مختار انصاری کی دورانِ حراست موت: ’پاپا نے بتایا تھا کہ انھیں ’سلو پوائزن‘ دیا جا رہا ہے‘

بی بی سی نے پچھلے چند دنوں کے واقعات پر نظر دوڑا کر یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا مختار انصاری کی موت واقعی اچانک ہوئی یا وہ اور ان کے اہل خانہ کو کچھ اور شک تھا۔ اب اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے اس معاملے کی مجسٹریٹ انکوائری قائم کرتے ہوئے ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

جمعرات کی رات اتر پردیش کے طاقتور سیاست سیاسی رہنما مختار انصاری کو بے ہوشی کی حالت میں باندا کی ہسپتال پہنچایا گیا اور تقریباً ایک گھنٹے بعد ان کی وفات ہو گئی۔ مگر گذشتہ کچھ دنوں سے باندا جیل اور ہسپتال سے مختار انصاری کی بگڑتی ہوئی صحت کی خبریں سامنے آ رہی تھیں۔

ان کے گھر والوں کا یہ بھی الزام تھا کہ انھیں ’سلو ایکٹنگ‘ زہر دے کر مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہم نے گذشتہ چند دنوں کے واقعات پر نظر دوڑا کر یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا مختار انصاری کی موت واقعی اچانک ہوئی یا وہ اور ان کے اہل خانہ کو کچھ اور شک تھا۔

اب اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے اس معاملے کی مجسٹریٹ انکوائری قائم کرتے ہوئے ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

مختار انصاری نے اپنے بیٹے کو اپنی صحت کے بارے میں بتا دیا تھا

باندا میں موت کے بعد مختار انصاری کا چہرہ دیکھ کر ہسپتال سے باہر آنے والے ان کے چھوٹے بیٹے عمر انصاری کا کہنا تھا کہ ’پاپا نے خود ہمیں بتایا ہے کہ انھیں ’سلو پوائزن‘ دیا جا رہا ہے لیکن شنوائی نہ ہو سکی۔‘

اب مختار انصاری کی موت کے بعد جیل سے ان کے بیٹے عمر سے گفتگو کی آڈیو وائرل ہوئی ہے۔

جس میں مختار انصاری کی خاصی نحیف آواز سنی جا سکتی ہے۔ مختار انصاری اپنے بیٹے عمر سے کہتے ہیں ’18 مارچ کے بعد کوئی روزہ نہیں رکھا۔‘

عمر، مختار انصاری کو بتاتے ہیں کہ انھوں نے میڈیا رپورٹ میں مختار انصاری کو ہسپتال جاتے ہوئے دیکھا جس میں وہ بہت کمزور نظر آ رہے تھے۔

اپنے والد کو حوصلہ دیتے ہوئے عمر کا کہنا تھا کہ وہ عدالتوں سے ان سے ملنے کی اجازت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اپنی کمزوری بیان کرتے ہوئے مختار انصاری کہتے ہیں کہ وہ ’بیٹھ نہیں سکتے۔‘ جواب میں عمر کہتے ہیں کہ ابا جان ہم (آپ پر) زہر کے تمام اثرات دیکھ رہے ہیں۔

مختار انصاری مزید کہتے ہیں کہ ’اگر اللہ مجھے زندہ رکھتا تو پھر روح ہی باقی رہے گی کیونکہ جسم ساتھ نہیں دے ریا ہے، اب میں وہیل چیئر پر آیا ہوں اور وہیل چیئر پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔‘

صبح آئی سی یو میں سوال اور شام کو واپس جیل

26 مارچ یعنی منگل کی صبح عمر انصاری نے پولیس کی جانب سے مقامی میڈیا کو موصول ہونے والا ایک ریڈیو پیغام بھیجا جس میں لکھا گیا کہ مختار انصاری کی طبیعت خراب ہونے کے بعد انھیں باندا میڈیکل کالج کے ای سی یو میں داخل کرایا گیا ہے۔

مختار انصاری کے بھائی اور سابق رکن اسمبلی افضل انصاری جب ان سے ملے اور بندا میڈیکل کالج کے آئی سی یو سے باہر آئے تو انھوں نے باہر موجود میڈیا کو بتایا کہ انھیں مختار سے پانچ منٹ ملنے کا موقع ملا اور وہ ہوش میں آ گئے۔

افضل انصاری نے بتایا کہ ان کے بھائی مختار انصاری کا ماننا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں کھانے میں کوئی زہریلی چیز پلائی گئی تھی۔ افضل نے کہا کہ یہ 40 دن پہلے بھی ہوا تھا۔

