صدر کے انتخاب کے لیے الیکشن، پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے آصف زرداری کامیاب

image

صدر کون بنے گا؟ مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری یا اسٹیبلشمنٹ مخالف محمود اچکزئی

بے نظیر کے قتل پر ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگانے والے آصف علی زرداری

اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں عدم مداخلت کے حامی صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آصف علی زرداری کی پنجاب اسمبلی میں بھاری اکثریت سے جیت

حکمران اتحاد کے امیدوار آصف علی زرداری پنجاب اسمبلی میں بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ 

حکمران اتحاد کے آصف علی زرداری نے الیکٹرول کالج کے پنجاب اسمبلی میں 246ووٹ حاصل کئے، جبکہ سنی اتحاد کونسل کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی  100ووٹ حاصل کر سکے۔ 

صدارتی الیکشن کے دوران کل 6 ووٹ مسترد ہوئے۔ پنجاب اسمبلی میں پریزائیڈنگ آفیسر نثار درانی نے صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان کیا۔

پنجاب اسمبلی میں کل 353 میں سے 352 نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ تحریک لبیک نے پنجاب اسمبلی میں صدارتی الیکشن میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، 

پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی کی جانب سے جیت کی خوشی میں نعرے بازی کی گئی۔

سندھ اسمبلی میں آصف علی زرداری کے 151،  محمود خان اچکزئی کے  09 ووٹ

صدارتی انتخابات امیدوار آصف علی زرداری نے سندھ اسمبلی سے 151 ووٹ حاصل کیے۔

سنی اتحاد کونسل کے نامزد صدراتی امیدوار محمود خان اچکزئی نے  09 ووٹ حاصل کئے۔

 دو ووٹ عدالتی حکم کے باعث گنتی میں شمار نہیں کیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان اسمبلی میں آصف زرداری کے حق میں 47 ووٹ،  محمود خان اچکزئی کو کوئی ووٹ نہیں ملا

بلوچستان اسمبلی میں آصف زرداری کے حق میں 47 ووٹ پڑے، جبکہ محمود خان اچکزئی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔

اس موقعے پر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’حمایت کرنے والی تمام جماعتوں اور اراکین کے شکر گزار ہیں۔ آصف زرداری کو بلوچستان سے تاریخی کامیابی ملی ہے۔‘

بلوچستان اسمبلی کے 65 میں 62 ووٹ قابل استعمال تھے۔ 65 میں سے 47 اراکین نے اپنا ووٹ استعمال کیا، جبکہ 15 اراکین نے ووٹ نہیں دیا۔

بلوچستان نیشل پارٹی عوامی کے سربراہ میر اسد بلوچ نے صدارتی انتخاب سے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

صدارتی الیکشن کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ کا وقت ختم

صدارتی انتخاب کے لیے 4 بجے پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوان کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور ووٹوں کی گنتی کی جا رہی ہے۔

پولنگ کا آغاز سنیچر کو صبح دس بجے شروع ہوا۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں قائم پولنگ سٹیشنوں پر منتخب اراکین نے سہہ پہر چار بجے تک اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔صدارتی الیکشن میں ٹوٹل 696 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ ان میں 336 قومی اسمبلی، 100 سینیٹ اور 65 ہر صوبائی اسمبلی کے ووٹ ہیں۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی میں 398 اراکین میں سے 381 نے ووٹ ڈالا۔ 17 اراکین نے ووٹ نہیں ڈالا۔

جے یو آئی ف کے 12 اور جماعت اسلامی کے ایک رکن نے ووٹ نہیں ڈالا۔

سنی اتحاد کونسل کے شبلی فراز ،اعجاز چوہدری اور اعظم سواتی نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ 

جی ڈی اے کے سینیٹر مظفر حسین شاہ نے بھی ووٹ کا کاسٹ نہیں کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ، حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی نعرے بازی

پاکستان میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔

وزیراعظم شہباز شریف اور صدارتی امیدوار آصف علی زرداری نے اپنے اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔

قومی اسمبلی ہال میں اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی پریذائڈنگ میں پولنگ کا عمل 11 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے احتجاج کیا۔

ارکان نے عمران خان کے حق میں نعرے لگائے اور ساتھ میں مطالبہ کیا کہ الیکٹورل کالج مکمل نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات ملتوی کیے جائیں۔ پولنگ کا عمل شروع کرنے سے قبل پولنگ ایجنٹس کا تقرر عمل میں لایا گیا۔ آصف علی زرداری کی پولنگ ایجنٹ شیری رحمان جبکہ محمود خان اچکزئی کے پولنگ ایجنٹ سردار شفیق ترین مقرر کیے گئے۔

