سنیکنگ کوئی نیا رجحان نہیں ہے بلکہ یہ بہت عرصے سے موجود ہے۔’سب سے پرانے سنیکس گریاں، بیریاں اور پھل تھے۔ لیکن اگر ہم جدید سنیک فوڈز کی بات کریں تو سب سے پرانا غالباً پاپ کارن ہے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے جنوبی امریکہ کی غاروں میں پھٹے ہوئے مکئی کے دانے دریافت کیے ہیں جو تقریباً 7,000 سال پرانے ہیں۔

بھنی ہوئی مونگ پھلی، چپس، مٹھائیاں، چاکلیٹ، پاپڑ، نمکو، کوکیز، ڈونٹس، کیک غرض انواع و اقسام کے میٹھے یا نمکین سنیکس کی نت نئی اقسام دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہیں۔
کیمبرج انگلش ڈکشنری کے مطابق سنیکس دراصل کھانوں کے بیچ کے وقت میں ہلکی پھلکی بھوک کو مٹانے والے ناشتے یا چھوٹے سے کھانے کو کہا جاتا ہے۔
انسان ہر دور میں سنیکس سے لطف اندوز ہوتے آ رہے ہیں لیکن جدید دور میں ایک وسیع صنعت وجود میں آچکی ہے جس کی سالانہ مالیت ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ اب اپنی کیلوریز کا زیادہ حصہ ان سنیکس کے ذریعے حاصل کرتے ہیں بجائے اس کے کہ دن میں دو یا تین باقاعدہ کھانے کھائیں۔
لیکن یہ صرف ہماری خواہشات اور وقت کی کمی کا شکار زندگی کی ضرورت نہیں جس نے اس بڑے کاروبار کو جنم دیا۔
خوراک بنانے والی کمپنیوں کی سمارٹ مارکیٹنگ نے بھی ہماری خوراک میں سنیکس کو لازم قرار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یاد رہے کہ لازمی نہیں کہ سنیکس جنک فوڈ ہو یا جو پہلے سے تیار شدہ اور کم غذائی قدر کا حامل ہو۔ برطانوی فوڈ ہسٹورین اور مصنف ڈاکٹر اینی گرے کہتی ہیں کہ سنیکس کو عموماً منفی پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔
سب سے پرانا ہلکا پھلکا ناشتہ

