پاکستان کی حکومت نے امریکہ کے اس انتباہ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اگر گذشتہ مہینے ہونے والے انتخابات میں ’بے ضابطگیوں‘ کی تحقیقات نہ کی گئیں تو دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جن انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگے اس کے نتیجے میں دو بڑی سیاسی جماعتیں وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انہی انتخابات کی وجہ سے پابند سلاسل سابق وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے دور رکھا گیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ ’جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کے اعلٰی سفارت کار ڈونلڈ لو کی جانب سے دیے جانے والے انتباہ سے عیاں ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورت حال اور انتخابی قوانین کو سمجھنے میں غلطی کی گئی۔‘
انہوں نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم اس غلط فہمی کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے پرامید ہیں تاکہ دونوں ممالک تعاون کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔‘
ڈونلڈ لو نے بدھ کو امریکی قانون سازوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کو پاکستان میں فروری میں ہونے والے الیکشن، میڈیا اور سوشل میڈیا میں تعطل اور طویل عرصے سے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش پر’سنجیدہ نوعیت کے تحفظات‘ ہیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ بے ضابطگیوں کا پتہ چلائے اور جہاں ثابت ہو جائیں وہاں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔‘
امریکی سفارت کار نے پاکستان کے انتخابات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ڈونلڈ لو کے مطابق ’ہم پاکستان کے ساتھ 76 سالہ تعلق رکھتے ہیں اور اگر پاکستان اپنے آئین کے مطابق جمہوری عمل کو برقرار نہیں رکھتا تو اس سے ہمارے تعلقات میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کو فوج کے حوالے سے کسی بڑی فروخت کے بارے میں نہیں سوچ رہا۔