پاکستان کے صوبے بلوچستان سے سینیٹ کی تمام 11 نشستوں پر حکومتی اتحاد کے امیدوار بلا منتخب ہو گئے ہیں۔ حکومتی اتحاد اس کو اتفاقِ رائے کا ثمر قرار دیتی ہے جبکہ مبصرین اس سے متّفق نہیں۔
صوبہ بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز پر مشتمل حکمران اتحاد صوبے سے سینیٹ کی خالی ہونے والی تمام 11 نشستوں پر بلا مقابلہ امیدواروں کو منتخب کروانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
ماضی میں بلوچستان میں سینیٹ انتخابات میں پیسے کے استعمال کے حوالے سے سنگین الزامات لگتے آئے ہیں۔ ووٹوں کی مبینہ خرید و فروخت کے نتیجے میں جہاں صوبے کے باہر سے تعلق رکھنے والے افراد بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوتے رہے ہیں، وہیں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بڑے ٹھیکیدار اور سرماِیہ دار بھی سینیٹر بنتے رہے ہیں۔
بعض سیاسی رہنماؤں اور مبصرین کی رائے میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو ماضی کی طرح اس بار بھی اپنے بعض اراکینِ اسمبلی کے بِک جانے کا ڈر تھا۔ اس ہی لیے ان دونوں جماعتوں نے تمام نشستوں پر امیدواروں کو بلا مقابلہ کامیاب کروانے کی حکمت عملی اپنائی۔ اس مقصد کے لیے صوبائی کابینہ کی تشکیل میں بھی تاخیر کی گئی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اور حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں امیدواروں کو بلامقابلہ کامیاب کروانے کی حکمت عملی بلوچستان پر ووٹوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے لگے دھبے کو صاف کرنے کے لیے اپنائی گئی ہے۔
تاہم، وہ کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی وجہ مخلوط حکومت ہونے کے باعث زیادہ سے زیادہ مشاورت اور دیگر اہم مصروفیات کو قراردیتے ہیں۔
سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلنے کے الزامات بلوچستان میں ہی زیادہ کیوں ہوتے تھے۔ اس بار تمام سینیٹرز کا بلامقابلہ انتخاب کیسے ممکن ہوا، کیا بلامقابلہ منتخب ہونے کی یہ روایت مستقبل میں بھی قائم رکھی جا سکے گی اور کیا آئندہ بلوچستان میں سینیٹ انتخابات میں سرمایہ نہیں لگے گا؟ اس حوالے سے سیاسی مبصرین کی رائے جاننے سے پہلے بلامقابلہ منتخب ہونے والے سینیٹروں کا تذکرہ کر لیا جائے۔
بلوچستان سے بلامقابلہ منتخب ہونے والے سینیٹرز کا تعلق کن جماعتوں سے ہے؟
بلوچستان میں مجموعی طور پر سینیٹ کی سات جنرل نشستوں، اور ٹیکنوکریٹس اور خواتین کی دو دو نشستوں پر تمام امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔
سات جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والوں میں مسلم لیگ ن کے سیدال خان ناصر اور آغا شاہ زیب درانی، پیپلز پارٹی کے سردار محمد عمر گورگیج، نیشنل پارٹی کے جان محمد بلیدی، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی خان اور جمیعت العلماء اسلام کے احمد خان خلجی اور شامل ہیں۔ جبکہ سابق وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے ہیں۔
ٹیکنو کریٹس کی دو نشستوں پر جے یوآئی کے رہنما مولانا عبدالواسع اور پیپلز پارٹی کے بلال مندوخیل جبکہ خواتین کی نشستوں پر نواز لیگ کی راحت جمالی اور پیپلز پارٹی کی حسنہ بانو کامیاب ہوئی ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی خان خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے دوسرے رہنما ہیں جو بلوچستان سے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ان سے قبل جمیعت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان حالیہ عام انتخابات میں پشین سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ایمل ولی خان اور مولانا فضل الرحمان دونوں کو خیبر پختونخوا میں اپنے اپنے آبائی علاقوں سے عام انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بلوچستان سے سینٹ کے عام انتخابات میں امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرانے کے لیے کوششوں کا آغاز وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں پہلے پیپلز پارٹی کی جانب سے کیا گیا۔
میر سرفراز بگٹی نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی حیثیت سے رواں مہینے کی دو تاریخ کو حلف اٹھایا کیا بلوچستان میں پہلی دفعہ تمام امیدوار بلامقابلہ سینیٹ کے لیے منتخب ہوئے؟
