عمران خان سے قبل جج محمد بشیر کی عدالت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، پاکستان مسلم لیگ ن کے نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی بھی حاضر ہوئے۔
پاکستان کے دو وزرائے اعظم (عمران خان اور نواز شریف) کو سزائیں سُنانے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر آج (14 مارچ) ریٹائر ہو گئے ہیں۔
جج محمد بشیر کو پاکستان کی تاریخ میں ایک ’منفرد کردار‘ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ یہ احتساب عدالت کے وہ واحد جج ہیں جن کی عدالت میں ملک کے چار وزرائے اعظم مختلف مقدمات میں پیش ہوئے۔ اور ان چار میں سے دو وزرائے اعظم کو انھوں نے طویل دورانیے کی قید اور جرمانے کی سزائیں سنائیں۔
31 جنوری 2024 کو انھوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں 14 برس قید کی سزا اور 78 کروڑ ستر لاکھ روپے جرمانے کی سزا سُنائی تھی۔ اسی کیس میں سابق خاتون اول اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
یاد رہے کہ توشہ خانہ کیس کے اس مقدمے کی سماعت کے دوران سماعت جج محمد بشیر کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی جس کے بعد انھیں اڈیالہ جیل کے اندر ہی قائم ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا جہاں انھیں طبی امداد فراہم کی گئی۔
اس سے قبل سنہ 2017 میں جج بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال جبکہ اُن کی بیٹی اور موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو سات سال قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں۔
اس سے علاوہ مختلف کیسوں میں جج محمد بشیر کی عدالت میں سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف بھی پیش ہو چکے ہیں۔
جج محمد بشیر نے نواز شریف کو 11 سال جبکہ ان کی بیٹی مریم نواز کو سات سال قید کی سزائیں سنائی تھیں12 برس تک احتساب عدالت کے جج کے عہدے پر براجمان
جسٹس محمد بشیر اسلام آباد کی تینوں نیب عدالتوں میں انتظامی جج تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نیب کا جو بھی کیس آئے گا، اس کی سماعت جج محمد بشیر کریں گے یا اسے دوسرے ججوں کو ٹرانسفر کریں۔
پاکستان کی وزارت قانون کے قواعد کے مطابق احتساب عدالتوں کے ججوں کی تقرری تین سال کے لیے ہوتی ہے تاہم جج محمد بشیر گذشتہ 12 سال سے اسلام آباد کی نیب کورٹ نمبر ایک میں تعینات تھے۔
انھیں سنہ 2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں اس عہدے پر تعینات کیاگیا تھا۔ اس کے بعد سنہ 2018 میں نواز شریف نے انھیں دوسری بار تین سال کے لیے اس عہدے پر ایکسٹینشن دے دی تھی۔۔
ان کی مدت ملازمت سنہ 2021 میں دوبارہ ختم ہوئی لیکن اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انھیں دوبارہ تین سال کے لیے احتساب عدالت کا جج مقرر کیا۔
جج محمد بشیر کی عدالت میں چار وزرائے اعظم کی پیشی، دو کو سزا
جج محمد بشیر کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سنہ 2012 کے بعد سے آج تک انھوں نے اپنی عدالت میں چار وزرائے اعظم کو بطور ملزم پیش ہوتے دیکھا۔
ان میں پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی اور نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔
نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور ان کے داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو جج محمد بشیر نے ہی ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں بدعنوانی کا مجرم قرار دے کر جیل بھیجا تھا۔
تاہم اعلیٰ عدالتوں نے ان کے ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیا اور تینوں افراد کی سزائیں معطل کی گئیں اور انھیں اس مقدمے میں بری کر دیا گیا تھا۔
عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں جج محمد بشیر کی جانب سے 14 سال قید کی سزا سنائی گئینیب جج کی تقرری کیسے ہوتی ہے؟
احتساب عدالت کے جج کی تقرری کے لیے نام کی تجویز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے وزارت قانون کو جاتی ہے۔ اس کے بعد وزارتِ قانون اس تجویز کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھتی ہے۔
کابینہ کی رضامندی کے بعد یہ فائل صدر کے پاس جاتی ہے، جہاں اس پر حتمی فیصلہ دیا جاتا ہے۔
سیشن جج محمد بشیر کا نام اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو چیف جسٹس نے اس عہدے کے لیے تجویز کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جج محمد بشیر کو پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پاکستان تحریکِ انصاف کے دور میں توسیع ملی تھی اور جن وزرائے اعظم نے انھیں توسیع دی، وہ ان کے سامنے بطور ملزم پیش ہوئے۔
اسلام آباد میں عدالتی کارروائی پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی عامر سعید عباسی کے مطابق جج محمد بشیر کا کیریئر بہت دلچسپ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر ججوں کی تقرری صرف ایک مدت کے لیے کی جاتی ہے لیکن محمد بشیر کو اس عہدے پر چار مرتبہ بیٹھنے کا موقع ملا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ایسے بہت کم کیسز ہیں جب کسی جج کی بار بار ایک عہدے پر تقرری ہوئی ہو۔‘
عامر عباسی کے مطابق سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کو جج محمد بشیر کی عدالت سے کافی ریلیف ملا جب وہ پانچ مقدمات میں بری ہو گئے۔
محمد بشیر ایک ’پیچیدہ‘ شخصیت
بی بی سی اُردو کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ’جج محمد بشیر کسی بھی کارروائی کے دوران بہت تحمل سے فریقین کو سنتے ہیں، دلائل کو کافی وقت دیتے ہیں اور دلائل کو بڑی توجہ سے سُنتے ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار کامران خان جج محمد بشیر کو ایک ’پیچیدہ‘ شخصیت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تقریباً تمام مرکزی دھارے کی جماعتوں نے اُن کے ہاتھوں ہونے والے انصاف کا مزہ چکھا ہے۔