ڈاکٹر اینی گرے کہتی ہیں کہ ’ہم عام طور پر سنیک فوڈز کو ایسی چیزیں سمجھتے ہیں جو ہم آسانی سے کھانے کے لیے اٹھا لیتے ہیں اور انھیں اپنے پورے کھانے کے درمیان کے وقت میں کھاتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ اس کے ساتھ اکثر ایک قسم کا احساسِ جرم بھی جڑا ہوتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ سنیکنگ کوئی نیا رجحان نہیں ہے بلکہ یہ بہت عرصے سے موجود ہے۔
ان کے مطابق ’سب سے پرانے سنیکس گریاں، بیریاں اور پھل تھے۔ لیکن اگر ہم جدید سنیک فوڈز کی بات کریں تو سب سے پرانا غالباً پاپ کارن ہے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے جنوبی امریکہ کی غاروں میں پھٹے ہوئے مکئی کے دانے دریافت کیے ہیں جو تقریباً 7,000 سال پرانے ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’دنیا بھر میں تاریخ کے مختلف ادوار میں بہت سے لوگوں کے پاس باقاعدہ کھانے کے لیے وقت نہیں تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقتاً ہم ہمیشہ جب بھوکے ہوتے ہیں تبھی کھاتے ہیں۔‘
سنیکس کا رواج کب شروع ہوا
اگرچہ سنیکنگ انسانی تاریخ کے بیشتر حصے میں معمول کی بات جانی جاتی رہی ہے تو ہم نے اسے کھانوں کے درمیان کی چیز کے طور پر کب دیکھنا شروع کیا؟
ڈاکٹر اینی گرے کہتی ہیں کہ ’لفظ سنیک جدید دور کے آغاز تک جاتا ہے اور جب یہ پہلی بار انگریزی میں استعمال ہوا تو اس کا مطلب تھا کہ ’کسی چیز کا ایک حصہ‘۔ اس لفظ میں اشتراک کا تصور موجود ہے۔ یہ صرف کھانے کا حصہ نہیں بلکہ آپ کے پاس پیسے کا سنیک یا منافع کا سنیک بھی ہو سکتا تھا۔‘
اس کے بعد یہ لفظ بہت جلد صرف کھانے کے ساتھ جُڑ گیا۔
ڈاکٹر اینی گرے کہتی ہیں کہ ’کھیت میں کام کرنے والا مزدور کہہ سکتا تھا، اوہ، مجھے بھوک لگی ہے، میں کیک کا سنیک کھانے والا ہوں۔‘
ان کے مطابق ’آپ دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ سنیک اٹھارہویں صدی کے وسط تک محض کھانے کے لیے استعمال ہونے لگا اور باقاعدہ یا مکمل کھانے کی عادات سے بالکل باہر ہو گیا۔‘
یہ وہ وقت تھا جب ایک شاندار سنیک وجود میں آیا جس کو ہم سینڈوچ کے نام سے جانتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1762 میں انگلینڈ کے ایک رئیس جان مونٹیگو ایک شام میں تاش کھیلنے کے دوران شدید بھوک کے باوجود اٹھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تو کھانے کا وقفہ لیے بغیر انھوں نے اپنے ملازم کو حکم دیا کہ گوشت کو دو سلائس بریڈ کے درمیان رکھ کر لے آئے تاکہ وہ کھیل جاری رکھتے ہوئے کھا سکیں اور یوں سینڈوچ کی بنیاد پڑ گئی جو سنیک کی درست تعریف پر بالکل پورا اترتا ہے۔
سنہ 1762 میں جان مونٹیگو نے ہلکی بھوک کے دوران سینڈوچ بنانے کا حکم دیا جس کے بعد سینڈوچ مقبول ہوتے گئے ابتدائی صنعتی دور میں امریکہ کے سنیک تیار کرنے والوں نے مزدوروں کو اپنا صارف بنایا۔ پہلی سنیک بارز فیکٹری کے دروازوں کے قریب بننا شروع ہوئیں جن میں سیپ سینڈوچ اور اسی نوعیت کی اشیا فروخت ہونا شروع ہوئیں۔
انیسویں صدی میں پاپ کارن امریکہ میں ایک مقبول سنیک بن گیا اور اس کے بعد دیگر سنیکس بھی مارکیٹ میں آتے گئے۔ ڈاکٹر اینی گرے کے مطابق چپس پہلی بار 1910 میں تجارتی طور پر متعارف کرائے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب بہت سی تیار شدہ غذائیں سامنے آئیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد خوراک کی پروسیسنگ میں نمایاں اضافہ اور پیکجنگ میں بہتری نے سنیکس کو صارفین تک پہنچانے میں مدد دی۔ یہ کمپنیوں کو بھاری منافع بھی دے رہے تھے۔
ڈاکٹر اینی گرے کے مطابق زیادہ لوگ گھروں سے باہر کام کر رہے تھے، شفٹوں میں کام کرنے والے افراد کے پاس کھانے کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا۔
’آپ کو صنعتوں کے بڑھنے، درمیانے طبقے کے بڑھنے اور اضافی آمدنی کے باعث لوگ سنیکس پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے لگتے ہیں۔‘

سنیکس مارکیٹ کا تیزی سے پھیلاؤ
اسی دوران پیکجنگ ٹیکنالوجی بھی ترقی کر رہی تھی۔ چھوٹی چھوٹی جدتیں مثلاًً چپس کے پیکٹس کو نائٹروجن گیس سے بھرنا، اسے ٹرانسپورٹ کے دوران ٹوٹنے سے بچاتی تھیں۔
اس کے نتیجے میں مینوفیکچرنگ کو یکجا کرنا مالی طور پر فائدہ مند ثابت ہوا اور کم جگہوں پر بڑی بڑی فیکٹریاں قائم ہونے لگیں۔
سنہ 1979میں جب پال پولمین امریکی کارپوریشن ’پراکٹر اینڈ گیمبل‘ میں شامل ہوئے تب تک عام سا چپس سنیکس کی دنیا میں ایک نمایاں حیثیت اختیار کر چکا تھا۔
پال پولمین جلد ہی ایک نئی قسم کے آلو کے چپس پر کام کرنے لگے، ایک ایسا سنیک جو ڈبے میں رکھا جاتا تھا اور خشک شدہ آلو سے تیار کیا جاتا تھا۔

