گئے جن میں ایک خضدار تھا جہاں بڑے پیمانے پر اخراجات کے باوجود وہ چار ہزار کرسیاں بھی نہیں بھر سکے۔انھوں نے وہاں خالی کرسیوں سے خطاب کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں احساس محرومی پہلے سے بہت زیادہ ہے جس کا ازالہ کرنے کے بجائے لوگوں کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا جو کہ یہاں کے لوگوں کی زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے الزام لگایا کہ انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کی پانچ نشستوں جبکہ قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ان کے امیدواروں کو ہرایا گیا۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہمارے صوبے میں پانچ بجے کے بعد نتائج میں ردوبدل کی گئی۔
’نتائج کی بار بار تبدیلی اور تاخیر نے شکوک و شبہات کو جنم دیا‘
سینیئرتجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ اس مرتبہ لوگوں کو جہاں بعض نئے چہروں کی کامیابی پر حیرانی ہوئی وہاں اس بات پر بھی حیرانی ہوئی کہ کبھی ایک امیدوار کی کامیابی کا اعلان کیا جاتا تھا اور اس کے چند گھنٹے بعد دوسرے کا عالان کر دیا جاتا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ قلات سے قومی اسمبلی کی نشست این اے -261 سے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی کامیابی کا اعلان ہوا لیکن بعد میں نتیجہ تبدیل ہو گیا۔
شہزادہ ذوالفقار نے مزید کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ماضی میں قوم پرست جماعتوں کینشستیں کبھی ایک دو کم اور کبھی زیادہ ہوتی رہی ہیں لیکن اس مرتبہ کے نتائج سے یہ لگتا ہے کہ ان کی تعداد کو کم کیا گیا۔
تجزیہ کار سیّد علی شاہ کا بھی کہنا تھا کہ صبح ایک نتیجہ آتا تھا اور شام کو کچھ اور آ جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ شہر اور بلوچستان کے بعض دیگر علاقوں میں جہاں مسائل نہیں تھے نتائج کے اعلان میں تاخیر پر لوگوں میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ’کراچی اور لاہور جہاں ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ ووٹ پڑے لیکن ان کے نتائج کا اعلان چند گھنٹوں میں ہو گیا مگر کوئٹہ میں جہاں چار چار ہزار یا اس سے کچھ زیادہ ووٹ پڑے ان کے نتائج میں ایک سے دو دن لگے۔‘
غیرسرکاری تنظیم فافن کے مطابق بلوچستان میں ووٹ پڑنے کی شرح 42.9 فیصد رہی جبکہ 2018 میں اس کی شرح 45.3 فیصد تھی۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں عام انتخابات سے قبل ناصرف متعدد بم دھماکے ہوئے بلکہ انتخابات کے دن بھی کوئٹہ سمیت متعدد دیگر علاقوں میں بدامنی کے واقعات پیش آئے۔

’قوم پرستوں کو پارلیمنٹ سے دور رکھنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے‘
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’بلوچستان میں عسکریت پسند کہتے ہیں اسمبلیوں میں مت جاؤ کیونکہ وہاں سے کچھ نہیں ملتا۔‘
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے الزام لگایا کہ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک منصوبے کے تحت قوم پرستوں کو اسمبلیوں سے باہر رکھا گیا۔‘
ڈاکٹر مالک بلوچ نے مزید کہا کہ ’بلوچ نوجوان پہلے وفاق سے دورتھے اب ہمارے سیاسی کارکن بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم الیکشنوں میں حصہ لیں یا نہ لیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے ہمارے سیاسی کارکنوں پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ جمہوریت اور وفاق سے مزید دور ہوں گے۔‘
تاہم شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ قوم پرست جماعتوں کو کسی منصوبے کے تحت دور رکھا گیا یا نہیں رکھا گیا، اس پر کچھ کہنا مشکل ہے۔
’لیکن اگر ان کو آپ خود دوسری جانب دھکیلیں گے تو اس سے ان قوتوں کو تقویت ملے گی جو یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمانی سیاست کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف مسلح کاروائی کرنے والی تنظیمیں پارلیمنٹ میں جانے والی قوم پرستوں کو اسلام آباد کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں دوسری طرف اگر یہاں سے بھی ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے گی تو ان کے کارکن بھی مایوس ہوکر دوسری طرف جانے کے بارے میں سوچیں گے۔
’قوم پرست جماعتوں سے لوگ مایوس ہو چکے ہیں‘
دوسری جانب ایک موقف یہ بھی ہے کہ قوم پرست جماعتیں اپنی مقبولیت کھو رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی میر ظہور بلیدی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ قوم پرستوں کی کارکردگی سے بلوچستان کی عوام مایوس ہوچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم پرست تعصب اور نفرت کی سیاست کرتے ہیں جس کو بلوچستان کی عوام نے رد کر دیا اور انھوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا۔
پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی سردار عمرگورگیج کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے معاشی اور سیاسی حوالے سے بلوچستان کو اختیارات دیئے جس کی وجہ سے لوگوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا۔