دو اپریل کو سینیٹ کے انتخاب کے لیے بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں کی جانب سے امیدوار کھڑے کیے گئے تھے۔
تاہم، صوبائی میں شامل تین بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور جمیعت العلماء اسلام کے درمیان تمام نشستوں پر بلامقابلہ امیدوار لانے پر اتفاق ہونے کی وجہ سے نوبت ووٹنگ تک نہیں پہنچی۔
اس سوال پر کہ آیا ماضی میں بلوچستان سے سینیٹ کے تمام امیدواروں کے بلامقابلہ منتخب ہونے کی نظیر ملتی ہے، تجزیہ کار سید علی شاہ کا کہنا تھا کہ پہلے بھی بلوچستان سے لوگ بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن زیادہ سے زیادہ ایک یا دو نشستوں پر۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اتفاق رائے کی روایت موجود ہے، حتیٰ کہ بعض وزراء اعلیٰ بھی اتفاق رائے سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن جہاں تک تمام نشستوں پر سینیٹرز کے بلا مقابلہ انتخاب کی بات ہے تو یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فراخت کے الزامات
بلوچستان اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 65 ہے جو باقی اسمبلیوں کے اراکین کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔
سینیٹ میں چونکہ تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی حاصل ہے، اس لیے باقی اسمبلیوں کے ووٹ کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود بلوچستان کے 65 ووٹوں کے برابر ہیں۔
سیاسی مبصر رفیع اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایک سینیٹر کو منتخب ہونے کے لیے باقی صوبوں کے مقابلے میں کافی کم ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہی صوبے میں سینٹ کے انتخاب میں ووٹوں کی خرید و فروخت معمول بن گئی تھی۔
بلوچستان سے جنرل نشستوں پر منتخب ہونے کے لیے ایک سینیٹر کو محض 6 سے 8 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے بہت کافی بدنام ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں سینیٹر بننے کے لیے بہت کم ووٹوں کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے نہ صرف باہر سے آکر لوگ ووٹ خریدتے رہے ہیں بلکہ خود بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ٹھیکیدار اور سرمایہ دار بھی پیسہ لگا کر سینیٹر بنتے رہے ہیں۔‘
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیوں کے مالک یا صنعتکار سینیٹر بن کر اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے وفاقی حکومت سے بہت سارے کام نکلوا سکتے ہیں۔ اس کے لیے اگر وہ چند کروڑ لگالیں گے تو یہ ان کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں۔
ان کا دعوٰی ہے کہ سنہ 2018 میں بلوچستان میں ایک پارٹی سے منتخب ہونے والے ایک کمپنی کے مالک پر الزام لگا تھا کہ انھوں نے سینیٹر بننے کے لیے 35 کروڑ روپے لگائے ہیں۔ اس مرتبہ انھوں نے اس پارٹی کو چھوڑ کر ایک دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کی اور وہ دوسری پارٹی سے بھی باآسانی سینیٹر بن گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس مرتبہ الیکشن تو نہیں ہوئے لیکن لوگ اس حوالے سے انگلیاں اٹھا رہے ہیں کہ راتوں رات کیسے ایک شخص کسی دوسری جماعت میں شامل ہوکر سینیٹر بن گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس جماعت سے وہ شخص سینِیٹر بنے ہیں، اس جماعت کے اندر سے بہت سے لوگ اس بات سے ناراض ہیں کہ ایک سرمایہ دار کے لیے ان کو نظر انداز کیا گیا۔
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخاب میں پیسوں کا استعمال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ماضی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک رکنِ صوبائی اسمبلی نے سنییٹر منتخب ہونے والے ایک سرمایہ دار کے وہ پیسے لوٹا دیے تھے جو انھوں نے اقلیتی رکن کو اپنے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے دیے تھے۔‘
’سرمایہ دار نے سینیٹر منتخب ہونے سے پہلے ایڈوانس میں اقلیتی رکن کو پیسے دیئے تھے کیونکہ وہ ان اراکین اسمبلی کے پینل میں شامل تھے جنھوں نے اس سرمایہ دار کو ووٹ دینا تھا۔ تاہم، انتخاب والے دن اقلیتی رکن کا نام اس پینل سے نکال دیا گیا تھا جس کی وجہ سے انھوں نے اس سرمایہ دارکو ووٹ نہیں دیا تھا جس کے بعد انھوں نے پیسے واپس کردیئے تھے۔‘