اس مرحلے تک بڑی کارپوریشنز چھوٹے کاروباروں پر قبضہ کر رہی تھیں اور برانڈ بنانے اور اشتہارات پر سرمایہ لگا رہی تھیں۔
آج کے دور میں پال پولمین اس صنعت کو ایک ’فوجی آپریشن‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کامیابی تیزی سے آ سکتی ہے لیکن بہت جلد ختم بھی ہو سکتی ہے، اور آپ کو مکمل عملدرآمد کے کاروبار میں ہونا چاہیے۔ آپ کی پراڈکٹ کا معیار درست ہونا چاہیے، قیمت درست ہونی چاہیے، پیکجنگ درست ہونی چاہیے، سٹور میں صحیح جگہ پر ہونا چاہیے اور اگر ضرورت ہو تو درست پروموشنز بھی ہونے چاہئیں۔‘
دنیا میں پسند کیے جانے والے سنیکس کون سے ہیں؟
سنیکس عموما سستے اور کم مقدار میں فروخت کیے جاتے ہیں اس سب پس منظر کوجاننے کے بعد کے بعد بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ جب بھوک لگتی ہے تو لوگ زیادہ کس سنیک کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں۔
ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والی باربرا اویوری کہتی ہیں کہ ’میرا پسندیدہ سنیک چیپا ہے۔ یہ ایک چھوٹا گول بن ہوتا ہے جو آٹے، پنیر، مکھن، دودھ اور نمک سے بنتا ہے۔ آپ اس کا آٹا بنا کر خوبصورت گولف بالز جیسی شکل دیتے ہیں اور پھر اسے بیک کرتے ہیں۔‘
باربرا اویوری خود اپنے سنیکس بنانا پسند کرتی ہیں لیکن ان کا بیٹا تیار شدہ سنیکس کو ترجیح دیتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بھی پنیر سے بنی چیز پسند کرتا ہے جو میرے ذوق سے ملتی جلتی ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ اس نے نمکین اور پنیر والے سنیکس کا وہی ذائقہ وراثت میں پایا جو مجھے بچپن میں پسند تھا، لیکن میں اس کا قدیم ورژن کھاتی تھی۔‘
نئی دہلی میں رہنے والی ڈاکٹر سواتی مشرا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں آلو، دھنیا، پیاز اور مٹر سے بھرے ہوئے سموسے کھانے کا شوق ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کوئی بھی پارٹی یا شادی ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔‘
وہ یہ بھی دیکھتی ہیں کہ آہستہ آہستہ تازہ تیار شدہ سنیکس کی جگہ تیار مصنوعات لے رہی ہیں اور بچوں کو پیک شدہ کھانوں سے دور رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
سٹیلا اوسیگبو کہتی ہیں کہ ’میں باقاعدگی سے اپنے مقامی مارکیٹ جاتی ہوں اور فِش رول خریدتی ہوں۔ یہ آٹے، مچھلی، نمک اور ماڈیگا، ایک قسم کی روٹی، سے بنتا ہے، جو آٹے، نمک اور چینی سے تیار کیا جاتا ہے۔
سٹیلا اوسیگبوسٹیلا اوسیگبو مزید کہتی ہیں کہ ’ماڈیگا نائیجیریا کے جنوب مغرب میں ایک بہت مقبول مقامی روٹی ہے۔ یہ اپنی ساخت اور بھرپور ذائقے کے لیے پسند کی جاتی ہے۔‘
بینکاک سے تعلق رکھنے والی پاپاچا نپانان کہتی ہیں کہ ’میں روزانہ سنیکس کھاتی ہوں۔ عام طور پر یہ کچھ کرسپی ہوتا ہے، کبھی چاکلیٹ، اور کبھی میں ناچوز کھا لیتی ہوں۔‘
وہ اپنے چھٹی کے دن سنیکس جمع کر لیتی ہیں اور پھر کام کے دنوں میں جب بھی وقت ملتا ہے انھیں کھاتی ہیں۔
تیز رفتار ترقی

مارکیٹ ریسرچ کمپنی سرکانا کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں تقریباً نصف بالغ افراد روزانہ تین یا اس سے زیادہ سنیکس کھاتے ہیں۔
یہ رجحان کئی دیگر ممالک میں بھی نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سنیکس کے لیے ہماری بھوک کی کوئی حد نہیں۔
پولمین بعد میں انڈسٹری کی بڑی کمپنی یونی لیور کے سی ای او بنے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے سنیکس مارکیٹ میں قدم رکھا تو یہ نسبتاً چھوٹی تھی تقریباً 300 ارب ڈالر سے بھی کم۔ آج میں کہوں گا کہ یہ تقریباً 1.2 سے 1.5 ٹریلین ڈالر مالیت کی اشیا ہیں جو سنیکس کیٹیگری میں فروخت ہو رہی ہیں۔‘
انھیں توقع ہے کہ یہ وسیع صنعت 2035 تک دوگنی بڑی ہو جائے گی۔