وزیراعظم شہباز شریف اور صدارتی امیدوار آصف علی زرداری ایک ساتھ ایوان میں پہنچے تو حکومتی ارکان نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔

حروف تہجی کے اعتبار سے ارکان نے ووٹ ڈالنے شروع کیے تو سب سے پہلا ووٹ عامر طلال گوپانگ نے کاسٹ کیا۔

شہباز شریف ووٹ ڈالنے گئے تو اپوزیشن ارکان نے چور چور مینڈیٹ چور کے نعرے لگائے جبکہ حکومت کی جانب سے شیر شیر اور گھڑی چور کے نعرے بلند کیے۔

آصف علی زرداری نے ووٹ کاسٹ کیا تو حکومتی ارکان نے ڈسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔ ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد آصف علی زرداری نے اپنے مد مقابل محمود خان اچکزئی سے گلے ملے۔ ان کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے بھی ووٹ کاسٹ کیا اور وہ بھی محمود خان اچکزئی سے ملے۔

صدارتی انتخابات کے موقع پر آصف علی زرداری کی صاحبزادیاں بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری موجود تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر سونیا علی کا ووٹ چیلنج

پنجاب اسمبلی میں حکومتی اتحاد نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر سونیا علی کا ووٹ چیلنج کر دیا۔

سنی اتحاد کونسل کی رکن سونیا علی نے پنجاب اسمبلی میں اپنا ووٹ دکھایا تھا۔

پولنگ ایجنٹ نے الیکشن کمیشن کو ووٹ منسوخ کرنے کی تحریری درخواست دے دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان اسمبلی کے 15 ارکان کا صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان

بلوچستان اسمبلی میں بھی صدارتی انتخابات کے لیے پریزائیڈنگ افسر کے فرائض چیف جسٹس نعیم اختر افغان نے سرانجام دیے۔ قائمقام چیف جسٹس ہاشم خان کاکڑ بھی ان کے ہمراہ تھے۔

پہلا ووٹ پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک نے ڈالا۔ 

بلوچستان کی 65 رکنی اسمبلی میں 47 ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ سردار اختر مینگل اور جام کمال کی جانب سے قومی اسمبلی میں جانے کی وجہ سے دو نشستیں خالی تھیں، جبکہ ایک نشست (پی بی 22 حب ) پر کامیاب امیدوار کا نوٹیفکیشن اب تک جاری نہیں ہوسکا ہے۔

بلوچستان واحد صوبائی اسمبلی ہے جس کے ہر رکن کا ووٹ مکمل ووٹ  شمار ہوتا ہے جبکہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد بلوچستان کے مجموعی ارکان سے تقسیم کرکے ایک ووٹ بنتا ہے۔

بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار آصف علی زرداری کو اتحادی جماعت مسلم لیگ ن اور  بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔ چار نشستیں رکھنے والی نیشنل پارٹی اور تین نشستیں رکھنے والی اے این پی نے  بھی صدارتی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں اور حمایتوں کو مجموعی طور پر 47 ارکان کی حمایت حاصل تھی۔

بلوچستان اسمبلی کے 15 ارکان نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔ ان میں جمعیت علمائے اسلام کے 12، جماعت اسلامی اور حق دو تحریک کا ایک ایک رکن شامل ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے اکلوتے رکن اسد بلوچ نے احتجاجاً صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمود خان اچکزئی کو بلوچستان اسمبلی میں کوئی پولنگ ایجنٹ نہ مل سکا

پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل اور محمود خان اچکزئی کی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا بلوچستان اسمبلی میں کوئی رکن نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔

صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کو بلوچستان اسمبلی میں کوئی پولنگ ایجنٹ بھی نہ مل سکا۔ انہوں نے اپنی جماعت پشتونخوا میپ کے صوبائی صدر عبدالقہارخان ودان کو پولنگ ایجنٹ مقرر کیا تھا مگر الیکشن کمیشن نے انہیں پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دینے سے روک دیا اور کہا کہ پولنگ ایجنٹ کے لیے اسمبلی رکن ہونا ضروری ہے۔ عبدالقہار خان ودان کا کہنا تھا کہ انہیں انتخابی عمل کو دیکھنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صدارتی الیکشن غیرقانونی اور غیر آئینی ہے، عمر ایوب

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے صدارتی الیکشن کو غیرقانونی و غیرآئینی قرار دیا تھا۔

الیکشن کے لیے پارلیمنٹ آمد کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک مخصوص سیٹوں کا معاملہ حل نہیں ہوتا صدارتی الیکشن کو ملتوی کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’الیکٹورل کورم پورا نہیں ہے۔ ہم نے اس پر پہلے بھی بارہا آواز اٹھائی ہے۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US