پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 82 ارکان سنی اتحاد کونسل میں شامل: تحریک انصاف پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں حاصل کر لے گی؟

جب الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد سے پوچھا گیا کہ آیا اس اقدام کے بعد پاکستان تحریک انصاف قومی اور صوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں حاصل کر پائے گی، تو ان کا کہنا تھا کہ اگر سنی اتحاد کونسل نے انتخابات سے قبل خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے کوئی فہرست جمع کروائی تھی، تو ایسا ممکن ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ وفاق، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں اتحاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے
Getty Images
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد امیدوار عمر ایوب خان سنی اتحاد کونسل کے رہنما صاحبزادہ محمد حامد رضا کے ساتھ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں

پاکستان تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ وفاق، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں اتحاد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد دو روز میں پی ٹی آئی کے 80 سے زائد حمایت یافتہ نو منتخب آزاد اراکینِ قومی اسمبلی، سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ گزشتہ دو روز کے دوران پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 82 ارکان اسمبلی ان کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہپیر کے روز 50 جبکہ منگل کے روز 32 منتخب ہونے والے ارکان قومی اسمبلی ان کی جماعت میں شامل ہوئے اور ان کی شمولیت کے سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر ترجیحی لسٹ بھی جلد ہی الیکشن کمیشن میں جمع کروا دی جائے گی۔

یاد رہے کہ سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کے رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر نے پیر کو کہا تھا کہ قومی اسمبلی میں 70 جبکہ پورے ملک میں 227 مخصوص نشستیں ہیں جو صرف سیاسی جماعتوں کو ملتی ہیں۔

’ان مخصوص نشستوں کو محفوظ کرنے کے لیے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوا ہے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں ان کو حکومت سازی کے لیے اکثریت حاصل ہے۔

پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نون کے بعد سب سے زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے پاس ہیں لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کو اپنے اراکین کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کروانے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟

خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں کا حصول

عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا مسئلہ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں کا حصول ہے۔

انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے پر پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لے لیا اور اس کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینا پڑا۔

الیکشن رولز 2017 کے تحت آزاد حیثیت میں منتخب امیدوار الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات میں کامیابی کے حتمی نوٹیفکیشن کے اجرا کے تین دن کے اندر کسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔

اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ایسا نہیں کرتے تو ان کو مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

اس ہی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی نے اتحاد کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے اراکین کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا حکم دیا ہے۔

جب الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد سے پوچھا گیا کہ آیا اس اقدام کے بعد پاکستان تحریک انصاف قومی اور صوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو حاصل کر پائے گی، تو ان کا کہنا تھا کہ اگر سنی اتحاد کونسل نے انتخابات سے قبل خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے کوئی فہرست جمع کروائی تھی، تو ایسا ممکن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بعد اس جماعت کے ارکان کی تعداد کو دیکھتے ہوئے خواتین کی مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن میںدرخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

تاہم اگر سنی اتحاد کونسل نے ان مخصوص نشستوں کے لیے کوئی درخواست جمع نہیں کروائی تو پھر یہ الیکشن کمیشن کا صوابدید ہے کہ وہ آزاد ارکان کی سنی اتحاد میں شمولیت کے بعد اس جماعت کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ کرتا ہے یا نہیں۔

یاد رہے کہ جب قبائلی علاقے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہوئے تو پھر وہاں سنہ 2019 میں انتخابات ہوئے۔ تین نشستوں کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں نے بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پھر اپنی مخصوص نشست بھی حاصل کر لی۔ فاٹا، اب خیبر پختونخوا، سے تعلق رکھنے والے یہ تین آزاد اراکین شفیق آفریدی، بلاول آفریدی اور عباس الرحمان تھے۔ الیکشن کمیشن نے ان کی طرف سے دی گئی فہرست کو بعد میں بھی قبول کیا اور پھر ان کو ایک مخصوص نشست بھی ان کی مرضی کے مطابق دے دی۔

یاد رہے کہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے لیے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ تک الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کروا سکتی ہیں۔

پشاور میں آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی نے بی بی سی کو بتایا کہ تحریک انصاف کی ترجیح مخصوص نشستوں کا حصول ہے۔

