آئی ایم ایف نے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی استحکام اور خوشحالی کے لیے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیز پر کام کے منتظر ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی کمیونیکشین ڈائریکٹر جولی کوزیک نے کہا ہے کہ ایگزیکٹیو بورڈ نے 11 جنوری کو سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پاکستان کے ریویو کی منظوری دی تھی جس کے بعد ادائیگیوں کا معاملہ ایک اعشاریہ نو ارب ڈالر تک پہنچا۔
جمعرات کو نیویارک میں بریفنگ کے دوران جولی کوزیک نے سٹینڈ بائی اریجنمنٹ کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی بدولت معشیت کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مدد ملتی ہے اور اس کے تحت مالی طور پر کمزور ممالک پر توجہ دی جا رہی ہے۔
نگراں دور حکومت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر جولی کوزیک نے اسے سراہتے ہوئے کہا کہ اس کے دور میں حکام کی جانب سے معاشی استحکام برقرار رکھا گیا جو کہ مالیاتی اہداف پر سختی سے عمل اور سماجی تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کی بدولت ممکن ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ افراط زر کو کنٹرول کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے سخت مانیٹری پالیسی کی وجہ سے ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نئی حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے مالی استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے منتظر ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر خط لکھیں گے اور تحقیقات کا مطالبہ کریں گے کیا آئی ایم ایف اس خط کو قبول کرے گا خصوصاً جب بات آئی ایم ایف کے دائرہ کار میں آنے والی گورننس کے حوالے سے ایسی صورت میں آئی ایم کیا کرے گا۔
اس پر انہوں نے تبصرے سے احتراز کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے سیاسی معاملات یا اس حوالے سے کسی نکتے پر بات نہیں کریں گی۔۔
خیال رہے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مدت مدت اپریل میں ختم ہو جائے گی۔
جولائی 2023 میں نو ماہ کے لیے کیے گیے اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کیے گئے تھے جس کی وجہ سے معیشت کو کچھ سہارا ملا تھا، تاہم نئی حکومت کو ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ہی اگلے بجٹ کی تیاری اور ملک میں معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہو گی۔ اور استحکام کے لیے اس کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا پڑے گا۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر رضا باقر کے مطابق پاکستان کا موجودہ زر مبادلہ آٹھ ارب ڈالر کے قریب ہے جبکہ اس کو اگلے پانچ سالوں میں سات ارب ڈالر محض بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ ملک کے دیگر اخراجات اور معیشت کی بڑھوتری کے لیے درکار سرمایہ اس سے الگ ہو گا۔