برطانیہ اور یورپی پارلیمان سمیت مغربی حکومتوں نے ان انتخابات کو ’جعلی‘ قرار دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہے کہ ملک میں آزادیِ اظہار، اجتماع اور پُرامن احتجاج کے حقوق استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، عام شہری ’ہر طرف سے دباؤ کا شکار ہیں‘۔

میانمار میں ایسے انتخابات کے لیے ووٹنگ جاری ہے جنھیں بڑے پیمانے پر ’جعلی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں تحلیل کر دی گئی ہیں، ان کے کئی رہنما جیل میں ہیں اور جاری خانہ جنگی کے باعث نصف آبادی کے ووٹ ڈالنے کی توقع نہیں کی جا رہی۔
فوجی حکومت تقریباً پانچ برس بعد مرحلہ وار ووٹنگ کرا رہی ہے۔ یہ وہی فوجی حکومت ہے جس نے بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد ملک میں شدید مخالفت اور خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فوجی حکومت چین کی حمایت سے اپنی طاقت کو قانونی جواز دینے اور اسے مزید مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
نئے قوانین کے تحت انتخابات میں رکاوٹ ڈالنے یا مخالفت کرنے پر سخت سزائیں دی جا رہی ہیں، جن میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ اب تک 200 سے زائد افراد پر مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں۔

اتوار کو ووٹنگ کے آغاز سے قبل کم از کم دو علاقوں میں دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ منڈالے ریجن میں ایک غیر آباد مکان پر راکٹ حملے کے بعد تین افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب میاوادی ٹاؤن شپ میں سنیچر کی رات دھماکوں کے نتیجے میں دس سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا۔ ایک مقامی رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس حملے میں ایک بچہ ہلاک ہوا جبکہ تین افراد کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا۔
کچھ ووٹرز نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بار ووٹنگ کا عمل پہلے کے مقابلے میں زیادہ ’منظم‘ محسوس ہو رہا ہے۔
منڈالے ریجن کی رہائشی ما سو زارچی نے کہا کہ ’پہلے ووٹ ڈالنے سے خوف آتا تھا، لیکن اب ووٹ ڈالنے کے بعد سکون محسوس ہو رہا ہے۔ میں نے ملک کے لیے ووٹ ڈالا ہے۔‘
پہلی بار ووٹ ڈالنے والی 22 برس کی ای پیاے فیو ماؤنگ نے کہا کہ وہ ووٹ اس لیے ڈال رہی ہیں کیونکہ یہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میری امید غریب طبقے کے لیے ہے۔ اس وقت اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور میں ایسے شخص کی حمایت کرنا چاہتی ہوں جو انھیں کم کر سکے۔ میں ایسا صدر چاہتی ہوں جو سب کے لیے برابر سہولتیں فراہم کرے۔‘
فوجی حکومت نے انتخابات پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد ملک کو ’کثیر الجماعتی جمہوری نظام‘ کی طرف واپس لے جانا ہے۔

میانمار کے فوجی سربراہ من آنگ ہلائنگ نے دارالحکومت میں سخت حفاظتی انتظامات کے تحت قائم پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈالنے کے بعد بی بی سی سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ انتخابات آزاد اور منصفانہ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف اور ایک سرکاری ملازم ہوں۔ میں صرف یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں صدر بننا چاہتا ہوں۔‘ انھوں نے کہا کہ انتخابات تین مراحل میں ہوں گے۔
اس ہفتے کے آغاز میں انھوں نے خبردار کیا تھا کہ جو لوگ ووٹ نہیں ڈالیں گے وہ ’جمہوریت کی طرف پیش رفت‘ کو مسترد کر رہے ہیں۔
ادھر فلم ڈائریکٹر مائیک ٹی، اداکار کیاو ون ہتوت اور مزاحیہ فنکار اون ڈائنگ سمیت کئی نمایاں شخصیات کو جولائی میں نافذ کیے گئے قانون کے تحت سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے انتخابات کی تشہیر کرنے والی ایک فلم پر تنقید کی تھی۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہے کہ ملک میں آزادیِ اظہار، اجتماع اور پُرامن احتجاج کے حقوق استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے مطابق عام شہری ’ہر طرف سے دباؤ کا شکار ہیں‘۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مسلح باغی گروہوں نے عوام کو انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکیاں دی ہیں۔
فوجی حکومت اس وقت کئی محاذوں پر لڑ رہی ہے، ایک طرف بغاوت کے مخالف مزاحمتی گروہ ہیں اور دوسری جانب نسلی فوجی تنظیمیں ہیں۔ فوج نے حالیہ برسوں میں ملک کے بڑے حصے پر کنٹرول کھو دیا تھا لیکن چین اور روس کی مدد سے فضائی حملوں کے ذریعے کچھ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ خانہ جنگی ہزاروں افراد کی جان لے چکی ہے، لاکھوں کو بے گھر کر دیا ہے، معیشت تباہ ہو چکی ہے اور انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ مارچ میں آنے والے تباہ کن زلزلے اور عالمی امداد میں کمی نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں۔
انتخابات کے انعقاد میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ملک کے بڑے حصے اب بھی اپوزیشن کے کنٹرول میں ہیں۔ ووٹنگ تین مراحل میں ایک ماہ کے دوران 330 میں سے 265 ٹاؤن شپ میں ہوگی، باقی علاقوں کو غیر مستحکم قرار دیا گیا ہے۔ نتائج جنوری کے آخر تک متوقع ہیں۔
ملک کے نصف حصے میں ووٹنگ نہ ہونے کی توقع ہے اور جہاں ووٹنگ ہو رہی ہے وہاں بھی تمام حلقوں میں پولنگ نہیں ہوگی، جس سے ٹرن آؤٹ کا اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔


میانمار میں چھ جماعتیں، جن میں فوجی حمایت یافتہ یونین سالیڈیرٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بھی شامل ہے، ملک بھر میں امیدوار کھڑے کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ 51 جماعتیں اور آزاد امیدوار صرف ریاستی یا علاقائی سطح پر مقابلہ کریں گے۔
تقریباً 40 جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جن میں آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی بھی شامل ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جس نے 2015 اور 2020 کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ سوچی اور جماعت کے کئی اہم رہنما سیاسی نوعیت کے الزامات کے تحت جیل میں ہیں جبکہ دیگر جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
الیکشن مانیٹرنگ گروپ ’سپرنگ سپروٹس‘ کے ترجمان ہٹن کیاو آئے نے خبر رساں ادارے میانمار ناؤ کو بتایا کہ ’ووٹنگ کو مرحلوں میں تقسیم کر کے حکام اپنی حکمتِ عملی بدل سکتے ہیں خاص طور پر جب پہلے مرحلے کے نتائج ان کے حق میں نہ ہوں۔‘
مغربی ریاست چِن کے رہائشی رال اُک تھان کا کہنا ہے کہ عوام ’انتخابات نہیں چاہتے‘۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فوج ہمارے ملک کو چلانا نہیں جانتی۔ وہ صرف اپنے اعلیٰ عہدیداروں کے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں۔ جب آنگ سان سوچی کی جماعت اقتدار میں تھی تو ہمیں کچھ حد تک جمہوریت کا تجربہ ہوا۔ لیکن اب ہم صرف روتے اور آنسو بہاتے ہیں۔‘
برطانیہ اور یورپی پارلیمان سمیت مغربی حکومتوں نے ان انتخابات کو ’جعلی‘ قرار دیا ہے، جبکہ علاقائی تنظیم آسیان نے کہا ہے کہ کسی بھی انتخاب سے پہلے سیاسی مکالمہ ضروری ہے۔