پوتن کا ’گاجر اور چھڑی‘ کا فارمولہ جس نے یوکرین جنگ کے دوران ارب پتی ’اولیگارک‘ کو خاموش رکھا

روس کے سب سے طاقتور ’اولیگارک‘ بورس بیریزوسکی نے سنہ 2000 میں پوتن کو صدر کے منصب تک پہنچنے میں مدد دینے کا دعویٰ کیا۔ بعد میں اُنھوں نے اسے اپنی بڑی غلطی قرار دیتے ہوَئے معافی مانگی اور کہا کہ ’میں مستقبل کے لالچی، ظالم اور غاصب شخص کو نہیں بھانپ پایا۔‘

یوکرین کے ساتھ جنگ کے دوران روس میں ارب پتی افراد کی تعداد اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ لیکن روسی صدر کے اقتدار میں رہنے کے 25 برسوں کے دوران روس کا امیر اور طاقتور طبقہ جنھیں ’اولیگارک‘ کہا جاتا ہے، اپنا تقریباً تمام سیاسی اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ روسی صدر کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ مغربی پابندیاں کے باوجود، یہ افراد اب بھی روسی صدر کے مخالفین کی صفوں میں شامل نہیں ہوئے۔ بلکہ روسی صدر نے ان کے حوالے سے ’گاجر اور چھڑی‘ کی پالیسی اپنائی ہے۔

سابق بینکنگ ارب پتی اولیگ ٹنکوف بخوبی جانتے ہیں کہ ’چھڑی‘ کیسے کام کرتی ہے۔

ایک روز اُنھوں نے ایک انسٹا گرام پوسٹ میں جنگ کو ’پاگل پن‘ قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے بعد اُن کے ایگزیکٹوز سے روسی صدر کے دفتر کریملن نے رابطہ کیا۔

ان ایگزیکٹوز کو بتایا گیا کہ اگر اُنھوں نے بینک کے بانی اولیگ ٹنکوف سے اپنے تعلقات منقطع نہ کیے تو اس بینک کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے گا۔ ٹنکوف بینک کا شمار، روس کے دوسرے سب سے بڑے بینک میں ہوتا ہے۔

اولیگ ٹنکوف نے امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کو بتایا کہ میں قیمت پر بات نہیں کر سکتا، جس کی پیشکش کی جا رہی تھی۔ یہ ایک طرح سے یرغمالی بنانے کے مترادف تھا، کیونکہ میں زیادہ بحث نہیں کر سکتا تھا۔

ایک ہفتے کے اندر پوتن سے منسلک ایک کمپنی، جسے روس کے پانچویں امیر ترین شخص چلاتے ہیں اور جو لڑاکا طیاروں کے لیے نِکل فراہم کرتی ہے، نے اعلان کیا کہ وہ یہ بینک خرید رہی ہے۔

ٹنکوف کہتے ہیں کہ بینک کو اس کی حقیقی قیمت کے صرف تین فیصد پر فروخت کیا گیا۔ آخر کار ٹنکوف جو نو ارب ڈالر اثاثوں کے مالک تھے نے سب کچھ کھو دیا اور اُنھیں روس چھوڑ کر جانا پڑا۔

’اولیگارک‘

یہ پوتن کے صدر بننے سے بہت پہلے کی بات ہے، جب سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد کچھ برسوں میں کچھ سرمایہ کار ریاست کی ملکیت والے بڑے ادارے حاصل کر کے ارب پتی بن گئے۔

ان کی نئی حاصل کی گئی دولت نے سیاسی بحران کے دور میں اُنھیں اثر و رسوخ اور طاقت دی اور وہ ’اولیگارک‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔

روس کے سب سے طاقت ور ’اولیگارک‘ بورس بیریزوسکی نے سنہ 2000 میں پوتن کو صدر کے منصب تک پہنچنے میں مدد دینے کا دعویٰ کیا۔ بعد میں اُنھوں نے اسے اپنی بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے معافی مانگی اور کہا کہ ’میں مستقبل کے لالچی، ظالم اور غاصب شخص کو نہیں بھانپ پایا۔‘

بروس بیریزوسکی نے سنہ 2012 میں لکھا کہ ’مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ شخص روس کی آزادی کو پامال کرے گا اور اس کی ترقی کو بھی روک دے گا۔‘

ماہرین کے مطابق ہو سکتا ہے کہ بورس بیریزوسکی نے اپنے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہو، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ روس کے ’اولیگارک‘ سیاسی جوڑ توڑ کی صلاحیت رکھتے تھے۔

معافی مانگنے کے ایک برس بعد برطانیہ میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے بورس بیریزوسکی پراسرار حالات میں مردہ پائے گئے۔ اس وقت تک روسی ’اولیگارک‘ کی طاقت بھی کمزور پڑ چکی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جب 24 فروری 2022 کو یوکرین پر حملے کا حکم دینے کے چند گھنٹوں بعد پوتن نے کریملن میں روس کے امیر ترین افراد کو جمع کیا تو اُن میں جنگ پر اعتراض کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اس جنگ کا اُنھیں کیا نقصان ہو سکتا ہے۔

