اسلام آباد۔8مارچ (اے پی پی):خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے کہا ہے کہ تعلیم ہی خواتین اور لڑکیوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کا اصل ذریعہ ہے ،خواتین کی تعلیم پر سرمایہ کاری اور انہیں علم و ہنر سے آراستہ کرنے سے ایک بہتر اور خوشحال معاشرے کی تشکیل ہوسکتی ہے ۔ جمعہ کو عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے کہا کہ تعلیم صرف علم حاصل کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ افراد کو اپنی کمیونٹی اور اس سے آگے تبدیلی کے قابل بنانے کے بارے میں ہے ۔انہوں نے ٹیکنالوجی اور جدت سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں صنفی مساوات کی طرف کام کرنے پر زور دیتےہوئے کہاکہ ہم مل کر ایسا مستقبل بنا سکتے ہیں جہاں خواتین کو مواقع تک مساوی رسائی حاصل ہو اور وہ معاشرے میں پوری طرح اپنا حصہ ڈال سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی آبادی میں خواتین کا تناسب تقریباً 50 فیصد ہے، لیکن انہیں ساتھ لیکر چلنے اور بااختیار بنانے کے معاملے میں ملک کو ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس-2023 کے مطابق، پاکستان 146 ممالک میں سے 142 نمبر پر ہے۔ یہ کم مالی شمولیت، تعلیمی حصول، صحت کی خدمات تک رسائی اور افرادی قوت میں شرکت کی وجہ سے ہے جو کہ افسوسناک صورتحال کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ چیلنجز صرف رکاوٹیں نہیں ہیں؛ وہ ناانصافیاں ہیں جن کا فوری طور پر ختم ہونا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، اقوام متحدہ کی رکن ریاست کی حیثیت سے، اقوام متحدہ کے چارٹر کی مکمل حمایت کرتا ہے جو صنف کی کسی بھی تفریق کے بغیر انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کو فروغ دینے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین بنیادی حقوق کو بھی یقینی بناتا ہے۔خاتون اول نے لڑکیوں کی تعلیم پر بھی زور دیا تاکہ ملک کی خواتین کو اپنے ذہن کی قوت کے ساتھ زندگی کی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے مضبوط بنایا جا سکے۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے اور انہیں معاشی استحصال سے بچانے کے لیے ہماری خواتین کو فنی ہنر سے آراستہ کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ خواتین ڈیجیٹل پلیٹ فارمز استعمال کرکے روایتی ملازمتوں کی تلاش میں آنے والی بہت سی رکاوٹوں پر قابو پا سکتی ہیں۔ ہمیں ڈیجیٹل وسائل تک رسائی بڑھانے، ٹیکنالوجی میں تعلیم اور تربیت فراہم کرنے اور ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ منٹورشپ پروگرامز، اسکالرشپس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی فراہمی کے ذریعے خواتین کو افرادی قوت میں داخل ہونے اور قومی ترقی میں حصہ لینے کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرکے پاکستان میں صنفی مساوات اور خواتین کی بااختیاری کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے خواتین میں بریسٹ کینسر کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ پورے پاکستان میں خواتین کے لیے اسکریننگ اور علاج کی خدمات تک بہتر رسائی کے لئے آواز بلند کرتی رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر صرف ایک صحت کا مسئلہ نہیں ہے، یہ سماجی انصاف کا مسئلہ ہے۔ ہر عورت، چاہے اس کا سماجی و معاشی مقام کچھ بھی ہو، معیاری صحت کی دیکھ بھال اور صحت مند زندگی گزارنے کے موقع کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ معذور افراد کے لیے شمولیت اور مساوی مواقع کو فروغ دینے کے لیے مکمل پرعزم ہیں۔اس سے قبل سیمینار میں ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور ڈاکٹر مہ نور خان نے ترقی پذیر معاشرے میں خواتین کے کردار کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