انڈیا میں کسان ووٹرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات سے صرف چند مہینے پہلے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کسانوں کو مزید غصہ دلانے سے گریز کرے گی۔
احتجاجی کسانوں نے گذشتہ ہفتے دہلی کی طرف مارچ شروع کیا تھاانڈیا میں حکومت کے ساتھ مذکرات میں ناکامی کے بعد احتجاجی کسانوں نے ایک بار پھر دارالحکومت نئی دہلی کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
احتجاجی کسانوں نے گذشتہ ہفتے دہلی کی طرف مارچ شروع کیا تھا لیکن انھیں دارالحکومت سے تقریباً 200 کلومیٹر دور روک دیا گیا تھا جس کے بعد کسان رہنما اپنے مطالبات پر حکومت سے مذاکرات کر رہے تھے۔
تاہم اب کسان رہنماؤں کی جانب سے حکومتی تجاویز کو مسترد کر دیا گیا ہے اور اگلے ہفتے ایک بار پھر دہلی کی طرف مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مذاکرات کے دوران انڈین حکومت نے کسان رہنماؤں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت پانچ سالہ معاہدے کے تحت کسانوں سے اناج خریدے گی تاہم پیر کی رات احتجاجی کسانوں کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی پیشکش ’ہمارے مفاد میں نہیں۔‘
حکومتی نمائندوں کی جانب سے کسانوں کو ایک پانچ سالہ معاہدے کی پیشکش کی گئی تھی جس کے مطابق حکومت نے ’منیمم سپورٹ پروگرام‘ کے تحت کسانوں سے دالیں، مکئی اور کپاس کو فلور پرائس پر خریدنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں تمام 23 اناج ’منیمم سپورٹ پروگرام‘ کے تحت خریدنے کی ’قانونی گارنٹی‘ دے۔
انڈین حکومت کی جانب سے گذشتہ ہفتے کسانوں کو روکنے کے لیے ہریانہ کی سرحد پر بڑے پیمانے پر رُکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ اس موقع پر پولیس کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج بھی کیا گیا تھا۔
اتوار کو انڈین وزیر پیوش گویل نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان کی کسانوں سے ’مثبت‘ بات چیت ہوئی اور حکومت کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے نئی حکمت عملی بنا رہی ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیںکسانوں کے ایک رہنما جگجیت سنگھ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مطالبات پورے کرے یا راستے سے رُکاوٹیں ہٹا کر ہمیں پُرامن طریقے سے دہلی کی طرف مارچ کرنے کی اجازت دیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ بدھ کو اپنے احتجاجی مارچ کا دوبارہ آغاز کر دیں گے۔
انڈیا میں کسان ووٹرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات سے صرف چند مہینے پہلے وزیرِ اعظم نریندر مودی حکومت کسانوں کو مزید غصہ دلانے سے گریز کرے گی۔
واضح رہے 2020 میں بھی ہزاروں کسان متنازع زرعی اصلاحات کے خلاف دہلی کی سرحد پر دھرنا دیے بیٹھے رہے تھے جس کے بعد حکومت کو نئے قوانین معطل کرنے پڑے تھے۔
احتجاجی کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے 2020 میں کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے اور ان کی جانب سے پینشن اور قرضے معاف کروانے کے حوالے سے نئے مطالبات بھی پیش کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟
سنہ 2020 میں کسانوں نے متنازع زرعی اصلاحات کے قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دلی کی سرحدوں پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک ڈیرے ڈالے تھے۔
حکومت کی جانب سے قوانین کو منسوخ کرنے پر رضامندی کے بعد ایک سال تک جاری رہنے والا احتجاج، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے، کو ختم کر دیا گیا۔
اب کسان ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کے اہم مطالبات ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔
کسانوں کے مطالبات ہیں کہ
- ’منیمم سپورٹ پروگرام‘ پر فصلوں کی خریداری کی ضمانت دی جائے اور حکومت اس بابت نوٹیفکیشن جاری کریں۔
- سوامی ناتھن کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی، اسے نافذ کیا جائے۔
- کسانوں کو فصل اگانے پر آنے والی لاگت پر 50 فیصد منافع دیا جائے۔
- کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں۔
- کسانوں کی تحریک کے دوران ان پر جو مقدمات درج ہوئے تھے وہ واپس لیے جائیں۔
- حکومت کی جانب سے کام دینے کی سکیم منریگا کے تحت سال میں 200 دن کا کام فراہم کیا جائے اور یومیہ اجرت 700 روپے کی جائے۔
احتجاجی کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے 2020 میں کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے’منیمم سپورٹ پروگرام‘ کے حامی اور مخالفین کیا کہتے ہیں؟
تجزیہ کار اور زرعی اکانومی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ’منیمم سپورٹ پروگرام‘ 1960 کی دہائی کا آئیڈیا ہے جس وقت ملک میں اناج کی شدید قلت پائی جاتی تھی۔
ان کے مطابق اس وقت کی حکومت نے کسانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ’منیمم سپورٹ پروگرام‘ متعارف کروایا تھا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اناج اُگائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اب اناج وافر مقدار میں موجود ہے اس لیے ’منیمم سپورٹ پروگرام‘ کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔
تاہم ’منیمم سپورٹ پروگرام‘ کے حامیوں کا موْقف ہے کہ یہ نظام اس لیے ضروری ہے کیونکہ اناج کی اوپر نیچے ہوتی قیمتوں سے کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ منافع میں اضافہ ہونے سے کسانی نئی ٹیکنالوجی پر پیسے خرچ کر پائیں گے اور اناج کی پروڈکشن میں بھی اضافہ ہوگا۔