روسی صدر نے اس ملاقات کے دورانروسی کاروباری شخصیات کو بتایا کہ ’مجھے امید ہے کہ ان نئے حالات میں، ہم مل کر کام کریں گے۔‘

ایک رپورٹر نے اس ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ ان ارب پتیوں کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا اور وہ نیند میں لگ رہے تھے۔

فوربز میگزین کے مطابق جنگ کی وجہ سے روس پر لگنے والی پابندیوں نے ان ارب پتی تاجروں کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور وہ اپریل 2022تک 263 ارب ڈالر، یعنی اپنی دولت کا 27 فیصد حصہ کھو چکے ہیں۔ اُن کی تعداد 117 سے کم ہو کر 83 رہ گئی تھی۔

لیکن اس کے بعد کے برسوں نے ظاہر کیا کہ پوتن کی جنگی معیشت کا حصہ بننے سے اُنھیں بے پناہ فوائد حاصل ہونے تھے۔

جنگ پر بے دریغ اخراجات نے 2023 اور 2024 میں روس میں سالانہ چار فیصد سے زیادہ کی اقتصادی ترقی کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ روس کے انتہائی امیروں کے لیے بھی اچھا تھا جو دفاعی معاہدوں سے اربوں ڈالرز کما رہے تھے۔

فوربز کی ویلتھ ٹیم سے تعلق رکھنے والے جیاکومو ٹوگنینی کا کہنا ہے کہ 2024 میں، روس کے نصف سے زیادہ ارب پتیوں نے یا تو فوج کو سازوسامان کی فراہمی میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا یا حملے سے فائدہ اٹھایا۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے جیاکومو ٹوگنینی کا کہنا تھا کہ یہ کہنا مناسب ہے کہ روس میں کاروبار چلانے کے لیے حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا ضروری ہے۔

رواں برس روس میں ارب پتیوں کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی گئی۔ فوربز کے مطابق اس وقت روس میں 140 ارب پتی افراد 580 ارب ڈالرز کے مالک ہیں۔

پوتن نے اپنے وفادار تاجروں کو بھرپور فائدہ پہنچایا اور اُن لوگوں کو سزا دی، جنھوں نے اُن کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے کی کوشش کی۔

روسیوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ تیل کی صنعت کے ٹائیکون میخائل خودورکووسکی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ جو کبھی روس کے امیر ترین آدمی تھے، اُنھوں نے 2001 میں جمہوریت نواز تنظیم شروع کرنے کے بعد 10 سال جیل میں گزارے۔

تصویر
AFP
میخائل خودورکووسکی

حملے کے بعد سے روس کے تقریباً تمام امیر افراد خاموش رہے اور جن چند نے عوامی سطح پر اس کی مخالفت کی، اُنھیں ملک چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اپنی بہت سے دولت بھی چھوڑنی پڑی۔

روس کے امیر ترین لوگ واضح طور پر پوتن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان میں سے 37 وہ کاروباری شخصیات ہیں، جنھیں 24 فروری 2022 کو کریملن میں بلایا گیا تھا۔ اُنھیں اس وقت مغربی پابندیوں کا سامنا ہے۔ لیکن دوسرے ذرائع سے ان کی دولت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے وہ روسی صدر کے خلاف ہونے کو تیار نہیں ہیں۔

سینٹر فار یورپی پالیسی اینالیسس (سی ای پی اے) کے الیگزینڈر کولینڈر کہتے ہیں کہ مغرب کی جانب سے ان ارب پتی افراد کے اثاثے منجمد کیے گئے۔ جائیداد ضبط کی گئی۔

اُن کے بقول پوتن نے ان ارب پتیوں کو روس کی جنگی معیشت کا حصہ بنایا اور انھیں مؤثر طریقے سے استعمال کیا۔

یوکرین پر حملے کے نتیجے میں غیر ملکی کمپنیوں کے اخراج نے ایک خلا پیدا کر دیا جس کو کریملن کے دوستانہ کاروباری لوگوں نے فوری طور پر پُر کر دیا جنھیں سستے داموں انتہائی منافع بخش اثاثے خریدنے کی اجازت تھی۔

کارنیگی روس یوریشیا سینٹر کی الیگزینڈرا پروکوپینکو کا استدلال ہے کہ اس نے پوتن کو ’بااثر اور فعال وفاداروں کی ایک نئی فوج‘ تشکیل دی۔

وہ کہتی ہیں کہ اب ان ارب پتیوں کی فلاح و بہبود کا انحصار، روس اور مغرب کے درمیان مسلسل تصادم پر ہے۔ کیونکہ اُنھیں خدشہ ہے کہ جنگ ختم ہو گئی تو پرانے لوگ واپس آ جائیں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US