نون لیگ کے بلوچستان کے جنرل سیکریٹری جمال شاہ کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’انتخابات سے بہت پہلے یہ اندازہ تھا کہ اس مرتبہ بلوچستان سے زیادہ نشستیں ملیں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اندازے کے مطابق نواز لیگ کو اب بھی کم نشستیں ملی ہیں۔
بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے قوم پرست جماعتوں کی جانب سے لگائے گئے دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بلوچستان کے عوام نے قوم پرست بیانیے کو مسترد کر دیا کیونکہ عوام خوشحالی اور ترقی کا دور چاہتے ہیں۔‘
جان اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ چار دہائیوں سے قوم پرستوں کی گورننس کا ٹریک ریکارڈ مایوس کن رہا جس کی وجہ سے عوام نے ان کو مسترد کیا۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ’علیحیدگی پسندی کے رحجان کو قوم پرستوں نے ماضی میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے لیوریج کے طور پر استعمال کیا۔ اب بھی وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس کے زریعے بلیک میل کرکے مراعات حاصل کریں۔‘
خیبرپختونخوا میں قوم پرست جماعتوں کو شکست کیوں ہوئی؟

حالیہ انتخابات میں خیبر پختونخوا میں تین پشتون قوم پرست جماعتیں صرف ایک ہی نشست جیت پائی ہیں اور یہ عوامی نینشل پارٹی کے حصے میں آئی ہے۔
عوامی نینشل پارٹی اور آفتاب احمد شیر پاؤ کی جماعت 2018 کے انتخابات میں بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی تھی۔ حالانکہ سال 2008 کے انتخابات کے بعد عوامی نینشل پارٹی نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر صوبے میں حکومت قائم کی تھی۔
عوامی نینشل پارٹی نے 2018 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی سات نشستیں جیتی تھیں تاہم اس بار پارٹی کے قائدین ایمل ولی خان اور امیر حیدر خان ہوتی بھی اپنی نشستیں ہار گئے۔
سابق وزیر اعلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد پہلے پاکستان پیپلز پارٹی شیرپاؤ قائم کی تھی جس کو بعد میں قوم پرست جماعت قومی وطن پارٹی میں بدل دیا گیا۔
2013 کے انتخابات میں ان کی جماعت نے 7 صوبائی اسمبلی کی سیٹیں جیتی لیکن اس کے بعد 2018 اور اب 2024 میں ان کی جماعت ایک بھی نشست نہیں جیت پائی۔
حال ہی میں بائیں بازو کی نیشل ڈیموکریٹک موومنٹ، جو نوجوان سیاستدان محسن داوڑ نے سال 2021 میں قائم کی تھی، کے ساتھ سینیئر قوم پرست سیاستدان شامل ہوئے جن میں افراسیاب خٹک اور بشری گوہر نمایاں ہیں۔
محسن داوڑاور علی وزیرپشتون تحفظ موومنٹ کا حصہ رہے لیکن 2018 میں انھوں نے آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لیا تھا اور کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی میں میر کلام خان بھی آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے تھے لیکن بعد میں پی ٹی ایم چونکہ پارلیمانی سیاست پر یقین نہیں رکھتی تھی، اس لیے ان کی راہیں جدا ہو گئی تھیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما پروفیسر خادم حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’صوبے سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کو جان بوجھکرپارلیمان میں نہیں آنے دیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا ’اگر آپ دیکھیں تو گذشتہ دس بارہ سالوں میں خیبر پختونخوا اور دیگر اسمبلیوں میں صوبے کے حقوق، این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کا حصہ، صوبے کے مرکز کی طرف واجبات اور بجلی اور گیس کے حقوق کے بارے میں کسی نے کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی ہے۔‘
نینشل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور سینیئر سیاستدان بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ ’پختون قوم پرست جماعتوں اور قائدین کے خلاف ایک منظم منصوبہ بندی کی گئی اور ان کو انتخابات میں دبا کر پارلیمان سے باہر رکھا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’قوم پرست جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی گئی۔‘
دوسری جانب سینیئر صحافی علی اکبر کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں اے این پی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر کام کرتی تھی لیکن گذشتہ کچھ سالوں سے اپنے اس نے اپنے بیانیے میں تبدیلی لائی اور اے این پی کی قیادت میں تبدیلی کے بعد دیکھا گیا ہے کہ جماعت کی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ بہت قریب قریب رہے ہیں۔‘
’اس سے جماعت کو نقصان اٹھانا پڑا جبکہ اس کے برعکس جب پاکستان تحریک انصاف نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر آواز اٹھائی تو لوگ پی ٹی آئی کی طرف آئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اے این پی کی قیادت کے ’بار بار کے سمجھوتوں‘ کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ ’این ڈی ایم کے قائدین اور کارکنوں پر فائرنگ کی گئی جس سے تین افراد ہلاک ہوئے اور چیئرمین محسن داوڑ سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ پشتونوں کو احتجاج کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سیاسی قائدین بیٹھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ آئین اور جمہوریت بحال کرنی ہے اور اگر پھر بھی قائدین اپنے کاندھے پیش کریں تو اس سے سیاسی ماحول بہت زیادہ متاثر ہو گا۔‘