تجزیہ کار سید علی شاہ کا بھی ماننا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے ماضی میں منڈی لگتی رہی ہے اور یہاں اراکین اسمبلی مبینہ طور پر بکتے رہے ہیں۔
اس بار تمام سینیٹرز کا بلامقابلہ انتخاب کیسے ممکن ہوا؟
سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ ووٹوں کی منڈی اس لیے نہیں لگی کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان سینیٹ کے تمام امیدواروں کو بلامقابلہ لانے پر اتفاق رائے ہوا۔
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ اس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو جاتا ہے کہ انھوں نے بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی تیسری بڑی جماعت، جمیعت العلمائے اسلام کے ساتھ مل کر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ قانون سازی کے حوالے سے سینیٹ کی اپنی اہمیت ہے اس لیے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت کی کوشش ہے کہ سینیٹ میں ان کی اکثریت ہو۔ اس لیے انھوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ بلوچستان سے ان کو زیادہ سے زیادہ ووٹ ملیں۔
کیا بلامقابلہ انتخاب کی روایت مستقبل میں بھی قائم رہے گی؟
رفیع اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ اس دفعہ بلوچستان تمام سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔
’بظاہر تو خرید و فروخت کے مقابلے میں یہ ایک بہتری نظر آتی ہے لیکن ایک صحت مند جمہوری نظام میں بلامقابلہ منتخب ہونا کوئی اچھی روایت نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں عوام سیاسی جماعتوں کو ان کے منشور اور وژن کے مطابق کرتی ہیں اور وہ اس کے لیے مقابلہ کرتی ہیں۔
رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ کہ ’بلامقابلہ منتخب ہونے کا ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان تمام سیاسی جماعتوں کا منشور اورپروگرامایک ہی ہے۔‘
ان کے مطابق، اگر ایسا ہے تو پھر ان جماعتوں کو ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’اوراگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ شکوک ٹھیک ہیں کہ بعض جماعتوں کو اپنے اراکین پر اعتماد نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اعتماد کے فقدان کی ثبوت یہ ہے کہ تاحال کابینہ کی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔ ان جماعتوں کو خدشہ تھا کہ اگر کابینہ کی تشکیل پہلے کردی گئی تو ووٹوں کی خرید و فروخت ہوگی اور الیکٹیبلز پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ کریں گے۔
رفیع اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ ملک میں اکثر جماعتیں حقیقی معنوں میں سیاسی جماعتیں نہیں ہیں بلکہ الیکٹیبلز کے جم گھٹے اور ٹولے ہیں۔ ’یہ الیکٹیبلز پانچ سال ایک جماعت میں ہوتے ہیں اور پانچ سال دوسری جماعت میں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بلامقابلہ منتخب ہونا کسی طرح خوش آئند بات نہیں ہے کیونکہ اس سے سینیٹ کی تقدس کم ہوگا۔
سینیٹ کا کردار چھوٹے صوبوں کی آواز بننا ہے لیکن ایسے طور طریقوں سے اس کا یہ کردار ختم ہوگیا ہے۔
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا کہ انھیں نہیں لگتا ہے کہ بلامقابلہ سینیٹر منتخب کروانے کی یہ روایت مستقبل میں بھی جار رکھی جا سکے گی۔

کیا مستقبل میں بلوچستان میں سینیٹ انتخابات میں پیسوں کا استعمال روکا جا سکے گا؟
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں اور مقتدرہ جس کا ہمیشہ سے بلوچستان کے معاملات میں ایک واضح کردار رہا ہے چاہیں تو سینیٹ کے انتخابات میں پیسے کے استعمال کی روک تھام ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سینٹ کے انتخاب میں پیسے کا استعمال نہیں ہوگا تو اس سے بلوچستان کے منتخب لوگ، اس کی سیاست اور اسمبلی بدنام نہیں ہوگی۔
تاہم وہ زیادہ پر امید نہیں دکھائی دیتے۔
