اسلام آباد۔11مارچ (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ مٹھی بھر اشرافیہ 90 فیصد وسائل پر قابض ہے ، اشرافیہ کے لئے سبسڈی کا کوئی جواز نہیں ، ٹیکس اور بجلی چوری روکنا ہوگی، رمضان المبارک کے دوران اشیا کی مناسب قیمتوں میں فرا ہمی اور ان کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ نو منتخب وفاقی وزرا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، ہم سب کیلئے یہ عزت اور اعزاز کا لمحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کی خدمت کیلئے منتخب ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ ذمہ داری پوری کرنے کی طاقت عطا فرمائے ، ہم سب مل کر شبانہ روز محنت سے عوام کی خدمت کیلئے جائیں، سیاسی قیادت ، سرکاری حکام، پارلیمنٹ، صوبے اور عوام متحد ہو کر نئے ولوے اورعزم سے کام کریں، تاریخ میں ہمارا یہ ذکر ہو کہ ہم نے حتی المقدور خدمت کی ، انہوں نے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ ملا، ان میں پاکستان مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی سیاسی جماعتیں شامل ہیں، ہمیں اس مینڈیٹ کا احترام کرنا ہوگا ۔ اس مینڈیٹ کا تقاضا یہ ہے کہ ہم خدمت کے سفر کی جانب تیزی سے قدم اٹھائیں ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 16 ماہ کے دوران پوری قوم نے ہماری کارکردگی دیکھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قوم کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہماری کارکردگی ہے۔ نگران حکومت کے دوران معاشی صورتحال مستحکم رہی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حالات کچھ بھی ہوں ہم اس ملک کی ذمہ داری اٹھائیں گے۔ حزب مخالف کو عام انتخابات کے بعد حکومت بنانے کی دعوت دی مگروہ کامیاب نہیں ہوئے۔ پھر ہم نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور اب ہمیں تیزی سے آگے بڑھنا ہے جس کا عوام کو انتظار ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا ہے۔ منگل کو پہلا روزہ ہے جس کی پوری قوم کو مبارکباد ہو۔ یہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے ، ہم تراویح میں سربسجود ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے دعا کریں۔شہباز شریف نے کہا کہ رمضان المبارک میں وفاقی حکومت نے سات ارب کے بجائے 12 ارب روپے کا پیکج دیا ہے، یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیائے خوردو نوش ارزاں قیمتوں پر دستیاب ہوں گی۔ موبائل یوٹیلیٹی سٹور گزشتہ سال کی طرح قائم کئے گئے ، بی آئی ایس پی کے تحت کروڑوں لوگوں کو اربوں روپے کی اضافی نقد رقم دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کی مانیٹرنگ کی جائے اور حق داروں اور عام آدمی کو مقررہ قیمت پر اشیا ملنی چاہئیں اور ان کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت قوم کو بڑے چیلنج مہنگائی کا سامنا ہے، تمام صوبائی حکومتیں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے مل کر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہمارا پہلا امتحان ہے۔وفاق میں قیمتوں میں کسی قسم کی خرابی اور اشیا کی عدم دستیابی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ صوبوں میں صوبائی حکومتوں سے مل کر اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنے کیلئے اقدام کریں گے۔ عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں پس رہا ہے۔ مٹھی بھر اشرافیہ 90 فیصد وسائل پر قابض ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی روح کے خلاف ہے۔ سالانہ بجلی کی چوری 400 سے 500 ارب روپے ہے اور بلنگ کا بوجھ غریب آدمی پر ڈالا جاتا ہے۔ اشرافیہ کو جو سبسڈی دی جا رہی ہے اس کا کوئی جواز نہیں، یہ بڑا تفاوت ہے، جتنی جلدی یہ ختم ہو قوم کا بھلا ہوگا۔ گیس ، بجلی کا گردشی قرضہ تقریبا 5 ہزار ارب روپے ہے، ملک میں بجلی وافر مقدار میں موجود ہے ،پی آئی اے سمیت سرکاری اداروں کو بھاری خسارے کا سامنا ہے ، نقصانات ہو رہے ہیں ، سرکاری تنخواہیں ادھار سے دے رہے ہیں، ایماندار اور رضا کارانہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ لیکن ٹیکس بیس نہیں بڑھائی جاتی ہے ، ابھی نہیں تو کبھی نہیں ، کارکردگی دیکھنا ہوگی ، یہ خون کے دریا اور قربانی کا سفر ہے، مشکلات کے سمندر سے گزرنا ہے۔ غربت ، مہنگائی، بے روزگاری کرپشن کے خلاف مل کر جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس سلیب کم کرنا چاہئے۔ بیس کو توسیع دینا چاہئے اکھٹے کئے محصولات کا تین گنا غائب کر دیا جاتا ہے، ان چیلنجز اور مشکلات کا ہم سب کو سامنا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنا منتخب حکومت کی ذمہ داری ہے ، قوم نے ہمیں ووٹ دیا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ اور عوام کو جواب دہ ہیں۔ایک لمحہ وقت کا ضیاع ناقابل قبول ہے۔ تجربہ اور جوان خون کابینہ میں شامل ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عزم و ہمت کے ساتھ آپ میرا ساتھ دیں، مل کر ملک کو عظیم بنائیں گے، وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جنہوں نے ہر صورت اپنی منزل پانے کا فیصلہ کیا، محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔وزیراعظم نے کہا کہ ریٹیلرز پر ٹیکس لگانے کی بات کی جاتی ہے ، ہول سیلر کی بات کوئی نہیں کرتا، محنت، مسلسل محنت اور ایثار و قربانی کے جذبے سے کشتی پار لگے گی، یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا میں برسات سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، ہمیں ان قدرتی آفات کا بھی سامنا کرنا ہے، اس سے آنے والی قیامت خیز تباہی سے نمٹنے کے لئے وسائل چاہئیں، ہمیں ٹیکس چوری روکنا ہوگی، اس سے قرضہ نہیں لینا پڑے گا، تعلیم و صحت کے لئے وسائل دستیاب ہوں گے تاکہ ہم کشکول توڑ سکیں اور ہماری آئی ایم ایف سے جان چھوٹے گی، ہمیں اس راہ کو اپنانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہر چیلنج ایک موقع ہوتا ہے، چیلنج سے نمٹنے کے لئے محنت سے کامیابی ملے گی اور تاریخ میں سنہرے حروف میں ہمارا نام لکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ محدود وسائل میں ان کو بڑھانا ہے، انکم ٹیکس اور کسٹم کے ایماندار افسران قابل تعریف ہیں اور کالی بھیڑیں ناسور ہیں۔ برآمد کنندگان ،نوجوانوں کو کاروبار کے لئے وسائل فراہم کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کے لئے جامع معاشی منصوبہ بندی کریں گے۔ ایس آئی ایف سی کا غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان میں راغب کرنے میں اہم کردار ہے، رکاوٹوں اور تاخیری حربوں سے قوم کا نقصان ہوتا ہے، میکنزم کو موثر اور فعال بنانے کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ایک دوست ملک کے سفیر سے آج ملاقات کے دوران کہا کہ میں آج قرض کی نہیں سرمایہ کاری کی بات کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قابل عمل منصوبے بنانے ہیں، ہمیں اپنے ملک کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، ہم نے ایئرپورٹ کو آئوٹ سورس کرنا ہے، ہم نے سابق دور حکومت میں فزیبلٹی بنائی تھی، نگران حکومت نے اس پر عمل کیا، 15 مارچ کو اس کی بولی ہوگی لیکن اس کے لئے مجبورا ایک مہینہ بڑھانا پڑا۔ پی آئی اے کا خسارہ 840 ارب روپے ہے، مئی تک اس کی نجکاری کریں گے۔ پاکستان کڈنی لیور ہسپتال تقریباً 120 ارب روپے کا بنا تھا، 800 ارب روپے سے زراعت، تعلیم، صحت سمیت مختلف شعبوں میں انقلاب لانا ہوگا، ہمیں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، آج ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