فرزانہ علی کے مطابق تحریک انصاف اب صرف اس صورت میں ہی اپنی مرضی کی مخصوص نشستیں حاصل کر سکے گی جب کسی جماعت کی طرف سے جمع کرائی گئی فہرست میں موجود امیدوار اپنا نام واپس نہ لے لیں۔

ان کی رائے میں ایسی صورت میں پھر الیکشن کمیشن اس جماعت کو نئی فہرست جمع کرانے کا کہے گا۔

پی ٹی آئی
Getty Images

یہ بھی پڑھیے

’ہم نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کروائی‘

دوسری جانب بی بی سی نے جب سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا سے اس بابت رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ان کی جماعت نے الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے کوئی فہرست جمع نہیں کروائی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا چونکہ یہ قانونی معاملہ ہے اس لیے پی ٹی آئی کے سنیئیر رہنما جن میں بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب شامل ہیں، وہ اسمعاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

حامد رضا نے دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماوں نے تمام امور پر غور کرنے کے بعد ہی اپنی جماعت کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ گزشتہ چھ سال سے اتحاد ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ اگلے چند روز میں عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل بھی جائیں گے۔

پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل
Getty Images

کیا پی ٹی آئی یہ اپنے آزاد امیدواروں کو دوسری جماعتوں میں جانے سے روکنے کے لیے کر رہی ہے؟

الیکشن کمیشن کے سابق سیکٹرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے جو حمایت یافتہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کرتے ہیں، وہ اس کے بعد کسی اور جماعت میں نہیں جا سکیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر اس کے بعد کوئی امیدوار کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو یہ الیکشن ایکٹ کے تحت فلور کراسنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی وابستگی تبدیل کرنے والا رکن اپنی نشست سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والےپی ٹی آئی کے حمایت یافتہآزاد امیداروں کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کروانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ وہ کسی دوسری سیاسی جماعت میں نہ جا سکیں۔

تحریک انصاف کو کون سے سیاسی اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف اس وقت حکومت سازی کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے۔ کبھی ایک جماعت تو کبھی دوسری سے اس کے رہنماؤں کے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر محمد علی سیف نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت ان کی جماعت کو متعدد سیاسی اور قانونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔

ان کے مطابق جس جماعت سے بھی ہمارے مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو سب سے پہلے پارٹی کے اندر سے ہی اختلافی آواز اٹھ جاتی ہے۔

بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق اس کے علاوہ تحریک انصاف کی صفوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ پارٹی کو کسی ایک فرقے کی نمائندہ جماعت میں شمولیت نہیں اختیار کرنی چاہیے۔

ان کے مطابق جب سنی اتحاد کونسل سے مذاکرات شروع ہوئے تو پھر پارٹی کے اندر سے یہ اعتراض اٹھا کہ ایسے شدت پسند گروپ تحریک انصاف کے ارکان اور کارکنان کے لیے قابل قبول نہیں۔

بیرسٹر محمد علی سیف کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ آزاد حیثیت میں بھی تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔

ان کے مطابق اس وقت تحریک انصاف کو غیرمشروط حمایت کی ضرورت ہے مگر ساتھ ساتھ ایسی جماعت کی بھی تلاش ہے جس سے سیاسی اور قانونی چیلنجز سے بھی نمٹا جا سکے اور اپنے کارکن کو بھی مطمئن رکھا جا سکے۔

بیرسٹر سیف کے مطابق تحریک انصاف کے ارکان کے پاس منگل تک کا وقت ہے مگر الیکشن کمیشن نے قسطوں میں حتمی نتیجہ دینا شروع کر رکھا ہے، جس سے مزید مشکل پیش آ رہی ہے۔

پارلیمنٹ کے ایک اعلی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ الیکشن کمیشن ہر حتمی نتیجے کے ہر نوٹیفکیشن کے نیچے یہ لکھ رہا ہے کہ اب تین دن کا وقت شروع ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق تین دن کے بعد بھی کوئی رکن کسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے مگر پھر اسے مخصوص نشستوں کے کوٹے کے لیے نہیں گنا جا سکتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US