پاکستانی سکیورٹی حکام کے مطابق پیر کی صبح پاکستان نے افغانستان کے اندر فضائی حملوں میں پاکستانی طالبان کے مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پاکستان کی فوج کی جانب سے فوری طور پر اس پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ اس حملے کے بعد دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔
دو پاکستانی سکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ فضائی حملے پاکستان کی سرحد سے متصل خوست اور پکتیکا صوبوں میں کیے گئے۔
حکام نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا جنگی طیارے افغانستان کے اندر گئے تھے۔ پاکستانی طالبان نے بھی ایک بیان میں ان حملوں کی تصدیق کی ہے۔
پاکستان کی جانب سے یہ فضائی حملہ ایسے وقت میں ہوا جب 16 مارچ کو شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے حملے اور کلیئرنس آپریشن میں دو افسران سمیت سات فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے جوابی کارروائی کے عزم کا اظہار کیا تھا۔’ملکی میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ دہشت گردوں سے جوانوں کے بہائے گئے خون کا خراج لیں گے۔‘سنیچر کو فوجی چوکی پر حملے کی ذمہ داری ایک نو تشکیل شدہ عسکریت پسند تنظیم جیشِ فرسانِ محمد نے قبول کی تھی تاہم پاکستانی سکیورٹی حکام کا خیال ہے کہ یہ گروپ بنیادی طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے ارکان پر مشتمل ہے جو اکثر پاکستانی فوجیوں اور پولیس کو نشانہ بناتے ہیں۔پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان سے پاکستان میں حملے کرتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)اسلام آباد میں مقیم ایک سکیورٹی ماہر سید محمد علی کے مطابق پیر کے حملے ٹی ٹی پی کے سلسلہ وار حملوں کے جواب میں کیے گئے۔ خاص طور پر میر علی میں سنیچر کو ہونے والے حملہ جس میں فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔‘انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے حملے زرداری کے سخت جوابی کارروائی کے وعدے کے 24 گھنٹے کے اندر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ حملے اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ افغانستان کے اندر سے پاکستان پر مسلسل حملے کرنے والے دہشت گردوں کے لیے پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔‘
’سنگین نتائج کی دھمکی‘
افغان طالبان کے حکام نے اسلام آباد کو خبردار کیا ہے کہ اس کی سرزمین پر حملوں کے سنگین نکل سکتے ہیں۔کابل کا یہ بیان مشرقی افغانستان میں پاکستان کے فضائی حملے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں پانچ خواتین اور تین بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس طرح کے واقعات کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں جو پاکستان کے کنٹرول سے باہر ہوں گے۔‘اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ شدت پسند افغانستان سے پاکستان میں حملے کر ر ہے ہیں۔بیان میں ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ ’تقریباً تین بجے پاکستانی طیاروں نے پاکستان کی سرحد کے قریب صوبہ خوست اور پکتیکا میں شہریوں کے گھروں پر بمباری کی۔‘انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت ’ان حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور اس غیرسنجیدہ کارروائی کو افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور حملہ قرار دیتی ہے۔‘صوبہ خوست اور پکتیکا میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)بیان کے مطابق کسی کو بھی افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔طالبان ترجمان نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی جانب سے عبداللہ شاہ نامی شخص کو ہدف کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے تاہم وہ پاکستان میں ہے۔‘’دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر شمالی وزیرستان میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن‘دوسری جانب پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا ہے کہ ’17 اور 18 مارچ 2024 کی رات سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر شمالی وزیرستان میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا۔‘پیر کو دیے گئے آئی ایس پی آر کے مطابق ’آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد دہشت گرد کمانڈر سحر جانان سمیت آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ وہ 16 مارچ کو میر علی میں سکیورٹی فورسز کی چوکی پر دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھا۔‘مزید کہا گیا کہ ’علاقے میں پائے جانے والے کسی بھی دوسرے دہشت گرد کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا جا رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