انھوں نے کہا کہ ’ماضی میں ووٹوں کی فروخت کے باعث متعدد اراکین بلوچستان اسمبلی راتوں رات کروڑ پتی بنے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ ایسا نہ ہونے پر شاید بہت سے اراکین اسمبلی ناخوش بھی ہوں گے کہ کمائی کا ایک موقع ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ کیونکہ انھوں نے اسمبلی تک پہنچنے کے لیے اچھا خاصا سرمایہ لگایا ہوتا ہے۔
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ انتخابات میں سرمایہ کاری کیروک تھام کے لیے سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ’جب لوگ بکنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے تو پھر کوئی ان کو کیسے خرید سکے گا؟
سینٹ انتخاب کی وجہ سے کابینہ کی تشکیل میں تاخیر
میر سرفراز بگٹی نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے رواں مہینے کی دو تاریخ کو حلف اٹھایا لیکن تاحال انھوں نے اپنی کابینہ تشکیل نہیں دی۔
ماضی میں بھی بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل میں مخلوط حکومتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے یا دیگر مسائل کی وجہ سے تھوڑی بہت تاخیر ہوتی رہی ہے۔ لیکن بعض مبصرین اور سیاسی رہنماؤں کہ رائے میں اس مرتبہ تاخیر سینیٹ انتخابات کی وجہ سے کی گئی ہے۔
صدارتی انتخاب کے موقع پر گوادر حق دو تحریک کے رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے دعوٰی کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی مرکزی قیادت کو اپنے اراکین اسمبلی پر اعتماد نہیں اور اس لیے کابینہ کی تشکیل کو موخر کیا گیا تاکہ سینٹ کے انتخاب میں ان کے اراکین بک نہ جائیں۔
سید علی شاہ بھی اس بات سے متفق نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان جماعتوں کو اپنے اراکین پر اعتماد ہوتا تو وزیراعلیٰ کے حلف اٹھانے کے اگلے روز ہی کابینہ تشکیل دے دی جاتی لیکن اعتماد کے فقدان کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ دونوں جماعتوں کے ہر رکنِ اسمبلی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ نہ صرف ان کو کابینہ میں شامل کیا جائے بلکہ ان کو اچھی وزرات بھی دی جائے۔ سینیٹ انتخاب سے پہلے ان اراکین کے مطالبات کی تکمیل نہ ہونے کی صورت میں وہ پھسل سکتے تھے اس لیے کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی گئی تاکہ سینیٹ کے انتخاب میں مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
ان خیال میں تمام سینٹرز کے بلامقابلہ منتخب ہونے کے نعد کابینہ کی تشکیل میں مزید تاخیر نہیں کی جائے گی۔
’بلوچستان پر لگے دھبے صاف کرنے کے لیے سینیٹرز کو بلامقابلہ منتخب کروایا‘
حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنمائوں نے اس تاثر کو سختی سے رد کیا ہے کہ اعتماد کے فقدان کی وجہ سے سینیٹرز کو بلامقابلہ منتخب کروایا گیا ہے۔
اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے سینیٹ میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے بلوچستان پر لگے داغ کو صاف کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک سیاسی ماڈل اپنایا ہے جس کے تحت ہم تمام معاملات کو اتفاق رائے سے چلانا چاہتے ہیں۔
سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ صرف سینیٹ کے انتخاب میں اتفاق رائے نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعلیٰ کا انتخاب بھی اتفاق رائے سے ہوا ہے۔
مسلم لیگ نواز بلوچستان کے صدر شیخ جعفر مندوخیل کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قائم کردہ یہ روایت ایک رول ماڈل ہے۔
’بلوچستان میں سینیٹرز کے انتخاب کے لیے استعمال ہونے والے ذرائع کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے اتفاق رائے سے سینیٹرز کو منتخب کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ہم نے سولو فلائٹ نہیں لی بلکہ ہر معاملے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں معاملات بہت زیادہ بگڑ چکے ہیں جن کو اتفاق رائے کے بغیر چلایا نہیں جاسکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما میر صادق عمرانی نے سینیٹ کے انتخابات میں پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے کو اچھی پیشرفت قرار دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس مرتبہ اتفاق رائے سے ہر پارٹی کو اس کی نمائندگی کے حساب سے اس کا حصہ ملا ہے۔