ہسپتال میں علاج کی کوتاہیوں کے بارے میں افضل انصاری نے کہا کہ ’ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ سرجن ہیں، مختار کو قبض ہے، ایک سرجن اور اس کے دو ساتھی ان کا علاج کر رہے ہیں، انھیں بروقت ریفر کریں۔‘

افضل انصاری کے مطابق انھوں نے بندا میڈیکل کالج کے پرنسپل سے ملاقات کا مطالبہ کیا تاہم وہ ان سے ملاقات نہیں کر سکے۔

جمعرات کی رات ہسپتال واپس آئے اور پھر فوت ہو گئے

جمعرات کی رات اچانک باندا میڈیکل کالج کے ارد گرد سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔

پولیس کی گاڑیوں کے ساتھ ایمبولینس میڈیکل کالج پہنچ گئی۔

مختار انصاری کو تقریباً آٹھ بجکر بجے ایمبولینس سے باہر نکالا گیا۔ ان کی ویڈیو بھی وائرل ہوگئی۔

اس ویڈیو کے حوالے سے مختار انصاری کے بڑے بھائی صبغت اللہ انصاری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آپ فوٹیج دیکھیں، جب انھیں ایمبولینس سے باہر نکالا جا رہا تھا تو ان کا ہاتھ بالکل بے جان سٹریچر کے باہر لٹکا ہوا تھا۔۔۔‘

آخر میں وہ الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کوئی علاج نہیں کروایا گیا، اسی طرح انھیں جیل میں سسکتے ہوئے چھوڑ دیا گیا۔ اسے قتل کرنے کی سازش کے ساتھ جیل میں رکھا گیا تاکہ اس کا کوئی علاج نہ ہو سکے۔‘

عدالت کو قتل کی ’سازش‘ کے بارے میں بتایا

21 مارچ کو مختار انصاری کے وکلا نے ماؤ کی ایم پی ایم ایل عدالت کو بتایا کہ 19 مارچ کو باندا کی جیل انتظامیہ نے ان کے کھانے میں زہر ملا کر انھیں مارنے کی کوشش کی۔

وکلا نے عدالت کو بتایا کہ اس سے قبل بھی دو بار قتل کی سازش ہو چکی ہے۔

عدالت کو لکھے گئے اس خط میں انھوں نے بڑے مقامی رہنماؤں اور بی جے پی کے طاقتور رہنماؤں پر اس سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔

26 مارچ کو سپریم کورٹ نے بانڈا جیل سپرنٹنڈنٹ کو مختار انصاری کو طبی سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر مختار انصاری کو کسی خاص علاج کی ضرورت ہے تو اس کے لیے انتظامات کیے جائیں۔

27 مارچ کو یعنی مختار انصاری کی موت سے صرف ایک دن پہلے ماؤ کی عدالت میں ایک بار پھر سپریم کورٹ کے اس حکم کا حوالہ دیتے ہوئے مختار انصاری کے وکلا نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ ان کے موکل کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے حکم دیں۔

اگر عدالت میں اس طرح کے سنگین الزامات لگائے جا رہے تھے اور جس میں مقامی رہنماؤں اور مضبوط لوگوں پر ان کے قتل کی سازش کا الزام لگایا گیا تھا، تو انتظامیہ کو کیا اقدامات کرنے چاہیے تھے؟

سپریم کورٹ میں مختار انصاری کے وکیل دیپک سنگھ کا کہنا ہے کہ ’اگر مقامی عدالت میں زہر دینے کا الزام لگایا جا رہا ہے تو ضلعی انتظامیہ کو مختار انصاری کے ارد گرد تعینات جیل کے عملے کو تبدیل کرنا چاہیے تھا۔‘

ایڈوکیٹ دیپک سنگھ کا کہنا ہے کہ ’حکومت کا کہنا ہے کہ موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے، لیکن جب تک پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں آتی، ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ابتدائی طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ دل کا دورہ ہے۔‘

آخر میں عمر انصاری کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ہم عدالت کے ذریعے قانونی راستے سے آگے بڑھیں گے۔ ہمیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے۔‘

کیس میں اپنے ملوث ہونے کے حوالے سے عمر نے کہا کہ ہم کچھ کہنا پسند نہیں کریں گے، سب کچھ ابھی تحقیق طلب ہے، ہمیں یقین ہے کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی انصاف ہوگا۔

اس پورے معاملے پر اتر پردیش حکومت اور محکمہ پولیس کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

اور نہ ہی مختار انصاری کے اہل خانہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر کوئی باقاعدہ وضاحت دی گئی ہے۔

تحقیقات کا لیے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو اب ایک ماہ بعد رپورٹ پیش کرے گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US