بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں کوئلے کی کان میں گیس بھر جانے سے پیش آنے والے ایک حادثے میں 18 کان کن پھنس گئے، آٹھ کو بچا لیا گیا۔
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ ’حادثہ منگل کو کوئٹہ سے تقریباً 120 کلومیٹر دور ہرنائی کی سب تحصیل خوست کے علاقے زرد آلود میں جلات خان کول کمپنی کی کان میں پیش آیا۔‘
انہوں نے بتایا ’کان میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس بھر جانے سے دھماکا ہوا جس کےنتیجے میں کان منہدم ہوگئی۔ وہاں کام کرنے والے دس کان کن کئی سو فٹ گہرائی میں پھنس گئے۔‘
’حادثے کے بعد پھنسے ہوئے کان کنوں کو نکالنے کے لیے ان کے آٹھ ساتھی نیچے اترے تو وہ بھی گیس کی وجہ سے اندر پھنس گئے۔‘
چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق’ کان کنوں کو بچانے کے لیے اندر جانے والے ان آٹھ کان کنوں کو امدادی ٹیموں نے بچالیا ہے جو خود پھنس گئے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ’ ریسکیو کیے جانے والے کان کنوں کی حالت خطرے سے باہرہے۔‘
’باقی پھنسے ہوئے کان کنوں کو بھی بچانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کوئٹہ اور ہرنائی کے علاقے شاہرگ سے امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ پھنسے ہوئے دس میں سے دو کان کنوں کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ باقی آٹھ کان کن گہرائی میں ملبے تلے پھنسے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں کوئلہ کی کانوں میں حادثات معمول ہیں۔انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کان کے منہدم ہونے اورزہریلی گیسوں کے جمع ہونے سمیت مختلف وجوہ کے نتیجے میں پیش ہونے والے حادثات میں بلوچستان میں ہرسال اوسطاً 100 سے 200 کان کن ہلاک ہوجاتے ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کوئٹہ، بولان، ہرنائی، لورالائی اور دکی سمیت بلوچستان کے کئی اضلاع میں کوئلے کے پچیس کروڑ ٹن سے زائد کے ذخائر موجود ہیں۔
بلوچستان کا پنجاب اور سندھ سمیت ملک بھر کی کوئلہ اینٹوں کے بھٹوں اور سیمنٹ کے کارخانوں سے لے کر پاور پلانٹس تک کئی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔
کان کنی کے شعبے سے بلوچستان میں ستر ہزار سے زائد مزدور وابستہ ہیں ۔مزدور تنظیموں کے مطابق کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات اور سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث اب تک ہزاروں کان کن مختلف حادثات میں زندگی کھو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی ) نے نومبر 2022 میں بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں حقوق کی خلاف ورزیوں پر’فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ‘جاری کی تھی جس میں کان کنی سے ہونے والی اموات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق کان کنی کے قدیم طریقے، پرانی ٹیکنالوجی اور ناکافی حفاظتی آلات کے استعمال سے صوبے میں کوئلے کے کان کنوں کے لیے اس شعبے میں کام کرنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